فلاحی پاکستان!
میری ذاتی خواہشات زیادہ تھی ہی نہیں، جتنی تھیں وہ اللہ نے پوری کر دی ہیں ۔اپنی ذات سے ہٹ کر دل میں ہمیشہ ایک خواہش رہی اور وہ یہ کہ میرا پاکستان ایک فلاحی مملکت بن جائے ،یہ خواہش ناروے میں قیام کے دوران زیادہ شدید ہو گئی میں وہاں عام شہریوں کی تمام بنیادی ضرورتیں پوری ہوتے دیکھ کر جہاں خوش ہوتا وہاں میرے دل میں ایک ٹیس سی بھی اٹھتی کہ خداوند میرے لوگوں کو چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کےلئے ذلیل وخوار کیوں ہونا پڑتا ہے، وہ بیمار پڑ جائیں تو ان کے پراپر علاج کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا ۔میں نے ایک دن ایک میڈیکل اسٹور پر سات سال کے ایک بچے کو دیکھا جس کی مٹھی میں ایک کرنسی نوٹ تھا اس کا ہاتھ کائونٹر تک نہیں پہنچ رہا تھا بس اس کی آواز سنائی دی وہ سیلز مین سے کہہ رہا تھا میری ماں بیمار ہے اس کے لئے دوائی دے دو ۔فلاحی مملکتوں میں علاج کی بہترین سہولتیں ہر ایک کو میسر ہوتی ہیں رہائش کے لئے مکان ملتا ہے بچوں کی پیدائش کے فوراً بعد ماں اور بچے کا وظیفہ مقرر ہو جاتا ہے ،معذوروں اور بوڑھوں کے لئے زندگی آسان بنائی جاتی ہے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ دنیا کی سیاحت کے لئے نکل جاتے ہیں، میں نے یورپ میں سفر کے دوران بوڑھوں (سینئر سٹیزن) سے بھری ہوئی کوچز دیکھیں وہ شاواں و فرواں زندگی کے یہ لمحات گزار رہے ہوتے تھے ان ملکوں میں تعلیم مفت ہے، اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے، آپ کا جو بھی عقیدہ ہو اس کا احترام کیا جاتا ہے ،کسی کو کسی دوسرے کے عقیدے پر حملہ آور ہونے کی اجازت نہیں ۔
میں نے ان ملکوں میں ایک اہم بات یہ بھی نوٹ کی کہ امرا ءاپنی دولت کی نمائش سے حتی المقدور گریز کرتے ہیں ناروے میں میرا لینڈلارڈبے پناہ امیر تھا لیکن جب وہ ڈائون ٹائون جاتا تو اپنی ایک پرانے ماڈل کی کار میں گھر سے نکلتا اور اس کے بدن پر جو لباس ہوتا وہ عام شہریوں سے بہتر نہیں ہوتا تھا اس طرح شہر کے درمیان میں کنگ کا محل تھا ،میں جب اس سے ملنے گیا تو حیران رہ گیا ایک عام سی عمارت اور اس میں عام سی فرنشنگ!مگر شہر سے دور کنگ کا اصل محل تھا جو بادشاہ ہی کا محل لگتا تھا مگر یہ لوگوں کی گزر گاہوں سے دور تھا جبکہ ہمارے ہاں دولت کی نمائش گھٹیا پن کی تمام حدود پار کر چکی ہے۔گزشتہ دنوں ایک شادی کی بہت دھوم سننے میں آئی روپیہ پانی کی طرح بہایا گیا تھا اس شادی کی خبریں اور تصویریں دیکھ کر مجھے اشفاق احمد کا ایک ڈرامہ یاد آ گیا جس میں اس طرح کے ایک دولت مند کی بیٹی کی شادی کی تیاریاں دکھائی گئی تھیں اس کے ہاں کبھی جیولر آتے جو لاکھوں کروڑوں کے زیورات پسند کروانے کے لئے اپنے ساتھ لاتے تھے، کبھی زرق برق لباس کے ڈھیر ان کےسامنے رکھ دیئے جاتے اس محل نما کوٹھی کے ایک کونے میں ایک کمرے کا کوارٹر تھا جس میں ایک ریٹائرڈ استانی اپنی جوان بیٹی کے ساتھ رہتی تھی وہ بچی سہاگن نہیں بن سکی تھی وہ اپنے ’’ہمسائے‘‘ میں رہنے و الی لڑکی کی شادی کی تیاریاں دیکھ دیکھ کربیمار پڑ جاتی اور ایک دن مر جاتی ہے۔ پتہ نہیں ہمارے لوگوں کو ان غریب بچیوں پر کب رحم آئے گا ہمارے چینلز سے دکھائے جانے والے ڈرامے بھی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے میں برابر کا کردار ادا کرتے ہیں ۔اسی طرح ٹی وی چینلز اور اخباروں میں بنے بنائے گھروں کے بڑے بڑے اشتہارات دیکھنے کو ملتے ہیں اور ان کی قیمتیں دیکھ کر دل میں خوف کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے کہ ڈھائی مرلے کا مکان بھی ایک کروڑ سے زائد قیمت کا ہے اور سوچتا ہوں کہ زندگی بھر دو دو کمروں کے کرائے کے مکانوں میں پوری فیملی کے ساتھ رہنے والوں کو یہ دکھا کر ہم انہیں کیا پیغام دے رہے ہیں ۔
میرے ذہن میں یہ سوال بھی بار بار سر اٹھاتا ہے کہ صورتحال کی بہتری کے لئے کسے آواز دی جائے ؟سیاست دانوں کو ،اسٹیبلشمنٹ ، علماء کو،یا کسی غیبی آواز کا انتظار کیا جائے وہ تمام طبقے جو صورتحال میں تبدیلی لا سکتے ہیں انہیں بے پناہ مراعات حاصل ہیں یا انہیں بے معنی قسم کی الجھنوں میں مبتلا کردیا گیا ہے ان میں سے اگر کوئی کچھ کرنا بھی چاہتا ہے تو اسے راہ سے ہٹا دیا جاتا ہے یا اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں، اس کے باوجود مجھے یقین ہے کہ یہی حالات انقلاب کی راہ ہموار کریں گے۔ شدید حبس کے بعد بارش ضرور ہوتی ہے کوئی رات ہمیشہ کے لئے نہیں ہوتی اس کے بعد صبح کی آمد آمد ہوتی ہے بس ایک خدشہ ہے کہ ہم زمانے سے پہلے ہی بہت پیچھے ہیں وہ وقت آنے تک جس کا میں اور آپ سب کب سے انتظار کر رہے ہیں، زمانے سے مزید پیچھے رہ جائیں گے مگر وہ صبح طلوع ہو تو سہی ،اگر ہم انقلاب لانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں تو ہم ’’ لیٹ ‘‘بھی نکال لیں گے۔