برہنہ احتجاج کرنے والی پروفیسر: ’لوگ مجھے احمق کہتے ہیں لیکن میں سچی سوچ والی انسان ہوں‘
ڈاکٹر وکٹوریہ بیٹمین دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک، کیمبرج یونیورسٹی میں اکنامکس پڑھاتی ہیں۔
تاہم وہ ایک باغی ہیں اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف برہنہ ہو کر احتجاج بھی کرتی ہیں۔ لوگ جب مجھے ننگا دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ’اوہ یہ احمق ہے، یہ بے وقوف ہے اوریقیناً پاگل ہے۔‘
وکٹوریہ بیٹمین کہتی ہیں کہ ’میں کھڑے ہو کر کہنا چاہتی ہوں: ’نہیں، میں ایک سچی سوچ والی انسان ہوں۔‘
تاہم برہنہ ہو کر احتجاج کرنے کے انداز کو متنازعہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی حالیہ کتاب کے ایمازون پر اشتہار کو اس بنا پر روک دیا گیا کہ وہ جنسی طور ذومعنی ہے۔
ڈاکٹر وکٹوریہ کا مزید کہنا ہے کہ ’سوشل میڈیا پر ایک مہم کے بعد میری کتاب کے اشتہار کو روکنے کا فیصلہ واپس لیا گیا۔
’اس مہم میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی تھی کہ خواتین کو اپنے جسم کے ساتھ وہ کرنے کی اجازت نہیں ہے جو وہ کرنا چاہتی ہیں۔‘
زیر بحث تصویر (جیسا کہ اوپر دیکھا گیا ہے) ان کے پورے جسم کو ظاہر نہیں کرتی۔ یہ زوم کی گئی تصویر ہے جس میں ان کے ننگے پیٹ اور چھاتی کا خاکہ دکھایا گیا ہے۔
بیٹمین کا کہنا ہے کہ ’میں نہیں سمجھتی کہ میرے جسم دکھانے سے جو میں کہتی ہوں اس کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ لبرل ازم کی ہر اٹھان کے بعد کریک ڈاؤن کا دور شروع ہوا ہے۔‘
برہنہ ہونے کا دفاع
انگلینڈ اور ویلز میں عوامی مقامات پر برہنہ ہونا جرم نہیں ہے لیکن اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس شخص کو پریشان کرنے اور صدمہ پہنچانے کی نیت سے برہنہ کیا گیا ہے تو یہ جرم بن جاتا ہے ور شکایت کرنے والے کو یہ ثابت کرنا ہوتا ہے۔
بیٹمین کا اصرار ہے کہ ان کا احتجاج غیر جارحانہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میرا مقصد کسی کارروائی میں خلل ڈالنا نہیں بلکہ اس کی بجائے کسی مسئلے کی جانب توجہ مبذول کروانا ہے، چاہے وہ معاشیات میں خواتین کی کمی ہو، بریگزٹ کے نتائج ہوں یا خواتین کی جسمانی آزادیوں پر حملے ہوں۔‘
بیٹمین کہتی ہیں کہ برہنہ احتجاج نہ صرف دیکھنے والوں کو لباس کے احترام سے جوڑنے پر غور کرنے کےعلاوہ لوگوں کو اس مسئلے کے بارے میں بات کرنے کے مقصد کو حاصل کرنے میں بھی مدد کرتا ہے۔
جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں طویل عرصے سے کھال کے استعمال کے خلاف برہنہ احتجاج کا طریقہ استعمال کرتی رہی ہیں۔
ماحولیاتی گروپ جو آب و ہوا کی تبدیلی کو روکنے کے لیے سخت اقدامات پر زور دے رہے ہیں، نے بھی برہنہ احتجاج کیے ہیں۔ اگرچہ سیاست میں برہنہ احتجاج اتنا عام نہیں ہے۔
محنت کش طبقے سے آئیوی لیگ تک
بیٹمین نے ابتدائی تعلیم سرکاری سکول میں حاصل کی اور گریجویشن کے لیے کیمبرج گئیں۔ انھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی اور پھر انھیں کیمبرج یونیورسٹی میں نوکری مل گئی۔
بیٹمین کا کہنا ہے کہ بچپن میں جسم کو ڈھانپنے والے کپڑے پہننے کی عادی تھیں لیکن نوجوانی میں انھوں نے اپنی ہم عمر لڑکیوں کی طرح مختصر سکرٹس، چھوٹے ٹاپس اور ہائی ہیلز پہن کر پارٹیوں میں جانا شروع کر دیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’تعلیمی میدان میں ان کی کامیابیوں نے انھیں محنت کش طبقے سے متوسط طبقے میں منتقل ہونے میں مدد دی، جہاں بیٹمین کپڑوں میں ملبوس لڑکیوں کو کم تر سمجھا جاتا تھا۔ اس رویے نے بیٹ مین کو پریشان کر دیا۔‘
اپنے تعلیمی کریئر کے آغاز میں، وہ بھی اپنی دانشورانہ عزت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے لباس پر بہت توجہ دیتی تھیں۔
’میں نے سوچا کہ لوگ میرے بارے میں کیا سوچ سکتے ہیں، اس کو اپنے اوپر کیوں حاوی دوں؟ فکرمند ہونے کے لیے اس سے بہت سی اہم چیزیں ہیں۔‘
شائستگی آزادی کو سلب کرتی
بیٹمین کے کپڑے اتارنے کے فیصلے کی ایک نظریاتی بنیاد بھی تھی۔
انھوں نے کہا کہ خواتین کی شائستگی دراصل خواتین کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ اس سے مردوں کو عورتوں پر کنٹرول بڑھتا ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کیونکہ جس لمحے آپ کسی عورت کی قدر و قیمت کو اس کی شائستگی سے نتھی کر دیتے ہیں، اس سے آپ کو اس کی قدر کو کم کرنے، اس کی بے عزتی کرنے، ان خواتین کے ساتھ گوشت کے ٹکڑے کی طرح برتاؤ کرنے کی طاقت ملتی ہے۔‘
اس سے دنیا بھر میں خواتین کی آزادی کو نقصان پہنچانے والی پالیسیوں اور طریقوں کو تقویت ملتی ہے۔
افغانستان میں سکولوں سے خواتین کے انخلا سے لے کر ایران میں لازمی حجاب تک، کنوارپن کی جانچ، غیرت کے نام پر قتل اور انتقامی فحش مواد۔
برہنہ ماڈل
یہ 10 سال پہلے کی بات ہے، جب بیٹ مین نے معاشرے میں اپنے اعلیٰ مقام کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ لہٰذا انھوں نے اپنے کپڑے اتار دیے اور خواتین فنکاروں کے سامنے برہنہ پوز دینا شروع کردیا۔
تھوڑا سا اعتماد حاصل کرنے کے بعد انہوں نے مرد فنکاروں کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔ وہ فنکارانہ پینٹنگز اور مجسمے جلد ہی عوامی مقامات پر آویزاں کر دیے گئے۔
انھوں نے کہا کہ ’میں نے دیکھا ہے کہ گیلریوں میں کس طرح لوگ میری برہنہ تصویر دیکھ کر اچھل جاتے تھے۔ لوگ یہ جان کر حیران رہ جاتے ہیں کہ پینٹنگ میں برہنہ عورت ایک ماہر تعلیم ہے۔‘
ایک قابل ماہر معاشیات کی حیثیت سے وہ اپنی مہارت کے شعبے میں مردوں کے غلبے سے حیران رہ گئیں۔ مثال کے طور پر صرف دو خواتین نے معاشیات میں نوبل انعام جیتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ خواتین ماہرین اقتصادیات کی کمی کی وجہ سے معاشی تجزیے کو صرف مردوں کے نقطہ نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔
سنہ 2018 میں وہ برطانیہ میں ماہرین اقتصادیات کے سب سے بڑے اجتماع میں اس مسئلے کو اجاگر کرنا چاہتی تھیں۔ وہ مکمل طور پر برہنہ ہو کر ایک ایسے کمرے میں چلی گئی جو اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد سے بھرا ہوا تھا۔
’میں جسمانی طور پر چھوٹی ہوں۔ میں جسمانی طور پر بہت مضبوط نہیں ہوں۔ میں کسی کے لیے خطرہ نہیں ہوں لیکن اگر آپ کمرے میں برہنہ ہیں تو لوگ کسی وجہ سے آپ کو خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘
اس تقریب کے دوران انہوں نے اپنے مطالبے کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لیے بورڈ مارکر کا استعمال کرتے ہوئے اپنے جسم پر (Respect) احترام لکھا اور اس کے نتیجے میں گالا ڈنر میں شرکت کرنے والی معزز شخصیات کے ساتھ بات چیت کرنے میں کامیاب رہیں۔
بہیودہ ردعمل
برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے پر بریگزٹ کی انتہائی تفرقہ انگیز سیاسی مہم کے دوران انھوں نے عوامی سطح پر برہنہ احتجاج کیا۔
کچھ عینی شاہدین نے تصاویر کھینچیں اور اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا جس پر بہت سے نازیبا تبصرے کیے گئے۔ کچھ مردوں نے ان کی چھاتی اور بالوں کے بارے میں تبصرہ کیا. یہاں تک کہ ایک نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے پروفیسروں کے ساتھ سونے سے اپنی تعلیمی قابلیت حاصل کرے گی۔
نتیجتاً بیٹ مین کو خبردار کیا گیا کہ وہ دنیا کو اپنا جسم دکھا کر اپنی تعلیمی کامیابیوں کو برباد کر رہی ہے۔
’لیکن مجھ پر سب سے زیادہ وحشیانہ حملے عورتوں کی طرف سے ہوئے۔ سوشل میڈیا پر ایک برطانوی خاتون تھی جو مجھے بتا رہی تھی کہ میں فیمنزم کو ایک صدی پیچھے دھکیل رہی ہوں۔‘
وہ ان لوگوں کے ساتھ شامل تھی جنہوں نے اس کے رویے کو قابل نفرت پایا اور اس کے بنیادی ارادے کی وضاحت کرنے کی کوشش کی۔
اپنی نئی کتاب: برہنہ فیمنزم – بریکنگ دی کلٹ آف ویمن موڈیسٹی میں انھوں نے ان میں سے بہت سے منفی رد عمل کا ذکر کیا ہے۔
“میں یہ کہتی یہوں کہ تمام خواتین کو ان کی جسمانی شائستگی سے قطع نظر قابل اور احترام کے ساتھ سلوک کیا جانا چاہیے۔
آزادی
کیمبرج کی ماہر تعلیم کا خیال ہے کہ اگر ہم سب یہ سوچنا بند کر دیں کہ کس کے جسم کا کتنا حصہ نظر آتا ہے یا ڈھکا ہوا ہے تو بہت سی خواتین کی زندگیاں بدل جائیں گی۔ وہ سیکس ورکرز کی مثال دیتی ہیں۔
’ہم انہیں قالین کے نیچے دبا دیتے ہیں۔ ہم ان پر لیبل لگاتے ہیں، ہم انھیں طرح طرح کے خوفناک ناموں سے پکارتے ہیں اور یہ سوچ لیتے ہیں کہ وہ نہیں جانتے نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور ان کے لیے کیا صحیح ہے اس کا فیصلہ ہم کرسکتے ہیں۔‘
وہ اس رویے کو غیر معمولی طور پر متکرابہ سمجھتی ہیں۔
ہمیں سوچنے کے انداز کو تبدیل کرنے کے معاملے میں ابھی ایک طویل سفر طے کرنا ہے۔
عورتیں زیادہ تر بلا معاوضہ کام کرتی ہیں جس میں کھانا پکانا، صفائی کرنا، کھانا یا پانی لانا اور بچوں اور بزرگوں کی دیکھ بھال کرنا شامل ہے۔
برطانوی خیراتی ادارے آکسفیم کا کہنا ہے کہ اگر خواتین کو اس طرح کے کام کے لیے کم از کم اجرت بھی ادا کی جائے تو اس کی مالیت 10 کھرب ڈالر سے زیادہ ہوگی۔ لیکن اس بارے میں بہت کم بات چیت ہوتی ہے۔
بیٹ مین کہتی ہیں کہ وہ طاقتور مردوں اور ان کی پالیسیوں کے خلاف برہنہ کھڑے ہونے کے ہر موقع کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ وہ اپنے کپڑوں کے بغیر تقریریں بھی کر رہی ہیں اور ادبی تقریبات میں بھی حصہ لے رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کی سرگرمی نے ان کی کلاس کو متاثر نہیں کیا ہے، درحقیقت ان کے طالب علم ان سے فیمنزم، خواتین اور معیشت کے بارے میں پہلے سے کہیں زیادہ پوچھتے ہیں۔
’میرا مقصد ایک ایسی دنیا ہے جس میں تمام خواتین اپنے جسم کے ساتھ ساتھ اپنے دماغ کے ساتھ جو چاہیں کرنے کے لئے آزاد ہیں۔ مجھے حجاب پر پابندی پر اتنا ہی اعتراض ہے جتنا حجاب پر۔ معاشرے اور ریاست کو یہ حکم نہیں دینا چاہئے کہ خواتین کیا کرتی ہیں۔‘