اب تو ہم اس قابل بھی نہیں رہے کہ نام سوچ سمجھ کے رکھیں اور رکھ بھی لیں تو پھر اس نام کی لاج رکھنا ہی سیکھ لیں۔
لاکھوں کروڑوں لوگوں کی طرح میں بھی دو نور جہاؤں کو جانتا ہوں۔ ایک وہ جس نے براستہ قلبِ جہانگیر مغل سلطنت کو مٹھی میں دبائے رکھا۔ دوسری وہ جو موسیقی کی قلم رو پر راج کرتے ہوئے ملکہِ ترنم کہلائی۔
ایک کو بادشاہِ وقت نے ہتھیلی کا چھالا بنا کے رکھا اور دوسری کو عوام نے سر آنکھوں پر بٹھائے رکھا۔
اس تاریخی نام کا قرض مشعلِ جہالت کے علمبرداروں نے یوں اتارا کہ پہلے تو تنزانیہ سے دو دو برس کے چار ہاتھیوں کو ان کی ماؤں سے جدا کر کے یا قتل کر کے پابہ زنجیر خرید کے کراچی پہنچایا گیا۔ پھر ان کے نام رکھے گئے سونو، ملکہ، مدھوبالا اور نور جہاں۔
اصلی نور جہاں کے ہوتے اگر کسی ہتھنی کا نام ملکہ کے نام پر رکھنے کے بارے میں کوئی سوچتا بھی تو ایسے شخص کو اسی ہتھنی کے پاؤں تلے رکھ دیا جاتا۔
چلیں جی کوئی بات نہیں، عام آدمی کے من و رنجن کے لیے ان ہاتھی بچوں کے بھاری بھرکم نام رکھ لیے گئے۔ مگر پھر اناڑی بابوؤں اور خانہ ساز مہاوتوں نے ان ہاتھیوں کے ساتھ وہ کیا جو لٹیروں نے شاہدرہ باغ میں نورجہاں کی قبر کے ساتھ بھی نہیں کیا ہو گا۔
چاروں کے ساتھ کیسا سلوک ہوا، فرداً فرداً بتانے کا موقع نہیں۔ بس موت و زندگی کی کش مکش میں مبتلا نور جہاں کی سرکاری تیمارداری کے معیار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس ریاست کی گورنننس انتظامی لوکیمیا کے کس مرحلے سے گذر رہی ہے۔
کراچی زو میں مقید نورجہاں پچھلے چار ماہ سے ناقابلِ برداشت اعصابی کھچاؤ اور اندرونی زخموں کے رسنے کے سبب لمحہ بہ لمحہ مر رہی ہے۔
شوق کے مارے یہ ہاتھی لے تو آئے مگر ان کی معیاری خوراک، کھلی فضا اور بیماری کی صورت میں مقامی سطح پر خوراک و علاج معالجے کا کوئی نظام نہ بنا پائے۔
چنانچہ جانوروں کی فلاح و بہبود سے متعلق عالمی تنظیم ’فور پا‘ کی ایک طبی ٹیم نے ہفتہ بھر نور جہاں کا تفصیلی معائنہ کیا، جتنا آپریشن ممکن تھا کیا گیا۔
نورجہاں کے لیے ہائی پریشر واٹر تھراپی تجویز کی گئی مگر زو میں اتنا پانی ہی نہیں کہ تھراپی ہو سکے۔
اس کے لیے ابلے چاولوں میں دوائیں ملا کے دینے کی ہدایت کی گئی مگر زو میں پکانے کی کوئی مستقل سہولت ہی نہیں۔
نورجہاں کے لیے ضروری دواؤں کا کچھ زخیرہ تو طبی ٹیم اپنے ساتھ لائی مگر ٹیم کے جانے کے بعد زو انتظامیہ کے بقول ان دواؤں کو خریدنے کا بجٹ نہیں۔
ٹیم نے جاتے جاتے نصیحت کی کہ اگلے تین ہفتے تک نور جہاں کو مسلسل دیکھ بھال کی ضرورت ہے ورنہ یہ مر سکتی ہے۔ سرکاری رویہ یہ ہے کہ مر بھی گئی تو کیا ہوا اور کوئی ہتھنی پکڑ لائیں گے۔
اسلام آباد زو میں پابہ زنجیر ہاتھی کاون خوش قسمت تھا کہ بین الاقوامی سطح پر شور مچانے کے سبب بچ نکلا اور زندہ سلامت پرائے خرچے پر نومبر 2020 میں کمبوڈیا کی کھلی پناہ گاہ میں پہنچا دیا گیا۔
مگر نور جہاں تو اس قابل بھی نہیں کہ اسے بین الاقوامی طبی ٹیم کے مشورے کی روشنی میں زو کی گھٹن سے نکال کے چند کلومیٹر پرے سفاری پارک کی نسبتاً کھلی فضا میں منتقل کیا جا سکے۔
نور جہاں کا حال دیکھ دیکھ کے اس کی ساتھی ہتھنی مدھوبالا ویسی ہی اعصابی کیفیت سے گذر رہی ہے جس کیفیت سے اصلی مدھو بالا آخری دنوں میں گذر رہی تھی۔
نور جہاں اور مدھوبالا کو نارمل حالات میں کم از کم 20 برس اور جینا چاہیے۔ مگر وہ جن لال بھجکڑوں کی اذیتی قید میں ہیں ان کے ہوتے اگلے 20 دن بھی 20 برس کے برابر ہیں۔
چڑیا گھر کے انتظامی ذمہ دار بلدیہ کراچی کے ناظم سے جب نور جہاں کی کیفیت کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ گھبرانا نہیں ہے۔ ہم طبی ٹیم کے مشوروں کی روشنی میں اس کی پوری دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ آخر جب ٹیم نور جہاں کی سرجری کر رہی تھی تو اسے کھڑا رکھنے کے لیے جو کرین استعمال کی گئی وہ بھی تو بلدیہ کراچی نے ہی فراہم کی تھی۔
یہ بلدیہ کراچی کے ناظم کا کوئی انفرادی رویہ نہیں بلکہ قومی رویہ ہے۔
گھبرانا نہیں ہے۔ ملکی معاشی حالت گھمبیر ضرور ہے مگر قابو میں ہے۔ انشااللہ اسحاق ڈار کی کوششوں کے باوجود ہم جلد بحران سے نکل آئیں گے۔
گھبرانا نہیں ہے۔ ملکی دفاع محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ دہشت گردی اچانک یوں بڑھ گئی ہے کیونکہ دہشت گرد ہماری موثر حکمتِ عملی سے بوکھلا گئے ہیں۔
گھبرانا نہیں ہے۔ اسلام آباد پولیس نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کو فول پروف سیکورٹی دے گی۔
گھبرانا نہیں ہے۔ بلوچستان کے حالات تیزی سے معمول پر آ رہے ہیں۔
اور انھی ارسطووں اور افلاطونوں کے دفتر سے چند ہفتے بعد یہ بیان بھی متوقع ہے کہ ’ہم نے تو نور جہاں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ مگر پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ اس کی دیکھ بھال کے دوران ہونے والی غفلتوں کی چھان بین کے لیے ایک کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔کمیٹی کی سفارشات پر پورا پورا عمل کیا جائے گا۔‘
سفید ہاتھی پالنے کی ماہر ریاست اگر ایک اصلی ہاتھی تک نہ سنبھال پائے تو آپ کا کیا خیال ہے؟ آپ کو سنبھال لے گی؟
ویسے یونہی ایک بات ذہن میں آئی کیا پاکستان کو واقعی الگ سے کسی چڑیا گھر کی ضرورت ہے؟