Site icon DUNYA PAKISTAN

قومی سلامتی کمیٹی کا انسداد دہشت گردی آپریشنز کا اعلان، انتخابات کے امکانات میں مزید کمی

Share

پنجاب میں مئی کے وسط میں انتخابات کے حوالے سے سیاسی حلقوں میں بحث جاری ہے جبکہ اعلیٰ سول اور عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کا عزم کرتے ہوئے انتہاپسندی کے سدباب کے لیے 15 روز میں نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

 رپورٹ کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں افغانستان کی سرحد سے ملحق قبائلی اضلاع میں دہشت گردی میں اضافے کا الزام براہ راست پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی گزشتہ حکومت پر عائد کیے بغیر اتفاق کیا گیا کہ نئے جامع آپریشنز شروع کیے جائیں گے۔

اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ سفارتی، سلامتی، معاشی اور سماجی محاذ پر ہر قسم اور مختلف انداز میں ہونے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے گا۔

اس مقصد کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی پالیسی پر عمل درآمد اور پیرامیٹرز طے کرنے کے لیے دو ہفتوں کے اندر تجاویز پیش کرے گی۔

وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کےاجلاس میں یہ فیصلے کیے گئے، جہاں دیگر شرکا میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی(سی جے سی ایس سی) جنرل ساحر شمشاد، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر، ایئرچیف مارشل ظہیر احمد بابر، نیول چیف ایڈمرل محمد امجد خان نیازی، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور وفاقی کابینہ کے اراکین شامل تھے۔

قومی سلامتی کمیٹی کی جانب سے وسیع پیمانے پر آپریشن کے فیصلے سے پنجاب میں انتخابات کے امکانات میں مزید کمی آگئی ہے، حکومت نے دو روز قبل ہی واضح طور کر انکار کردیا تھا کہ 14 مئی کو انتخابات کے لیے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا۔

دوسری جانب پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کرنے پر کہا تھا کہ حکومت فوج کو عدلیہ کے خلاف نہیں بلکہ قوم کے خلاف گھسیٹنا چاہتی ہے۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے مریم اورنگزیب نے کہا کہ پنجاب میں انتخابات قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے ایجنڈے کا حصہ نہیں تھے اور اسی لیے اس معاملے پر سول اور عسکری قیادت کے اجلاس میں بات نہیں کی گئی۔

انہوں نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ انتہاپسندی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے طرز پر نئے آپریشنز 15 دن کے اندر شروع کردیے جائیں گے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل بھی اس طرح کے دو آپریشنز کیے جاچکے ہیں، پہلا فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے دور میں 2002 میں شروع کیا گیا تھا اور دوسرا پاکستان مسلم لیگ(ن) کے دور حکومت میں 2014 میں کیا گیا تھا۔

دہشت گردوں کی واپسی

قومی سلامتی کمیٹی کے 41 ویں اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ کمیٹی نے بڑھتی ہوئی نفرت انگیزی معاشرے میں تقسیم اور در پردہ اہداف کی آڑ میں ریاستی اداروں اور ان کی قیادت کے خلاف بیرونی اسپانسرڈ زہریلا پروپیگنڈا سوشل میڈیا پرپھیلانے کی کوششوں کی شدید مذمت کی اور کہا کہ اس سے قومی سلامتی متاثر ہوتی ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ کمیٹی نے دہشت گردی کی حالیہ لہر کو کالعدم ٹی ٹی پی سمیت دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ رکھے گئے نرم گوشہ اور مضبوط سوچ کے بغیر بنائی گئی پالیسی کا نتیجہ قرار دیا جوکہ عوامی توقعات اور خواہشات کے بالکل منافی ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ اس پالیسی کے نتیجے میں دہشت گردوں کو بلا رکاوٹ واپس آنے کی نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ ٹی ٹی پی کے خطرناک دہشت گردوں کو اعتمادسازی کے نام پر جیلوں سے رہا بھی کر دیاگیا۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کہا گیا کہ واپس آنے والے اِن خطرناک دہشت گردوں اور افغانستان میں بڑی تعداد میں موجود مختلف دہشت گرد تنظیموں سے مدد ملنے پر ملک میں بے شمار قربانیوں اور مسلسل کوششوں سے حاصل کیا گیا امن واستحکام کا شیرازہ بکھر گیا۔

Exit mobile version