کیا جب کسی خاندان میں موت واقع ہو جائے تو کھانا غم کم کرنے کے عمل میں مدد کر سکتا ہے۔
اچھی غذا موت کے بعد کے ذہنی دباؤ میں اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن غم کے وقت کھانے کی خواہش کا کھو جانا ایک عام بات ہے۔
یو ایس مِڈ ویسٹ کے علاقے مینیسوٹا میں رہنے والی لنڈسے آسٹرم بھوک ختم ہو جانے کی کیفیت سے واقف ہیں۔ انھوں نے اپنے بیٹے ایفٹن کو اس وقت جنم دیا جب وہ صرف ساڑھے پانچ ماہ کی حاملہ تھیں۔ ان کا بیٹا اگلے ہی دن مر گیا۔
اپنے بیٹے کی موت کے بعد محسوس کیے جانے والے اس انتہائی زیادہ غم نے انھیں جسمانی اور جذباتی طور پر متاثر کیا۔
وہ اکثر پوری رات روتی تھیں، پورا دن پاجاموں میں گزار دیتیں اور کچھ بھیں نہیں کھاتی تھیں۔
وہ کہتی ہیں ’میں سارا دن بس اپنے بیٹے کو کھو دینے کے بارے میں سوچتی تھی اور اس کا ہماری زندگی اور اس کے لیے کیا مطلب تھا۔ مجھے کوئی دلچسپی نہ رہی۔‘
لیکن آسٹرم کے لیے کھانا ان کا کرئیر تھا، وہ ’آ پِنچ آف یم‘ کے نام سے ایک فوڈ بلاگ چلاتی تھیں۔
انھوں نے اپنے بلاگ پر بتایا کہ کیسے کھانے نے اپنے تمام ذائقے کھو دیے اور ان کے معدے میں بہت زیادہ غم کے سوا کسی اور چیز کے لیے جگہ نہیں تھی۔
وہ کہتی ہیں ’عام طور پر کھانے کا خیال انتہائی نفرت انگیز تھا۔ جو میرا شوق تھا وہ بے معنی ہو گیا۔
’میں عام طور پر ایسی انسان ہوں جسے مصالحے دار، بھرپور ذائقوں اور رنگوں والے کھانے کھانا پسند ہیں لیکن میں بس سادہ آلوؤں والا سوپ پینا یا مکھن کے ساتھ سفید ڈبل روٹی کھانا چاہتی تھی، صرف سادے کھانے۔‘
بھوک ختم ہونے کے باوجود، وہ اپنے دوستوں اور فیملی کی شکر گزار ہیں جو ان کے گھر کیسررولز اور تازہ ڈبل روٹی دے جاتے تھے۔
وہ کہتی ہیں ’یہ ہمارے لیے ایک مکمل لائف لائن تھی۔ میں کہتی تھی چلیں ایک وقت میں ایک پیالہ پیتے ہیں۔ اس کو بطور سکون استعمال کرنا جو آپ کو دوبارہ زندگی بخشتا تھا، آپ کو حقیقت کے قریب لاتا تھا کہ آپ زندہ ہیں اور آپ کو زندہ رہنے کی ضرورت ہے۔‘
آسٹرم کو اندازہ ہو گیا کہ پیار سے بنائے گئے سادہ کھانے بھی کتنے اہم ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے اپنے خاندان والوں اور دوستوں سے پائیز اور کیسرول بنانے کی تراکیب پوچھیں اور انھیں اپنے بلاگ پر ایک سیریز ’فیڈنگ آ بروکن ہارٹ‘ یعنی ٹوٹے ہوئے دل کو کھانا کھلانا کے نام سے پوسٹ کیا۔
ہیش ٹیگ #feedingabrokenheart انسٹاگرام پر پھیل گیا، ان تمام ڈشز کی تصاویر کے ساتھ جنھوں نے لوگوں کی غم سے نکلنے میں مدد کی۔
امریکہ کی میری لینڈ یونیورسٹی میں اعصاب کی ماہر پروفیسر لیزا شولمین کہتی ہیں ’صدمے کے ابتدائی مراحل میں دکھ آپ کی بھوک کو ختم کر دیتا ہے۔‘
پروفیسر شولمین کے ہسپتال کے کام کا مطلب یہ ہے کہ وہ زندگی ختم کر دینے والے معاملات کے بارے میں جانتی ہیں، لیکن پھر بھی اپنے شوہر بل کی موت کے بعد انھیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے انھوں نے دکھ اور دماغ پر اس کے اثرات پر کتاب لکھی۔
وہ دکھ کے انسانی جسم پر اثرات اور کھانا اس میں کیسے مدد کر سکتا ہے، کہ بارے میں سمجھنا چاہتی تھیں۔
پروفیسر شولمین کہتی ہیں کہ ’جب آپ کسی صدمے سے دوچار ہوتے ہیں تو آپ کا دماغ ایک سکیورٹی گارڈ کا کردار ادا کرنا شروع کر دیتا ہے اور وہ تمام تکلیف دہ یادوں کو روک کر صرف ایسی یادوں کو ابھرنے کی اجازت دیتا ہے جنھیں آپ جذباتی طور پر برداشت کر سکتے ہیں‘۔
وہ کہتی ہیں جب آپ کسی صدمے میں ہوتے ہیں تو آپ کے اوپر ایک کمبل سا آ جاتا ہے جو آپ کو اپنے اردگرد کے ماحول سے قدرے دور کر دیتا ہے جس سے آپ کی تمام حسی صلاحیتیں دب سی جاتی ہیں۔ پروفیسر شولمین کے خیال میں یہی وجہ ہے کہ دکھی انسان کھانوں کے ذائقوں کی باریکیوں کو محسوس نہیں کر پاتے۔
دکھ میں مبتلا انسان کو اپنی اصلی حالت میں لانے کے لیے اس کی یاداشت کو بتدریج واپس لانا ضروری ہے اور اس عمل میں کھانے کا ایک اہم کردار ہے۔
پروفیسر شولمین کہتی ہیں کہ بحالی کے اس مرحلے میں کھانے کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ’میں ایسے کھانوں پر توجہ دوں گی جن کا میرے لیے کوئی مطلب ہے، جس سے میری یادیں جڑی ہیں۔ میں اپنی حد تک کہہ سکتی ہوں کہ میں ان کھانوں کی طرف گئی، جو میرا خاوند کھانا پسند کرتا تھا، یہ میرے لیے اطمینان کا باعث ہے۔‘
جب چند برس قبل ایمی کے والد کی وفات ہوئی تو انھوں نے والد کی قربت محسوس کرنے کے لیے والد کے پسندیدہ کھانے کھانے شروع کر دیے۔
ایمی کے والد رومانیہ سے ہجرت کرنے والے ایک یہودی تھے جو پیشے سے ماہر تعمیرات تھے لیکن شوق کی خاطر پیسٹرامی کا کاروبار بھی چلا رہے تھے ۔
خاص طور پر ایک چیز جو ایمی کو اپنے والد کی یاد دلاتی تھی وہ کچے پیاز تھے۔ ایمی کہتی ہیں کہ ان کے والد ہر کھانے پر کچے پیاز ڈال لیتے تھے۔
باوجود اس کے ایمی کو پیازوں کا ذائقہ پسند نہیں تھا انھوں نے ہفتے میں کئی بار کچے پیاز کھانے شروع کر دیئے۔ ’میں انھیں اپنے والد کی خاطر کھا رہی تھی۔‘
ایمی کو سکونز بھی پسند نہیں تھے لیکن انھوں نے یہ جانتے ہوئے کہ ان کے والد کو سکونز پسند تھے انھیں کھانا شروع کر دیا۔ ایمی کے لیے کھانا اب ایک ذاتی رسم بن چکا ہے۔
وفات پانے والے پیاروں کے ساتھ کھانے کے ذریعے ملاپ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ مثال کے طور پر قدیم روم میں یہ عام تھا کہ قبروں کے اوپر ایسے چینل بنائے جاتے تھے جہاں مرنے والوں کے لواحقین اپنے پیاروں کے پسندیدہ کھانے اور شراب ان کے منہ میں ڈال سکتے تھے۔
ہندو کلچر میں بھی سوگ کے ابتدائی بارہ دنوں میں سبزی والا کھانا کھایا جاتا ہے۔
جاپان جو بنیادی طور پر ایک بدھ مت ملک ہے، وہاں ایک روایت ہے کہ مرنے والے کے سوگ میں ایک تقریب ہوتی ہے جس میں مرنے والے کی تصویر کے پاس چاولوں کا پیالہ رکھ دیا جاتا ہے اور اس میں چاپ سٹکس کو کھڑا کر دیا جاتا ہے۔
میکسیکو میں سوگ کے ابتدائی نو دنوں میں عمدہ قسم کے کھانے کھائے جاتے ہیں۔
ٹیکساس کی بیلور یونیورسٹی کی پروفیسر کینڈی کین کہتی ہیں کہ روایتی معاشروں میں اس دنیا سے چلے جانے والوں تک خوراک لانے کی رسم کو اب تازہ کیا جا رہا ہے۔
امریکہ میں پہلے میت کے پاس سنگترے، انناس، پرسی مونز (جاپانی پھل) کے ڈھیرلگا دیے جاتے تھے لیکن اب اس کی جگہ فرنچ فرائیز، شیک، بگ میک برگر کے ڈھیر لگائے جاتے ہیں۔
کئی دفعہ لوگ ان کو کھا لیتے ہیں یا پھر قبرستان کا عملہ میت کے پاس پھولوں اور غباروں کی طرح، ان کھانوں کی بھی صفائی کر دیتے ہیں۔
مغربی دنیا میں ایسے رواج کم ہیں لیکن جنوبی امریکی ریاستوں میں کیسرولز کی رسم بہت عام ہو رہی ہے۔ پروفیسر کین کے مطابق کیسرول کی روایت کا مقصد مرحوم کے بغیر اجتماعی کھانے کو کھانا ہے۔
اس کا مقصد یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ آپ کا پسندیدہ شخص آپ کی دنیا سے چلا گیا لیکن اس کی یادیں باقی ہیں۔
پروفیسر کین کے مطابق عام طور پر غم ایک غیر معمولی عمل تصور کیا جاتا ہے لیکن لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ جلدی اس کیفت سے باہر نکلیں، بجائے اس کے انھیں موقع دیا جائے کہ وہ اپنی مرضی سے کھائیں پیئیں، مرنے والے سے اپنے رشتے کو برقرار رکھیں اور یوں خود کو غم سے نکلنے کا موقع دیں۔