Site icon DUNYA PAKISTAN

سردیاں گزرتی جا رہی ہیں!

Share

مجھے سردی اور جنگل سے بڑی محبت ہے۔ سردیوں میں جنگل اور ویرانوں میں نکل جانا میرا شوق بھی تھا‘ محبت بھی۔ سردیاں آتیں تھیں تو میں کسی نہ کسی ویرانے کا‘ جنگل کا یا بیٹ کا رخ کر لیتا تھا۔ کئی سال تو اطہر خاکوانی اور اس کے چھوٹے بھائی انس اور اویس خاکوانی کے ہمراہ دیگر دوستوں کی معیت میں کیمپنگ اور شکار کا لطف لیا۔ فروری کے مہینے میں چولستان جیپ ریلی ایک سالانہ تفریح کا سبب بنتی ہے۔ یہاں بھی اطہر خاکوانی اور برادران دوستوں کی خاطر مدارت اور مہمانداری میں کمال کرتے ہیں۔ یہ تین دن بھی سال بھر کی تکان اتارنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ شکار اب قریب قریب ناپید ہو گیا ہے۔ چولستان میں ”مک مکا‘‘ کے ذریعے شکار کھیلا جاتا ہے اور کھیلا جا سکتا ہے‘ لیکن دل کبھی اس قسم کے شکار پر کبھی جوانی میں آمادہ نہیں ہوتا تھا اب تو ان کاموں سے ویسے بھی تائب ہونے کی عمر آ چکی ہے۔ سو شکار کئی سال سے خواب ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ میں اور میری اہلیہ بچوں سمیت کسی نہ کسی جنگل کا رخ کرتے تھے اور دو تین دن مزے سے گزار کر واپس اسی شہر کے ہنگاموں میں کھو جاتے تھے ‘مگر اب یہ بھی خواب و خیال ہو گیا ہے۔
اطہر خاکوانی کے کیمپ کا سارا اہتمام انس خاکوانی کے ذمے ہوتا تھا۔ کیمپ میں کھانے کا انچارج غیور خان ہوتا تھا اور مجموعی دیکھ بھال حافظ اقبال خاکوانی سنبھال لیتا تھا۔ دریائے سندھ کے بیچوں بیچ کسی بڑے سے ریتلے ٹاپو پر کیمپ لگتا۔ ایک دو پرانے عادی خدمت گار کیمپ لگتے ہی آن ڈیرہ لگاتے۔ چاچا غلاما چولہا سنبھال لیتا۔ دریا پار سے دیسی مرغیاں لائی جاتیں۔ مچھیرے رہو مچھلی اور خاص طور پر سنگھاڑا مچھلی لاتے۔ اویس خان مچھلی کے کباب بناتا۔ چاچا غلاما مرغی پکاتا‘ کبھی کبھار علی الصبح دو چار دریائی پرندوں پر نشانہ آزمایا جاتا۔ شکار صرف اتنا کیا جاتا جتنا کیمپ کے لوگ ایک وقت میں کھا لیں۔ شکار سے ڈیپ فریزر کا پیٹ بھرنے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ تین چار روز کیمپ لگتا۔ موبائل‘ اخبار‘ ٹیلی ویژن سے چھٹکارا مل جاتا۔ کیمپ لگنے سے پہلے ریڈی میڈ ہینڈ پمپ یعنی نلکا تک لگایا جاتا۔ اب کئی سال ہوئے یہ کیمپنگ بھی بس یادوں میں رہ گئی ہے۔
جب کچھ نہیں بن پاتا تھا تو اپنی اہلیہ اور بچوں کے ہمراہ گاڑی میں سامان خورونوش بھر کر ملتان سے ستر اسی کلو میٹر دور عیسن والا جنگل میں ڈانڈے والا ریسٹ ہائوس میں دو تین روز گزارنے پہنچ جاتے تھے۔ کیا مزے دار جگہ تھی۔ چھوٹا سا جنگل‘ نزدیک ہی بہتا ہوا دریائے سندھ اور دو کمروں اور ایک بڑے سے لائونج پر مشتمل ریسٹ ہائوس۔ جب عشروں پہلے اس ریسٹ ہائوس کی شکل دیکھی‘ تب اس ریسٹ ہائوس میں بجلی بھی تھی اور دو تین ملازم بھی موجود تھے۔ پھر ہر سرکاری محکمے اور ادارے کی طرح اس میں بھی دن بہ دن تنزلی شروع ہو گئی۔ دنیا بھر میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چیزوں میں بہتری آتی ہے‘ ہمارے ہاں اس کے بالکل الٹ ہوتا ہے۔ دو تین سال اچھے گزرے‘ پھر معاملات ترقیٔ معکوس کی طرف گامزن ہو گئے۔
یہ ریسٹ ہائوس غالباً نواب مشتاق احمد خان گورمانی کے داماد بریگیڈیئر غضنفر نے بنوایا تھا۔ بریگیڈیئر غضنفر جب پنجاب کے وزیر جنگلات تھے تو انہوں نے عیسن والا جنگل میں یہ ریسٹ ہائوس بنوایا۔ تب یہ ریسٹ ہائوس بھی بڑا شاندار تھا اور اس کا انتظام و انصرام بھی۔ جب میں نے یہاں جانا شروع کیا تب بھی اس کی آب و تاب کسی حد تک قائم تھی۔ دو تین سال کے بعد جانا ہوا تو تب پتا چلا کہ بجلی کٹ چکی ہے‘ بلکہ جانے سے پہلے جب ریسٹ ہائوس کی بکنگ کے لیے ڈیرہ غازی خان کے محکمہ جنگلات والوں سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ریسٹ ہائوس میں بجلی نہیں‘ آپ جا کر کیا کریں گے؟ میں نے کہا: سردی ہے اور جنگل ہے تو بھلا بجلی نہ بھی ہو تو کیا فرق پڑتا ہے؟ ملتان سے چلتے وقت دو درجن بڑی موم بتیاں خرید لیں۔ تب موم بتیاں صرف اور صرف رات کو روشنی کرنے کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔ موم بتیوں والی آنٹیاں ابھی میدان میں نہیں آئی تھیں۔
موم بتیوں کی کوالٹی زیادہ اچھی نہ نکلی اور وہ دوسری رات ہی ختم ہو گئیں۔ پھر بستی گورمانی جا کر موم بتیاں خریدیں اور اگلے دو دن مزے کیے۔ پھر دو سال بعد جانا ہوا تو بجلی خیر کیا بحال ہوتی‘ پتا چلا کہ واپڈا والے ٹرانسفارمر بھی اتار کر لے جا چکے ہیں۔ دو کمروں‘ لائونج اور برآمدے پر مشتمل اس ریسٹ ہائوس کے ساتھ سرونٹ کوارٹر اور باورچی خانہ تھا۔ لکڑیوں پر ہانڈی روٹی بنتی‘ رات کو برآمدے کے سامنے کیمپ فائر کیا جاتا۔ لکڑیوں سے ”بھانبڑ‘‘ مچایا جاتا۔ کافی بنتی اور میں صبح نلکے کے نیچے بیٹھ کر یخ موسم میں نہاتا۔ برسوں بعد جانا ہوا تو جنگل اُجڑ چکا تھا۔ ٹمبر مافیا درخت بیچ کر کھا چکا تھا۔ چوکیدار موجود تھا لیکن کراکری تک کا برا حال تھا۔ باورچی غائب تھا۔ پھر دو سال سردیاں چیچہ وطنی کے ریسٹ ہائوس میں دو چار دن گزارنے چلے گئے۔ وہاں میں اور اسد رات کو گھنٹوں خرگوش تلاش کرتے رہتے تھے۔ جنگل کے مزے اور شہر کی سہولتیں پہلو بہ پہلو موجود تھیں۔ برادرم منیر ابن رزمی سرسوں کا ساگ اور مکئی کی روٹیاں لے آتا تھا۔ یہ اہتمام اس کے ایک دوست رانا صاحب کے ذمے تھا۔ ایک آدھ بار تو خانیوال کے ساتھ پیرووال کے جنگل کے ریسٹ ہائوس میں سردیوں میں جنگل کی رات کا مزہ لینے کے لیے قیام کیا۔ اسی طرح دریائے راوی کے کنارے پرانے سدھنائی بیراج کے ریسٹ ہائوس میں اپنا ٹھرک پورا کیا اور کوٹ ادو کے پاس کراڑی والا بنگلہ ریسٹ ہائوس میں سردیوں کی لمبی راتیں چلغوزے اور مونگ پھلی کھاتے گزاریں۔ لال سوہانرا نیشنل پارک میں جنگل‘ جھیل‘ نہر اور پشت پر سینکڑوں میل پھیلا ہوا صحرا۔ جیپ پر گھومے اور ”ٹوبوں‘‘ کا پانی پیا۔
تین عشروں سے تین چار سال اوپر ہی ہو گئے ہوں گے کہ میں اور میری اہلیہ صرف جنگل کے مزے لینے کے لیے ملتان سے ویگنوں پر لمبا سفر کرتے ہوئے سردیوں میں مانسہرہ سے آگے بالا کوٹ کی طرف جاتے ہوئے راستے میں پڑنے والے بٹراسی کے جنگل میں تین راتیں گزارنے گئے۔ بٹراسی کے جنگل میں دو تین راتیں گزارنا میرا عرصے سے خواب تھا‘ جو ہم نے پورا کیا۔ چھانگا مانگا کے جنگل میں ٹورازم کارپوریشن کے رہائشی یونٹ میں دن سو کر اور راتیں جاگ کر گزاریں۔ کالام سے آگے اوشو اور ملتان کے ساتھ جنگلوں میں مَیں اور میری اہلیہ گھنٹوں پیدل چلتے تھے۔ ایک بار اوسلو جانا ہوا تو میزبانوں سے کہا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ جنگل کے ساتھ رہائش مل جائے؟ میزبان فضل حسین نے ایک دوست کا فلیٹ خالی کروا کر میرے سپرد کر دیا۔ سو گز دور جنگل کی پارکنگ تھی اور پارکنگ کے پار زنجیر سے آگے جنگل تھا۔ فضل حسین نے تنبیہہ کی کہ اس جنگل میں کبھی کبھار جانور از قسم بھیڑیا وغیرہ بھی نظر آ جاتا ہے۔ میں روزانہ ہاتھ میں ایک موٹا سا ڈنڈا پکڑ کر جنگل میں چلا جاتا اور میلوں اندر تک گھومتا پھرتا۔ سردیوں میں جنگل کا فرش پیلے اور سرخ پتوں سے ایسا ڈھکا ہوتا تھا کہ اس پر کسی ایرانی قالین کا گمان ہوتا تھا۔
سات برس گزرتے ہیں کہ سب کچھ ختم ہو گیا۔ میرا ساتھ دینے کے لیے میری اہلیہ تھی کہ اسے کھلی فضا‘ جنگل‘ پھول‘ درخت اور چلتا پانی شاید مجھ سے بھی زیادہ عزیز تھا اور قدرتی حسن سے محبت اس کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وہ گئی‘ دونوں بڑی بیٹیاں اپنے گھر کی ہو گئیں کہ ان دونوں کو بھی کسی حد تک ماں کی طرح اس قسم کی جگہوں سے دلچسپی تھی لیکن چھوٹی والی کو ان چیزوں سے رتی برابر دلچسپی نہیں۔
اسد کا کچھ پتا نہیں چلتا۔ وہ میری ہر بات کی ہاں میں ہاں ملا دیتا ہے۔ اب پتا نہیں چلتا کہ اسے ان چیزوں سے‘ ان جگہوں سے اور ایسے ماحول سے دلچسپی ہے یا محض میری خوشی کے لیے ہاں کر دے گا۔ سو اب یہ سب کچھ خواب ہے۔سردیاں ہیں کہ گزرتی جا رہی ہیں۔ گز شتہ سال میں‘ شوکت گجر‘ شوکت اسلام اور رانا شفیق بنجوسہ چلے گئے۔ جھیل جمی ہوئی تھی اور بلا کی سردی تھی۔ تین دن کے لیے گئے تھے کہ دیگر ساتھیوں نے سردی کا غلغلہ مچا دیا۔ ایک دن بعد ہی واپسی کے لیے چل پڑے۔ راستے میں ایک دن راولا کوٹ گزارا اور پھر بھوربن چل پڑے۔ فائیو سٹار ہوٹل کا اپنا مزہ ہو گا مگر وہ جنگل کا سا مزہ کہاں؟ رانا اعجاز بہاولپور سے فون کر کے کہتا ہے کہ آئو اور صحرا میں ٹینٹ لگا کر دو راتیں گزاریں‘ مگر ہر بار صحرا میں رہنے کا وقت اوپر نیچے ہو جاتا ہے کہ صحرا میں رات گزارنے کے لیے چودھویں کی رات سے بہتر رات اور کوئی نہیں۔ لیکن مسافرت ہے کہ ادھر اُدھر کھینچے چلے جا رہی ہے۔ وہ دوست جن کے ساتھ بندہ آرام‘ خوشی اور راحت محسوس کرتا ہے اپنی مصروفیات اور ترجیحات کے اسیر ہیں۔ بچے اپنے اپنے گھروں میں ہیں اور اپنی اپنی دنیا میں خوش ہیں۔ اللہ انہیں سدا خوش رکھے۔ ملتان میں ایسی سردی غنیمت ہے کہ یہاں تو بس دو موسم ہوتے ہیں۔ گرم اور بہت گرم۔ اسد کو سمسٹر بریک کی چھٹیاں ہیں۔ ممکن ہے دونوں بچے ہیڈ محمد والا سے پرے ریت کے ٹیلوں کے بیچوں بیچ دو دن گزارنے پر راضی ہو جائیں۔ اگر ایسا ہوا تو پھر کالم نہ لکھنے کا ایک بہانہ بھی ہاتھ آ جائے گا۔

Exit mobile version