’سیاسی مفادات‘ پر مبنی فیصلے یا ناقص حکمت عملی: پاکستانی معیشت اس نہج تک کیسے پہنچی؟
آج سے لگ بھگ ایک سال قبل عمران خان کی سربراہی میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ایک کامیاب عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں ختم ہوئی تو پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت میں سیاسی جماعتوں پر مشتمل پی ڈی ایم اتحاد نے اس تحریک کو لانے کی پس پردہ بڑی وجوہات میں ملک میں مہنگائی اور عام آدمیوں پر اس کے اثرات کو قرار دیا تھا۔
تحریک انصاف کی حکومت نے اپنا اقتدار ختم ہونے سے چند ماہ قبل ملک میں پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کرتے ہوئے انھیں آئندہ کئی ماہ تک برقرار رکھنے کا اعلان کیا اور پی ڈی ایم رہنماؤں کے مطابق یہ اور اس نوعیت کے دیگر کئی معاشی فیصلے پاکستان کی معیشت کی مزید بدحالی کا باعث بنے۔
گذشتہ برس 10 اپریل کو جب شہباز شریف نے وزیرِ اعظم کا حلف اٹھایا تو انھوں نے اپنی پہلی تقریر میں اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ وہ پاکستان کو ’موجودہ معاشی صورتحال سے نکالیں گے اور غریب عوام کو ریلیف دینے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔‘
تاہم اس کے برعکس گدشتہ ایک برس کے دوران سیاسی عدم استحکام اور بگڑتی معاشی صورتحال نے ملک میں مہنگائی کے ایک نئے طوفان کو جنم دیا ہے۔
اتحادی حکومت کے ایک سال کے دورِ حکومت میں مختلف معاشی اشاریوں میں تنزلی دیکھی گئی جن میں روپے کی قدر میں زبردست کمی، ڈیزل و پیٹرول کی قیمتوں اور شرح سود کا ملکی تاریخ میں بلند ترین سطح پر پہنچنا، درآمدات پر پابندی اور ایل سیز نہ کھلنے کی وجہ سے اقتصادی شعبے کو بڑے نقصانات شامل ہیں۔
اس صورتحال کے باعث بہت سے حلقوں کی جانب سے اب یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ آیا تحریک انصاف کے خاتمے کے وقت ملکی معیشت واقعی اس نہج تک پہنچ چکی تھی کہ اس پر قابو پانا ایک سال کے قلیل عرصے میں ممکن نہیں تھا یا آیا موجودہ حکومت ’سیاسی مفادات‘ پر مبنی اس نوعیت کے فیصلے کیے جو مزید خرابی کا باعث بنے؟
گذشتہ ایک برس کے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ایک سو روپے سے زیادہ کی کمی ہوئی ہے۔
پاکستان میں شرح سود میں ساڑھے نو فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا، پیٹرول و ڈیزل کی قیمت میں تقریباً 150 روپے کا اضافہ ہوا اور ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر 10.5 ارب ڈالرز سے کم ہو کر 4.2 ارب ڈالرز رہ گئے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کی مہنگائی کی شرح 12.7 فیصد سے بڑھ کر 35 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔
اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتیں اس تمام صورتحال کا ذمہ دار تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کو قرار دیتی ہیں۔
دوسری جانب معاشی امور پر گہری نظر رکھنے والے افراد مفتاح اسماعیل کی جگہ اسحاق ڈار کو وزیرِ خزانہ بنانے کے فیصلے پر بھی تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ہم نے اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے کہ کیا ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کی وجہ اتحادی حکومت کے ایسے فیصلے ہیں جن میں معاشی پہلوؤں کی بجائے مبینہ ’سیاسی مفادات‘ کو ملحوظ خاطر رکھا گیا تھا؟
ملکی معیشت اور عوام کو گذشتہ ایک سال کے دوران بدترین معاشی صورتحال نے کیسے متاثر کیا، آئیے جانتے ہیں کہ اس پر ماہرین کی کیا رائے ہے۔
ڈالر کی قدر میں اضافہ
گذشتہ سال اپریل میں پاکستان مسلم لیگ ن کی سربراہی میں قائم ہونے والی اتحادی حکومت نے پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر کو کم کرنے کے دعوے کیے تھے اور قیام کے چند دن بعد تک ڈالر کی قیمت میں معمولی کمی بھی دیکھی گئی۔
تاہم اس کے بعد ڈالر کی قیمت میں ہونے والے اضافے نے تمام ریکارڈ توڑ دیے اور آج ڈالر کی قیمت 285 روپے کی سطح تک پہنچ چکی ہے۔
موجودہ حکومت کے قیام کے ایک سال میں ڈالر کی قیمت میں ایک سو روپے تک اضافہ ریکارڈ کی گیا ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف نو اپریل 2022 کو کامیاب ہونے والی تحریک عدم اعتماد سے ایک دن قبل کاروباری ہفتے کے اختتام پر پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت 184.68 روپے کی سطح پر بند ہوئی تھی جو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد نئے کاروباری ہفتے کے آغاز پر 182.93 روپے کی سطح تک گر گئی تھی۔
گیارہ اپریل سے لے کر گیارہ مئی تک ایک مہینے تک ڈالر اور روپے کے درمیان ایکسچینج ریٹ 180 سے 186 تک برقرار رہا جس میں معمولی اتار چڑھاؤ ہوتا رہا تاہم اس کے بعد ڈالر کی قیمت میں اضافے کا رجحان ریکارڈ کیا گیا اور ڈالر 190 روپے کی حد کو عبور کر کے 19 مئی 2022 کو 200 روپے کی سطح پر پہنچ گیا۔
پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں تاخیر اور بیرونی ذرائع سے کوئی قابل ذکر فنانسنگ حاصل نہ ہونے کی وجہ سے ڈالر کی قیمت جون کے مہینے کے وسط تک 210 روپے کی سطح عبور کر گئی۔ اس کے بعد اس میں مسلسل گراوٹ دیکھی گئی اور جولائی کے اختتام پر یہ اس وقت 239.94 روپے کی سطح پر پہنچ گئی جو اس وقت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح تھی۔
آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے موجودہ حکومت کے اس وقت کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جانب سے ایکسچینج ریٹ میں مداخلت نہ کرنے کی پالیسی کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں یہ اضافہ دیکھا گیا تاہم یہ قیمت دو ہفتوں میں 215 روپے کی سطح پر گر گئی جب آئی ایم ایف پروگرام بحالی پر مثبت پیش رفت دیکھی گئی۔
گذشتہ سال ستمبر کے مہینے میں ڈالر کی قیمت میں ایک بار پھر اضافہ دیکھا گیا اور یہ 239 کی سطح پر پہنچ گیا تاہم ستمبر کے اخری عشرے میں مفتاح اسماعیل کی جگہ اسحاق ڈار نے وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالا تو انھوں نے ڈالر کی قیمت میں کمی لانے کا دعویٰ کیا۔
ان کے اس دعوے کے بعد ڈالر کی قیمت میں کمی ریکارڈ کی گئی اور ڈالر کی قیمت چند دنوں میں 220 روپے کی سطح سے نیچے آگئی تاہم ماہرین کی جانب سے ایکسچینج ریٹ کو مصنوعی قرار دیا گیا کیونکہ اس وقت بلیک مارکیٹ ڈالر 260 روپے سے اوپر بک رہا تھا۔
مصنوعی طریقے سے ایکسچینج ریٹ پر کنٹرول کو اس وقت ختم کرنا پڑا جب آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے مذاکرات شروع ہونے سے چند دن قبل 26 جنوری 2022 کو فری ایکسچینج ریٹ کی وجہ سے ڈالر کی قیمت ایک دن میں 230 روپے سے 255 روپے تک جا پہنچی اور اس سے اگلے دن 262 روپے اور اسے اگلے چند روز میں 275 روپے تک جا پہنچی۔
ڈالر کی قدر کے اتار چڑھاؤ پر ماہر اقتصادی امور ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ حکومت نے جاتے ہوئے جو اقدامات کیے اس سے سب سے زیادہ نقصان آئی ایم ایف کے پروگرام کا ختم ہونا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مگر اتحادی حکومت کی جانب سے اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنانا ایک سنگین غلطی تھی، اس کے بعد سے بہت سے غلط فیصلے لیے گئے۔‘
ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق ’اسحاق ڈار کی جانب سے آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن نہ لینے جیسے سیاسی بیانات نے معیشت کو نقصان پہنچایا۔ دوسری سب سے زیادہ نقصان دہ پالیسی روپے کی قدر کو مصنوعی طریقے سے بڑھا کر رکھنے کی کوشش کرنا تھا۔
’ایک وقت ایسا تھا کہ مارکیٹ میں روپے کی تین قدریں تھی، ایک انٹربینک، ایک اوپن مارکیٹ اور ایک بلیک مارکیٹ۔‘
اقتصادی امور کے ماہر اور سابقہ حکومت کے معاشی امور کے ترجمان مزمل اسلم کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ اتحادی حکومت نے دنیا کو پاکستان کی معاشی صورتحال کی غلط تصویر پیش کی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت ملک چھ فیصد سے ترقی کر رہا تھا جبکہ انھوں نے دنیا کو چار فیصد بتایا۔ ملک کا خسارہ ساڑھے 12 ارب ڈالر تھا نے اسے اگلے تین ماہ میں ساڑھے 22 ارب ڈالر ہونے کا بتایا۔‘
اس کے بعد دنیا کو محسوس ہوا کہ ملک کا خزانہ خالی ہو جائے گا تو ڈالر کے ریٹ میں تیزی آئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’موجودہ حکومت کی جانب سے اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنایا جانا اور مارکیٹ میں غلط پیغامات اور معاشی اشاریوں میں غلط بیانی کرنا ڈالر کی قدر میں اضافے کی وجوہات ہیں۔‘
امریکہ میں مقیم پاکستانی ماہر معیشت عاطف میاں نے بھی چند دن پہلے سوشل میڈیا پر سلسلہ وار ٹویٹس کے ذریعے گذشتہ ایک برس کے معاشی فیصلوں کا احاطہ کچھ یوں کیا ہے۔
’حالیہ اعداد و شمار کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی معیشت پٹری سے اتر رہی ہے۔ اگر برآمدات کی بات کی جائے تو کووڈ کے بعد برآمدات میں عالمی سطح پر اضافہ ہوا، لیکن 2022 کی دوسری سہ ماہی کے قریب، انڈیا اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں پاکستان کی برآمدات میں کمی آئی اور اب یہ فرق 20 فیصد سے زیادہ ہے۔‘
انھوں نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ روپے کی قدر میں کمی اور ادائیگیوں کے شدید عدم توازن کے پیش نظر ہوا۔‘
انھوں نے اتحادی حکومت کے فیصلوں پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’لیکن پی ڈی ایم حکومت نے جو کیا ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ کیونکہ انھوں نے بغیر کسی منصوبہ بندی کے سٹیٹ بینک کے گورنر کو ہٹا دیا، اپنے ہی وزیر خزانہ کے خلاف محاذ آرائی شروع کر دی، اور بالآخر قابلیت کو پس پشت ڈالتے ہوئے ان کی جگہ وزیر اعظم کے قریبی رشتہ دار کو وزیر خزانہ تعینات کر دیا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد جو کچھ ہوا اس نے معاشی نظام میں باقی ماندہ اعتماد کو بھی ختم کر دیا۔
انھوں نے لکھا کہ ’حکومت کی جانب سے بار بار بس اگلے ہفتے آئی ایم ایف معاہدے کی تکمیل کے دعوؤں اور درآمدات پر پابندی نے کاروبار کے لیے آگے کی منصوبہ بندی کرنا مشکل بنا دیا۔‘
ان کا کہنا تھا ’ایسے میں ملک ساکھ کھو دیتا ہے اور یہ احساس جنم لیتا ہے کہ یا تو کوئی ادارہ انچارج نہیں ہے، یا اقتدار میں رہنے والوں کو اندازہ نہیں ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔‘
صحافی و تجزیہ کار ندیم ملک کے مطابق ’جس وقت پی ڈی ایم حکومت عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے میں کامیاب ہوئی تھی اس وقت آئی ایم ایف کا پروگرام بند تھا، دوست ممالک سے بھی امداد نہیں آ رہی تھی اور ملک کو 17.3 ارب کا خسارہ تھا۔‘
تاہم وہ بھی موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر کنٹرول کرنے اور ڈالر کو دو سو روپے سے نیچے لانے کے دعوؤں کو غلط نعرہ قرار دیتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں مہنگائی کا طوفان 50 سالوں کی بلند شرح پر پہنچ گیا۔
درآمدات پر پابندی اور ایل سیز کی بندش
اپریل 2022 میں موجودہ حکومت کے قائم ہونے کے بعد بیرونی فنانسگ کے شعبے میں مطلوبہ فنڈز نہ ملنے کی وجہ سے پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر میں تیزی سے کمی واقع ہوئی تھی۔
ملک کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کے معطل ہونے سے عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے فنڈز کا حصول بھی ممکن نہ ہو سکا تو دوسری جانب دوست ممالک کی جانب سے بھی کوئی خاطر خواہ امداد نہ مل سکی۔
تجارتی اور جاری کھاتوں کے خساروں میں کمی لانے کے لیے حکومت نے 19 مئی 2022 کو لگژری چیزوں کی درآمد پر پابندی لگا دی۔
اس پابندی کے باوجود ملک کے زرمبادلہ ذخائر کمی کا شکار نظر آئے جس کی وجہ تیل مصنوعات، خوردنی تیل، گندم اور مشینری کی درآمد پر اٹھنے والے ڈالرز تھے۔
ڈالروں کی کمی کی وجہ سے بینکوں کی جانب سے درآمدات کی ایل سی نہ کھولنے کی وجہ سے گذشتہ سال کی آخری سہ ماہی ملکی بندرگاہوں پر درآمدی کارگو کے کنٹینرز پھنسنا شروع ہو گئے اور موجودہ سال کے فروری تک ہزاروں کی تعداد میں ایسے کنٹینرز پھنس گئے جن کی ایل سیز ڈالر کی قلت کی وجہ سے نہ کھل سکی۔
حکومت کی جانب سے ضروری اشیا جیسے تیل مصنوعات، خوردنی تیل اور گندم کی ایل سیز کھولنے کو ترجیح دی گئی تاہم اس کے باوجود درآمدات کی ایل سی کھولنا ابھی تک ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔
پاکستان کے مرکزی بینک کے مطابق اپریل 2022 میں ملک کے پاس مجموعی طور پر 16.4 ارب ڈالر کے زرمبادلہ ذخائر تھے جن میں سٹیٹ بینک کے پاس تقریباً ساڑھے دس ارب ڈالر اور کمرشل بینکوں کے پاس چھ ارب ڈالر کے لگ بھگ ذخائر تھے۔
ملک کے تجارتی اور جاری کھاتوں کے خساروں کی وجہ سے ان میں ملسل کمی ریکارڈ کی گئی اور مارچ کے مہینے کے اختتام تک یہ ذخائر 9.7 ارب ڈالر رہ گئے جن میں مرکزی بینک کے پاس 4.2 ارب ڈالر اور کمرشل بینکوں کے پاس 5.5 ارب ڈالر کے ذخائر ہیں۔
ڈاکٹر حفیظ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی سے درآمدات کی مانگ بڑھتی ہے اور ایسے میں سب سے غلط فیصلہ درآمدات پر پابندی عائد کرنے اور ایل سیز بند کرنے کا تھا۔
وہ کہتے ہیں اس سے طلب و رسد کا توازن بگڑا اور ملک میں صنعتی شعبے کے لیے خام مال اور کھانے پینے کی قلت بڑھی اور مہنگائی کے ایک طوفان نے جنم لیا۔
ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ ’ملک میں اشیا خوردو نوش کی قیمتوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ گذشتہ برس کا سیلاب بھی ہے جس کے بعد پیاز کی قیمت میں پانچ سو فیصد بڑھی۔
’ملک میں مہنگائی کی ایک بڑی وجہ درآمدات پر پابندی کے بعد صنعتوں کا بند ہونا اور ملک میں طلب و رسد کے توازن کا بگڑنا ہے۔‘
مزمل اسلم بھی درآمدات پر پابندی لگاتے ہوئے ایل سیز بند کرنے کو ملکی معشیت کے حوالے سے سنگین غلطی قرار دیتے ہیں۔
’ایک دن کے نوٹس پر ایل سیز پر پابندی لگا دی اور یہ نہیں سوچا کہ ملک میں صنعت، خام مال اور اشیا خورد نوش کی چیزوں کا کیا ہو گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ان اقدامات کے باعث ملک میں مہنگائی نے سر اٹھانا شروع کیا۔ ایسے میں ایک جانب مہنگائی، دوسری جانب ڈالر کی قدر اور تیسری جانب شرح سود میں اضافہ ہوا۔‘
عاطف میاں کے مطابق بھی درآمدات پر پابندی نے ملک میں طلب اور رسد میں فرق پیدا کیا اور پاکستان آج اسی صورتحال سے گزر رہا ہے کیونکہ برآمدات میں کمی رسد کے منفی رحجان کو عیاں کرتی ہے۔
انھوں نے حکومت پر درآمدات پر پابندی لگانے کے فیصلے کو غلط قرار دیا ہے کیونکہ اس سے ملک میں تیزی سے مہنگائی میں اضافہ ہوا اور لاکھوں افراد غربت میں دھکیلے جا رہے ہیں۔
صحافی و سیاسی تجزیہ کار ندیم ملک پاکستان میں برآمدات پر پابندی کے فیصلے پر مختلف رائے رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جب آپ کے ملک میں زرمبادلہ ہی نہیں ہے تو برآمدات پر پابندی نہ لگائی جاتی تو اور کیا کیا جاتا۔
’اگر ایل سیز بند نہ کرتے تو زرمبادلہ کیسے ادا کیا جاتا۔ اس پر تنقید کچھ مناسب نہیں۔‘
شرح سود میں اضافہ
پاکستان میں اس وقت شرح سود ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 21 فیصد پر موجود ہے۔ گذشتہ برس حکومت کی تبدیلی سے قبل ملک میں شرح سود 12.5 فیصد پر تھی جس میں ایک سال میں ساڑھے نو فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو کسی بھی حکومت کے پورے پانچ سال یا اس سے کم مدت کے دور میں سب سے بڑا اضافہ ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے سے صرف دو دن قبل سٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں ڈھائی فیصد اضافہ کر کے اسے 12.5 فیصد کر دیا تھا۔
موجودہ حکومت کے قیام کے بعد مئی 2022 میں سٹیٹ بینک نے شرح سود میں مزید ڈیڑھ فیصد اضافہ کیا اور اس کی مجموعی شرح چودہ فیصد ہو گئی۔
مئی کے بعد نومبر کے مہینے میں شرح سود میں مزید ایک فیصد کا اضافہ کیا گیا اور جنوری کے مہینے میں اس میں مزید اضافہ دیکھا گیا۔ موجودہ سال مارچ کے مہینے کے آغاز پر شرح سود میں ایک بڑا اضافہ کیا گیا اور اسے 20 فیصد کر دیا گیا۔
شرح سود میں اس بڑے اضافے کی وجہ آئی ایم ایف کی شرط قرار دیا گیا جس کے تحت پاکستان کو ملکی شرح سود میں اضافہ کرنا پڑے گا ۔ اسی شرط کےتحت اپریل کے مہینے کے آغاز پر شرح سود میں مزید ایک فیصد اضافہ کر دیا گیا تاکہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے اس شرط کو پورا کیا جا سکے۔
ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق سیاسی بیانات اور فوائد کے لیے آئی ایم ایف کے پروگرام کے حوالے سے اقدامات کو تاخیر سے کرنا بھی ایک غلطی تھی۔ آئی ایم ایف پروگرام پر حکومت نے جانتے بوجھتے سیاسی بیانات دیے اور اس پر عملددرآمد درست انداز میں نہیں کیا۔
’جس کے نتیجے میں ہماری برآمدات گر گئی، روپے کے قدر میں گراوٹ کی وجہ سے ترسیلات زر میں کمی ہوئی اور ملک میں مہنگائی اور شرح سود میں اضافہ ہوا۔‘
مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ ملکی خسارے سے متعلق حکومتی عہدیداروں کے جھوٹ نے ملک میں شرح سود کو دس فیصد سے بڑھا کر آج 21 فیصد پر لا کھڑا کیا۔
مزمل اسلم کہتے ہیں کہ درآمدات بند کرنے، ڈالر کی قدر میں گراوٹ اور شرح سود میں اضافے کے باعث ملک کی کریڈٹ ریٹنگ منفی ہو چکی ہے۔
پٹرول و ڈیزل کی قیمت میں اضافہ
پاکستان میں پٹرول و ڈیزل کی قیمتیں معاشی پہلو کے ساتھ سیاسی مسئلہ بھی رہی ہیں۔ حزب اختلاف ہمیشہ حکومت کو پٹرول و ڈیزل کی قیمتیں بڑھانے پر تنقید کا نشانہ بناتی ہے چاہے عالمی سطح پر بھی ان کی قیمتوں میں اضافہ کیوں نہ ہو رہا ہو۔
موجودہ حکومت کے اپریل 2022 میں قیام سے پہلے مارچ کے مہینے کے آغاز میں تحریک انصاف کی حکومت نے ڈیزل و پٹرول کی قیمتوں کو منجمد کر دیا تھا حالانکہ اس وقت عالمی سطح پر قیمتیں بڑھ رہی تھیں۔
تحریک انصاف کے اس اقدام کو معاشی طور پر غلط اقدام قرار دیا گیا کیونکہ اس کے لیے ہر مہینے کئی ارب روپے کی سبسڈی درکار تھی۔ اس اقدام کی وجہ سے پاکستان کے لیے آئی ایم ایف نے اپنا قرض پروگرام معطل کر دیا۔
موجودہ حکومت کے قیام کے وقت پٹرول کی قیمت 149.86 روپے لیٹر تھی جب کہ ڈیزل کی قیمت 144.15 روپے تھی۔
حکومت کی جانب سے ان قیمتوں کو ڈیڑھ مہینے تک برقرار رکھا گیا تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے شرائط کے تحت اس سبسڈی کے خاتمے کے بعد 26 مئی 2022 کو پٹرول و ڈیزل کی ایک لیٹر قیمت 30، 30 روپے بڑھا دی گئی۔
ایک ہفتے بعد تین جون 2022 کو پٹرول و ڈیزل کی قیمتیوں میں ایک بار پھر فی لیٹر 30، 30 روپے اضافہ کر دیا گیا۔
15 جون 2022 کو حکومت نے ایک بار پر ان کی قیمتوں میں بڑھا اضافہ کر دیا جب پٹرول کی قیمت میں 24 روپے فی لیٹر اور ڈیزل کی قیمت میں 59 روپے اضافہ کر دیا گیا جس کے بعد حکومت کی جانب سے اس اضافے سے ڈیزل و پٹرول پر دی جانے والی سبسڈی صفر ہو گئی۔
30 جون 2022 کو بھی قیمتوں میں ایک بار پھر پٹرول 14 روپے اور ڈیزل 13 روپے فی لیٹر کا اضافہ کر دیا گیا۔ اس کے بعد قیمتوں میں معمولی اتار چڑھاؤ جاری رہا۔
رواں سال جنوری کے مہینے کے آخر میں ایک بار پھر ان کی قیمتوں میں 35، 35 روپے فی لیٹر اضافہ کر دیا گیا۔
فروری کے وسط میں پٹرول کی قیمت میں 22 روپے فی لیٹر اور ڈیزل کی قیمت میں 17 روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا۔
مارچ کے وسط میں ایک بار پھر اضافہ دیکھا گیا جس کی وجہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ قرار دیا گیا حالانکہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں مارچ کے مہینے میں بہت زیادہ کمی دیکھی گئی۔
موجودہ حکومت کے ایک سال میں پٹرول کی قیمت میں 122.14 روپے کا اضافہ ہوا جو 149.86 سے بڑھ کر 272 روپے فی لیٹر ہو گئی۔ ڈیزل کی قیمت میں 148.85 روپے فی لیٹر اضافہ ہوا جو اپریل 2022 میں 144.15 روپے سے اپریل 2023 میں 293 روپے فی لیٹر ہو گئی۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ موجود حکومت کی سابقہ معاشی ٹیم نے آئی ایم ایف سے مذاکرات تو کیے لیکن سیاسی مجبوریوں کے باعث ان اقدامات پر عملدرآمد نہیں کیا اور دو ماہ تک پیٹرول کی قیمت بڑھانے کا فیصلہ نہ کر پانا بھی ایک غلطی تھی۔
جب مزمل اسلم سے پی ٹی آئی دورِ حکومت کے اواخر میں آئی ایم ایف پروگرام سے انحراف کرتے ہوئے پیٹرول کی قیمتوں کو برقرار رکھنے اور اس کے باعث معیشت پر بڑھتے دباؤ کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’جب ہم نے گذشتہ برس دس روپے پیٹرول کی قیمت کم کی اس وقت ہماری معیشت ٹیکس ہدف سے چھ فیصد زیادہ تھی۔
’پیٹرول کی قیمت کو بڑھانا آئی ایم ایف سے معاہدہ ٹوٹنا نہیں کہا جا سکتا۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ہم نے ٹیکس ہدف چھ فیصد سے زیادہ اکٹھا کیا تھا اس لیے آئی ایم ایف کو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
بلند شرح مہنگائی
پاکستان میں موجودہ حکومت کے ایک سال میں روپے کی قدر میں ہونے والی کمی، تیل و پٹرول کی قیمتوں اور شرح سود میں ہونے والے نمایاں اضافے اور درآمدات پر پابندی کا مجموعی اثر پاکستان میں مہنگائی کے اضافے کی صورت میں نکلا جو ایک سال کی مدت میں 35 فیصد سے زائد ہو کر گذشتہ پانچ عشروں کی بلند سطح پر پہنچ چکی ہے۔
اپریل 2022 میں حکومت کی تبدیلی سے پہلے مارچ کے مہینے کے اختتام پر وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق مہنگائی کی شرح 12.7 فیصد تھی جو اپریل و مئی 2022 میں معمولی اضافے کے بعد 13 فیصد سے زائد ہو گئی تاہم جون کے مہینے کے اختتام پر مہنگائی کی شرح 21 فیصد سے اوپر چلی گئی۔مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ جاری رہا اور جولائی میں یہ تقریباً 25 فیصد تک جا پہنچی۔
جنوری 2023 میں مہنگائی کی شرح میں معمولی اتار چڑھاؤ جاری رہا تاہم فروری کے مہینے میں یہ شرح 31 فیصد سے تجاوز کر گئی۔ مارچ کے مہینے میں مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہوا جو 35.4 فیصد تک جا پہنچی ہے۔
اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ اگر گذشتہ برس ستمبر میں آئی ایم ایف پروگرام کے آغاز سے ہی حکومت سیاسی بیانات اور فوائد کو نظر انداز کرتے ہوئے اقدامات پر عملدرآمد کرتی اور مارکیٹ میں غلط پیغامات نہ بھیجتی تو صورتحال کچھ بہتر ہوتی۔
عاطف میاں کے مطابق پالیسی سازی کے سب سے اہم پہلوؤں میں سے ایک نظام میں اعتماد فراہم کرنا ہے تاکہ لوگ بہتر مستقبل کے لیے طویل مدتی سرمایہ کاری کر سکیں۔ حکومت اس میں ناکام ہوئی اور وہ اعتماد اب غائب ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انتظامی اور سیاسی ڈھانچے کا وہ امتزاج جو معیشت میں ایک خاص سطح کے اعتماد کی ضمانت دیتا ہے وہ بنیادی نظام ٹوٹ چکا ہے۔
ملک میں مہنگائی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سیاسی مبصر ندیم ملک کا کہنا تھا کہ اگر تین سال میں پاکستان کو 75 ارب ڈالرز کی ضرورت ہے۔ اس میں روپے پر دباؤ پر آئے گا اور مہنگائی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا سیلاب اور عالمی سطح پر بڑھتے افراط زر کے باعث ملک میں قلیل مدت میں مہنگائی میں کمی واقع ہوتی نظر نہیں آتی اور یہ حکومت جب بھی الیکشن میں جائے گی تو اسے مار پڑے گی اور شائد یہ اسی وجہ سے انتخابات میں جانے سے گریزاں ہیں۔
ندیم ملک کا کہنا ہے کہ ملک میں رواں ماہ کے دوران تقریباً 50 فیصد تک شرح مہنگائی کسی بھی سیاسی حکومت کے لیے سازگار نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کسی طرح سے بجلی اور پیٹرول کی سپلائی کو ممکن بنائے ہوئے ہیں ورنہ یہاں بھی صورتحال سری لنکا سے مختلف نہ ہوتی۔