Site icon DUNYA PAKISTAN

دہی کی بالائی سے بالائی طبقے کی بالائی تک!

Share

مجھے یاد ہے میں بچپن میں ملک عطاء اللّٰہ کی دکان سے دہی لے کر آتا تھا، تو اس دہی کی بالائی جسے ملائی بھی کہتے ہیں، راستے ہی میں چٹ کر جاتا تھا۔ میں پانچ چھ سال کا تھا اور اس وقت ہم وزیر آباد میں رہتے تھے۔ ملک صاحب کی دکان ہمارے گھر سے ایک فرلانگ پر واقع تھی۔ اب میں سوچتا ہوں تو اپنی اس حرکت پر ہنسی آتی ہے، رہی شرم تو وہ تو آنی جانی چیز ہے۔ لیکن دہی کی بالائی تو یونہی درمیان میں آگئی اصل بالائی تو وہ ہوتی ہے جو بالائی طبقہ کھاتا ہے اور باقی ’’پھوک‘‘ ہمارے لئے چھوڑ جاتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ کام کبھی کم کبھی زیادہ‘ طویل عرصے سے کیا جا رہا ہے۔ یہ بات کچھ زیادہ سنجیدہ ہوتی جا رہی ہے چنانچہ میں اس حوالے سے کچھ وضاحت کر دوں تو بہتر ہو گا۔

مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ اکثر بالائی طبقے کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ بالائی طبقہ آخر چیز کیا ہے جس نے ہم سب کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں؟ میرے خیال میں سوال کنندہ کو تو علم ہے کہ بالائی طبقہ کیا ہوتا ہے، اگر انہیں واقعی علم نہیں تو ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ یہ طبقہ وہ ہے جو دودھ سے ’’بالائی‘‘ اتار کر کھا جاتا ہے اور باقی جو ’’پھوک‘‘ بچتا ہے اس میں چھپڑ کا پانی ملا کر 22کروڑ عوام میں تقسیم کر دیتا ہے تاہم یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ میرا اشارہ گجروں کی طرف نہیں ہے کیونکہ گجر تو بڑے بھلے مانس لوگ ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس بالائی طبقہ دودھ پر سے بالائی اتارنے اور بچی کھچی دودھ نما چیز میں چھپڑ کا پانی ملانے کے باوجود خود کو ملک و قوم کا محسن بھی قرار دیتا ہے۔ معزز بن کر اعلیٰ مسند پر فائز بھی ہوتا ہے، حب الوطنی اور غداری کے سرٹیفکیٹ بھی بانٹتا ہے اور فراعنہ مصر کے بعد یہ واحد طبقہ ہے جس کے افراد کو یقین ہے کہ انہوں نے مرنا ہے اور نہ خدا کے حضور پیش ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس طبقے کے افراد انسانوں سے خدا کے لہجے میں بات کرتے ہیں، بہت سے انسان تو انہیں خدا سمجھ بھی بیٹھتے ہیں چنانچہ ان کے قصیدے لکھتے ہیں اور ان کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں لیکن جب سجدے سے سر اٹھاتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ان کا ’’خدا‘‘ تو مر چکا ہے۔ پھر انہیں افسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے ایک فانی انسان کے قصیدے کیوں لکھے۔ ان کی تو ساری مناجاتیں رائیگاں گئیں۔

بالائی طبقے کے افراد کی موت کے حوالے سے جو تحقیق ہوئی ہے اسکے مطابق انکی موت بھی زیادہ مقدار میں بالائی کھانے سے ہوتی ہے۔ جب تک یہ تھوڑا تھوڑا کھاتے رہتے ہیں، چاق و چوبند رہتے ہیں اور عوام کو یہ یقین دلانے میں کامیاب بھی رہتے ہیں کہ ملک و قوم کی بقا کیلئے انکی بالادستی ضروری ہے لیکن جب یہ دونوں ہاتھوں سے کھانا شروع کرتے ہیں تو ایک طرف عوام میں ان کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے اور دوسری طرف انکے جسم اور دماغ پر اتنی چربی چڑھ جاتی ہے کہ وہ عوام کو بیوقوف بنانے والے فیصلے عقلمندی سے نہیں کر پاتے، جسکے نتیجے میں انکے خلاف بغاوت ہو جاتی ہے اور تخت کی جگہ تختہ ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ چنانچہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ روس، چین، ایران، فرانس اور دوسرے بہت سے ملکوں میں بالائی طبقے کی موت زیادہ بالائی کھانے کی وجہ سے ہوئی۔ ان واقعات کے نتیجے میں بالائی طبقہ پر دنیا کی بے ثباتی کا اس درجہ اثر ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے بچے کھچے دن قوم کی بچی کھچی بالائی پر بھی ہاتھ صاف کرنے میں بسر کر دیتے ہیں کہ اگر مرنا ہی ہے تو کیوں نہ بالائی کھاتے ہوئے مرا جائے۔ یہ سوچ ان کی کم فہمی کا نتیجہ ہے کیونکہ عوام کے بیدار ہونے پر یورپ کے بہت سے ممالک کے بالائی طبقے نے بالائی میں سے عوام کو بھی حصہ دینا شروع کر دیا مگر پسماندہ ممالک کا بالائی طبقہ بھی ذہنی طور پر پسماندہ ہوتا ہے چنانچہ آخری گھنٹی بجنے پر بھی وہ ہوش میں نہیں آتا۔

بالائی طبقے کے بارے میں بتانے کی ایک بات یہ بھی ہے اب نچلے طبقے کے افراد بھی اپنے طبقے کے مفادات کی حفاظت کے بجائے اپنے آقائوں کے مفادات کے محافظ بن جاتے ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ عوام کو یہ یقین دلانے میں لگے رہتے ہیں کہ ان کی موجودگی میں بالائی طبقہ انکے حقوق پر چھاپہ نہیں مار سکتا۔ کچھ عرصہ تک ان نمائشی پہلوانوں کی حکمت عملی بہت کامیاب رہتی ہےلیکن ایک وقت آتا ہے کہ ان کٹھ پتلیوں کی حقیقت عوام پر واضح ہو جاتی ہے مگر اس وقت تک نچلے طبقے کے یہ افراد بنفس نفیس بالائی طبقے میں تبدیل ہو چکے ہوتے ہیں اور یوں بیچارے عوام صرف دانت کچکچا کر رہ جاتے ہیں۔ یوں تو متذکرہ طبقے کے بارے میں بتانے کی اور بہت سی باتیں ہیں لیکن طوالت سے بچنے کیلئے بالائی طبقہ کسی ایک طبقے کا نام نہیں بلکہ اس میں بہت سے مفاداتی اور طاقتور گروپ شامل ہوتے ہیں۔ اس کے متنوع ہونے کا اندازہ آپ اس امر سے لگا سکتے ہیں کہ بالائی طبقہ بیک وقت چوروں اور’’ سادھوئوں‘‘ پر مشتمل ہو سکتا ہے اور یہ ان کی بقا کیلئے ضروری ہے، تاہم واضح رہے بقا صرف خدا کی ذات کو ہے، باقی سب کو فنا ہونا ہے اور ایمان والوں کو اس میں کوئی شک نہیں۔

Exit mobile version