ایک غیر سیاسی کالم!
آج آپ کو ایک جنگل کی کہانی کیوں نہ سنائی جائے:یہ ایک شیر اور لومڑی کی کہانی ہے، ظاہر ہے شیر بہت طاقتور تھا اور لومڑی اس کے مقابلے میں بہت کمزور، مگر چالاکی میں پورے جنگل میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ایک دفعہ شیر اور لومڑی میں کسی بات پر ٹھن گئی، لومڑی کے دل میں گرہ بیٹھ گئی ،اس نے شیر کو بے دست و پا بنانے کا ارادہ کرلیا۔
لومڑی نے جنگل میں ایک بیوٹی پارلر کھول لیا اور جنگل کے بادشاہ سے استدعا کی کہ وہ اس کا افتتاح کرے۔جنگل کا بادشاہ یعنی شیر یہ سن کر ہنسا اور اس نے کہا ’’بناؤ سنگھار کے کاموں سے میرا کیا تعلق، یہ کام تم کسی اور سے کراؤ۔‘‘ لومڑی بولی،’’ عالی جاہ! میں آپ کی ریپوٹیشن بہتر بنانا چاہتی ہوں، آپ کے متعلق آپ کے دشمن روزانہ نت نئی افواہیں پھیلاتے ہیں، آپ کو تنگ نظر مشہور کیا جارہا ہے، قدامت پسند کہا جاتا ہے اور آپ کو روشن خیالی کا دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آپ بیوٹی پارلر کا افتتاح کریں گے تو آپ کے متعلق یہ افواہیں خود بخود دم توڑ جائیں گی‘‘۔شیر نے ایک لمحہ اس کی بات پر غور کیا اور پھر افتتاح کی ہامی بھر لی۔
شیرنے بیوٹی پارلر کا فیتہ کاٹا، ریچھ، گیڈر، لکڑ بگڑ اور دوسرے جانوروں نے بھرپور تالیاں بجائیں، اسٹیج سیکریٹری بندر تھا اس نے پہلے تو اچھل اچھل کر داد دی پھر مائیک پر آ کر کہا، ’’شہنشاہ دوراں آج آپ نے اس محفل میں تشریف لاکر ثابت کر دیا ہے کہ آپ ایک روشن خیال حکمراں ہیں، بنائو سنگھار کی سرپرستی سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ آپ احساس ِ جمال سے بہرہ ور ہیں، آپ خوبصورتی اور حسن کو پسند کرتے ہیں۔ یوں آپ کی ذات کے حوالے سے کیا جانے والا یک طرفہ پروپیگنڈہ زائل ہوگیا ہے‘‘۔شیر کو یہ ساری باتیں عجیب سی لگ رہی تھیں مگر اس نے حاضرین کو تالیاں بجاتے دیکھا تو ان باتوں سے اس کی اجنبیت کم ہونے لگی، تقریب کے بعد لومڑی لہنگا پہن کر اسٹیج پر آئی، اس نے سات بار جھک کر ’’شہنشاہ سلامت‘‘ کو سلام کیا اور کہا، ’’یہ باندی آپ کی آمد کا شکریہ ادا کرتی ہے ۔ اب آپ کی آمد کی خوشی میں مجرا پیش کرتی ہے۔‘‘ پھر اس نے جی بھر کر مجرا کیا، شیر پہلے تو حیرت سے یہ سب کچھ دیکھتا رہا پھر اسے لطف آنے لگا چنانچہ رقص و سرود کی یہ محفل ساری رات جاری رہی۔
صبح لومڑی جنگل کے دوسرے جانوروں کے پاس گئی اور کہا، ’’شیر کی چیر ہ دستیوں میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے، اب تو وہ مجھ ایسی شریف زادیوں سے زبردستی مجرا بھی کرواتا ہے، پہلے اس کے ہاتھوں کسی کی جان محفوظ نہیں تھی، اب کسی کی عزت بھی محفوظ نہیں رہی، اس طرح کی دو تین ملاقاتوں کے نتیجے میں وہ شیر کے خلاف جنگل کے جانوروں کا ایک اتحاد تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئی۔ اس اتحاد میں چیتا، بھیڑیا اور سانپ شامل تھے۔ کہا گیا تھا کہ اگر اتحاد کامیاب ہوگیا تو تمہیں خوراک کے سلسلے میں کوئی تردد نہیں کرنا پڑے گا ، تمہارا دستر خوان انواع و اقسام کے کھانوں سے بھر دیا جائے گا۔ایک دن لومڑی شیر کے پاس گئی اور کہنے لگی ’’ظل الٰہی،جان کی امان پائوں تو کچھ عرض کروں،‘‘ ظل الٰہی اس وقت ایک ہرن نوش جاں فرمانے کے بعد اونگھ رہے تھے، غنودگی کے عالم میں بولے ’’کہو‘‘ لومڑی نے دست بستہ عرض کی، ’’شہنشاہ دوراں، آپ کی روشن خیالی کی دھوم تو پورے جنگل میں ہے،لیکن چیتے، ریچھ اور سانپ نے آپ کے خلاف ایک کولیشن تشکیل دیاہے۔ آپ جانتے ہیں یہ بہت ظالم جانور ہیں، ان سب سے بیک وقت ٹکرانا مصلحت کے خلاف ہے میرے پاس ایک تجویز ہے جس سے ان کے غبارے سے ہوا نکالی جاسکتی ہے‘‘۔شیر نے دھاڑتے ہوئے کہا، ’’تجویز پیش کی جائے۔‘‘ لومڑی بولی، بادشاہ سلامت، آپ کے خلاف سارا پروپیگنڈا آپ کے پنجوں اور آپ کے جبڑے کی وجہ سے ہے، اس پر شیر نے غصے سے لومڑی کو دیکھا اور دھاڑتے ہوئے کہا، ’’تو کیا میں یہ نکلوا دوں۔‘‘ لومڑی بولی،’’ خدا نہ کرے ایسا ہو لیکن اگر آپ صرف پنجوں کے ناخن کٹوا دیں اور سامنے والے دانت نکلوا دیں تو آپ کی طاقت بھی بحال رہے گی اور دشمن کا پروپیگنڈا بھی خاک میں مل جائے گا‘‘۔ شیر کو ڈر تھا کہ کہیں چیتے اور بھگیاڑ مل کر اس کی بادشاہت کا خاتمہ نہ کردیں، اس نے بادل نخواستہ لومڑی کی یہ تجویز منظور کرلی۔
اگلے روز شیر شکار کے لئے اپنے کچھار سے نکل کر ایک ہرن پر جھپٹا، اس نے دوڑ لگا دی کئی کلو میٹر دوڑنے کے بعد شیر نے اسے قابو کرلیا لیکن جب اس کے جسم میں اپنے پنجے گاڑنا چاہے تو ناخن نہ ہونے کی وجہ سے یہ پنجہ پھسل گیا اور اپنے دانت ہرن کی گردن میں گاڑنے کی کوشش کی تو یہ کوشش بھی ناکام رہی۔ اس جدوجہد کے دوران ہرن اپنی جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کے بعد شیر نے کئی دوسرے جانوروں پر قسمت آزمائی کی لیکن کوئی بھی اس کے قابو نہ آیا، شام تک بھوک کے مارے اس کا برا حال ہوگیا اور بالآخر وہ نڈھال ہو کر گر گیا۔ اس کی آنکھیں اس وقت خوشی سے چمک اٹھیں جب اس نے رات کو لومڑی کو اپنی کچھار میں آتے دیکھا۔ لومڑی اسے دیکھ کر کورنش بجا لائی نہ اسے ظل الٰہی یا شہنشاہ دوراں کہا بلکہ ایک فاصلے سے اسے مخاطب کیا اور طنزیہ انداز میں کہا، ’’بھوک تو بہت لگی ہوگی؟‘‘ شیر نے نقا ہت سے کہا ’’ہاں بہت زیادہ ! تم میرے لئے کھانے کا بندوبست کر و۔ میں نے تمہارے مشورے پر اپنے ناخن کٹوائے اور اگلے دو دانت نکلوائے۔ اب یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ میرے لئے دو وقت کے گوشت کا بندوبست کرو۔‘‘ لومڑی نے یہ سن کر قہقہہ لگایا اور کہا ’’بیوقوف چوپائے کوئی کسی کے لئے کچھ نہیں کرتا….ہاں تمہارے ساتھ چونکہ ایک تعلق بن گیا ہے میں تمہارے لئے گوشت تو نہیں گھاس کا انتظام کرسکتی ہوں‘‘۔
یہ سن کر شیر کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ وہ اس پر حملہ کرنے کے لئے جھپٹا مگر لومڑی جو پہلے سے چوکس تھی اور شیر جو ایک دن کے فاقے سے نڈھال اسے پکڑنے میں ناکام رہا۔ تیسرے دن لومڑی پھر اس کے پاس آئی ،شیر نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑا تھا۔ اس نے لومڑی کو دیکھا تو کہا، ’’مجھے گھاس کھانا منظور ہے۔ خدا کے لئے کہیں سے میرے لئے گھاس کا انتظام کرو، میں تو چل پھر کر اب گھاس بھی تلاش کرنے کے قابل نہیں رہا‘‘۔ لومڑی نے اس کی بے بسی دیکھی تو اس کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ اس نے کہا ’’گھاس بھی تمہیں اس شرط پر مل سکتی ہے کہ تم اپنے منہ سے میاؤں کی آواز نکال کر دکھاؤ‘‘۔یہ سن کر شیر کا جی چاہا کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے، لیکن جسے اپنے وقار سے زیادہ اپنی جان عزیز ہو اس طرح کی خواہش پوری نہیں ہوا کرتی۔ چنانچہ شیر نے جی کڑا کرکے منہ سے میاؤں کی آواز نکالی اور پھر رحم طلب نظروں سے لومڑی کو دیکھنے لگا۔
لومڑی نے اسے حقارت سے دیکھا اور کہا، ’’یہ میاؤں کی آواز تم نے صحیح نہیں نکالی، کچھ دن اور ریاضت کروجب تم میاؤں کی آواز بالکل صحیح نکالنے میں کامیاب ہو جاؤ گے اس دن سے تمہیں باقاعدگی سے گھاس ملنا شروع ہو جائے گی۔‘‘
آخری اطلاعات آنے تک یہ شیران دنوں منہ سے میاؤں کی آواز نکالنے کی ریاضت میں مشغول ہے اور اسے اس میں کافی دسترس حاصل ہوتی جارہی ہے۔