Site icon DUNYA PAKISTAN

حیدرآباد کے آخری نظام مکرم جاہ نے وراثت میں ملنے والی اربوں کی جائیداد کیسے اُڑائی؟

Share

1980 کی دہائی میں ایک سوئس نجومی نے حیدرآباد کے آٹھویں نظام مکرم جاہ سے کہا تھا کہ ’آپ کی موت 86 سال کی عمر سے پہلے نہیں ہو گی۔‘

کئی سال پہلے جب مکرم جاہ کو جاننے والے صحافی اور مصنف جان زوبریسکی ان سے ترکی کے شہر اناطولیہ میں ملے تو ان کی عمر 71 برس تھی، وہ ذیابیطس کی دوا لے رہے تھے اور جم کر سگریٹ نوشی کرتے تھے۔

انھوں نے جان زبرسکی سے انتہائی اعتماد سے کہا ’میرے دادا، میر عثمان علی خان بے تحاشہ سگریٹ نوشی کرتے تھے اور روزانہ 11 گرام افیون پیتے تھے اور 80 سال تک زندہ رہے تو میں تو ان سے زیادہ ہی جیوں گا۔‘

2023 میں جب مکرم جاہ کا انتقال ہوا تو ان کی عمر 89 سال تھی۔ ان کا انتقال اناطولیہ میں اپنے تین بیڈ روم والے اپارٹمنٹ میں ہوا، جہاں ایک نرس، ایک باورچی اور ایک دیکھ بھال کرنے والا ایک ملازم ان کے ساتھ رہا کرتے تھے۔

ترکی میں ان کے پڑوسیوں کو بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ نظام مکرم جاہ کے نانا عبدالمجید دوئم تھے، جو سلطنت عثمانیہ کے آخری ’خلیفہ‘ تھے جنھیں 1924 میں جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

مکرم کے والد شہزادہ اعظم کی شادی سوئٹزرلینڈ میں پناہ لینے والے ’خلیفہ‘ کی اکلوتی بیٹی درشہوار سے ہوئی تھی۔

مکرم جاہ کو وراثت میں بے شمار دولت اور ہیرے جواہرات ملے

یہ مکرم جاہ ہی تھے جو 1967 میں حیدرآباد کے آٹھویں اور آخری نظام کے طور پر تخت نشین ہوئے اور اپنے دادا سے انھیں ایک درجن سے زائد محلات، مغل نوادرات، سینکڑوں کلو سونے اور چاندی کے زیورات، ہیرے اور قیمتی پتھر وغیرہ وراثت میں ملے تھے لیکن اپنی موت سے پہلے انھوں نے چار ہزار کروڑ روپے کی جائیداد ’گنوا دی‘ یا دوسرے لفظوں میں ’ا ڑا ‘ دی تھی۔

مکرم جاہ کے سوانح نگار جان زوبرسکی نے ’دی لاسٹ نظام: رائز اینڈ فال آف گریٹ پرنسلی سٹیٹ‘ میں لکھا ہے کہ ’مکرم بڑے شوق سے یہ قصہ سناتے تھے کہ کس طرح ان کے پہلے نظام نے پہرے داروں کو رشوت دے کر گولکنڈہ کے قلعہ کا دروازہ کھلوا کر جنوب میں مغلوں کو فتح دلوائی تھی۔‘

اس کے بعد سونا، چاندی اور ہیرے جواہرات اونٹوں پر بھر کر اورنگزیب کے دربار میں پہنچ گئے تھے۔ جان زوبرسکی مزید لکھتے ہیں کہ ’یہ محض اتفاق نہیں کہ نظام حیدرآباد کی شاہی ریاست جو فرانس جیسے ملک کے برابر تھی، اب کم ہو کر چند سو ایکڑ رہ گئی ہے۔‘

جب مکرم جاہ کا انتقال ہوا تو نظام حیدرآباد کی جائیداد کے درجنوں ورثا کے درمیان عدالتوں میں سینکڑوں مقدمات چل رہے تھے جن کی سماعت ابھی تک جاری ہے لیکن یہ سمجھنے کے لیے تاریخ میں واپس جھانکنا پڑے گا کہ حیدرآباد کے آخری نظام نے کس طرح بے پناہ دولت کو ’اڑایا‘ کیونکہ ان کے دادا میر عثمان علی نے اپنے بیٹے شہزادہ اعظم کے بجائے پوتے مکرم کو وارث منتخب کیا تھا۔

،تصویر کا کیپشنمکرم جاہ اپنی اہلیہ درِشہوار اور بچوں کے ہمراہ

مکرم جاہ کے دادا عثمان علی کی 200 بیویاں اور 500 پوتے پوتیاں

میر عثمان علی خان کے سوانح نگار ڈی ایف قراکہ نے ’فیبلوس مغل‘ (شاندار مغل) میں لکھا ہے کہ ’عثمان علی خان کو وراثت میں بے پناہ دولت ملی تھی اور انھوں نے ’کنگ کوٹھی‘ محل میں اپنا ’زنانہ‘ بنایا تھا جہاں 1920 کی دہائی میں ان کی 200 بیویاں رہا کرتی تھیں جو 1967 میں یعنی ساتویں نظام کی موت تک کم ہو کر 42 رہ گئی تھیں۔ وہ بات اور تھی کہ شاہی خرچ نہیں کرتے تھے اور ان کا شمار کنجوسوں میں ہوتا تھا۔‘

جان زوبرسکی نے ’دی لاسٹ نظام: رائز اینڈ فال آف گریٹ پرنسلی سٹیٹ‘ میں لکھا کہ ’میرے دادا عثمان علی خان شام کو اس محل کے باغیچے میں جاتے تھے جہاں ان کی تمام بیویاں پہنچ جاتی تھیں۔ جس کے کندھے پر دادا سفید رومال رکھ دیتے تھے انھیں پتا چل جاتا تھا کہ محل میں دادا کے کمرے میں رات نو بجے کس رانی کو ملاقات کرنی ہے۔‘

لیکن اس سب کے درمیان حیدرآباد کے ساتویں نظام میرعثمان علی کے بچوں اور پوتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا اور ان کی وفات کے وقت یہ تعداد 100 کے قریب تھی جو 2005 میں 500 سے تجاوز کر گئی تھی۔ ان میں سے تقریباً سبھی نے آٹھویں اور آخری نظام مکرم جاہ کے خلاف جائیداد میں حصہ داری کے مقدمات درج کرائے تھے۔

تاہم حقیقت یہ بھی تھی کہ 1947 میں انڈیا کی آزادی کے دوران حیدرآباد کی شاہی ریاست کو ملک کی امیر ترین ریاست کہا جاتا تھا، جس کے بارے میں خود برطانیہ کے وزیر اعظم نے بیان دیا تھا۔

جولائی 1948 میں، ونسٹن چرچل نے برطانوی پارلیمان کو بتایا تھا کہ ’اقوام متحدہ کے 52 رکن ممالک میں سے 20 حیدرآباد سے چھوٹے تھے اور ان میں سے 16 کی آمدنی نظام حیدرآباد کی شاہی ریاست سے کم تھی۔‘

،تصویر کا کیپشنمکرم جاہ کی شادی کے موقع پر لی گئی تصویر

مکرم جاہ اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی گئے

یہ وہ دور تھا جب شہزادہ مکرم جاہ کی والدہ در شہوار نے اپنے سسر نظام میر عثمان علی کی خواہش کے خلاف جا کر مکرم کو انگلینڈ میں کیمبرج یونیورسٹی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ دریں اثنا حیدرآباد کی شاہی ریاست انڈیا کے ساتھ ضم ہو گئی تھی اور نظام حیدرآباد کی کل جمع شدہ سرمایہ اور منقولہ و غیر منقولہ جائیداد پر قیاس آرائیاں ہو رہیں تھیں۔

میر عثمان علی کے سوانح نگار ڈی ایف قراکہ کے مطابق ’1950 کی دہائی میں نظام کی مجموعی مالیت 1.35 ارب روپے تھی، جس میں 350 ملین نقد، 50 ملین ہیرے اور جواہرات، اور اتنی ہی تعداد میں محلات اور جائیدادیں تھیں۔‘

نیویارک ٹائمز اخبار نے سنہ 1949 میں خبر دی تھی کہ نظام کے کل اثاثے تقریباً دو ارب امریکی ڈالر کے ہوں گے۔

نظام حیدرآباد کی جائیداد کے تمام تخمینوں میں سے کئی بار سٹیٹ بینک آف انڈیا نے مقدمات کی سماعت کے دوران ان کے ہیروں اور جواہرات اور ملبوسات کی قیمت تقریباً چار ہزار کروڑ روپے بتائی ہے۔

14 جون 1954 کو انڈیا کے اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کو لکھے گئے ایک خط میں میر عثمان علی نے لکھا تھا کہ ’اپنی فضول خرچی اور شراب کی لت کے سبب ’شہزادہ اعظم جاہ اپنے آپ کو خاندان کا سربراہ بننے کے قابل ثابت نہیں کر سکے اس لیے میرا پوتا مکرم جاہ میری ذاتی جائیداد کا وارث ہوگا۔‘

اس کے بعد کے کچھ برسوں میں، جب انڈین حکومت نے پرانے شاہی گھرانوں کے حقوق پر قبضہ جاری رکھا، مکرم جاہ انگلستان اور یورپ میں پلوں کی تعمیر سے لے کر بارودی سرنگیں بچھانے تک سب کچھ سیکھ رہے تھے۔

مکرم جاہ کو پہلا دھچکہ

اس دوران مکرم جاہ نے لندن کے ہیرو سکول میں اپنے دوست راشد علی خان سے کہا تھا کہ ’میں بھرپور طریقے سے ایک آزاد انسان کی زندگی گزارنا چاہتا ہوں، اس لیے میں اپنے تمام مشاغل کو پورا کر رہا ہوں، چاہے وہ فلمیں دیکھنا ہوں یا میوزک کے پروگراموں میں شرکت کرنا‘۔

1958 میں استنبول میں چھٹیوں کے دوران، ان کی ملاقات ایسرا برگین سے ہوئی، جن سے مکرم نے لندن کی کینسنگٹن کورٹ میں خفیہ شادی کی۔ مؤرخ انیتا شاہ کے ساتھ بات چیت میں کئی سال بعد انھوں نے بتایا کہ ’اس وقت کے نظام، میرے دادا اور میری والدہ اس شادی کے خلاف تھے لیکن ان کے پاس کوئی راستہ بھی نہیں تھا‘۔

آخر کار جب 1967 میں ساتویں نظام میر عثمان علی کا انتقال ہوا تو مکرم جاہ آخری نظام کے طور پر تخت پر بیٹھے۔ بہت سی مصیبتوں میں سب سے بڑی مصیبت شاہی خرچ تھا۔

کئی سال بعد ترکی میں جان زوبریسکی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں مکرم جاہ نے کہا کہ ’صرف میرے دادا کے پاس 14 ہزار 718 افراد کا عملہ تھا، اس کے علاوہ شاہی اخراجات کے لیے ان کی 42 بیویاں اور 100 بچے تھے۔‘

’حیدرآباد کے چومحلہ محل میں 6,000 افراد کا عملہ تھا اور ہمارے تمام محلوں میں تقریباً 5,000 گارڈز تھے، ان سب کے علاوہ نظام کے کچن میں روزانہ 2,000 لوگوں کے لیے کھانا پکایا جاتا تھا اور کچھ عملہ آس پاس کے بہت سے ہوٹلوں اور ریستورانوں میں اس کا کچھ حصہ چوری چھپے فروخت کیا کرتے تھے۔‘

مکرم جاہ نے یہ بھی بتایا تھا کہ نظام کا شاہی گیراج جو رولز رائس سے بھرا ہوا تھا، ان میں پیٹرول کا سالانہ خرچ اس وقت 90 ہزار امریکی ڈالر تھا۔

1968 میں مکرم جاہ کو پہلا دھچکہ اس وقت لگا جب آندھرا پردیش ہائیکورٹ نے فیصلہ کیا کہ نظام کی دولت ان کے تمام ورثا میں برابر تقسیم کی جائے۔ یہ مقدمہ مکرم جاہ کی بہن شہزادی پاشا نے دائر کیا تھا، جنھیں ان کے دادا نے شادی کی اجازت نہیں دی تھی۔

،تصویر کا کیپشنمیر عثمان علی نے اپنے بیٹے شہزادہ اعظم کے بجائے پوتے مکرم جاہ کو وارث منتخب کیا تھا

مکرم جاہ نے آسٹریلیا میں کئی ملین ڈالر کی جائیداد خریدی

اگلے دو سال میں، ان کی بیوی ایسرا اور بچے انگلینڈ واپس آ گئے اور حیدرآباد میں اپنی جائیداد بچانے کے ان کے منصوبے یکے بعد دیگرے ٹوٹتے گئے۔ انجینئرنگ اور موٹر مکینکس کا شوق رکھنے والے مکرم جاہ جب نظام کی ڈیوٹی سے فرصت پاتے تو اپنے دادا کے گیراج میں کھڑی 56 کاروں کی مرمت میں لگ جاتے تھے۔

برسوں بعد انگلینڈ میں ان کی پہلی بیوی ایسرا نے جان زوبرسکی کو بتایا کہ ’وہ یا تو فوج میں جانا چاہتے تھے یا کار مکینک بننا چاہتے تھے۔ انھیں لگا تھا کہ اس جائیداد کے معاملے میں قریبی دوستوں پر بھروسہ کرنے سے بات بن جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘

یہاں حیدرآباد میں نظام مکرم جاہ کو اچانک کیمبرج کے اپنے دوست جارج ہوبڈے یاد آئے جو مغربی آسٹریلیا میں بطور ڈاکٹر پریکٹس کر رہے تھے۔ وہ ان سے ملنے گئے اور یہاں سے ان کی زندگی نے ایک بڑا موڑ لیا اور صرف حیدرآباد ہی نہیں بلکہ ان کی جائیداد بھی ان سے دور ہوتی گئی۔

مغربی آسٹریلیا کے شہر پرتھ کے آس پاس کا نظارہ اور وہاں کے لوگ انھیں اتنے پسند آئے کہ انھوں نے یہاں ایک فارم ہاؤس خریدنے کا فیصلہ کیا۔ اچانک انھیں بھیڑوں کے فارم ’مرچیسن ہاؤس سٹیشن‘ کے بارے میں پتا چلا۔

ٹائم میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں مکرم جاہ نے کہا کہ ’دریائے مرچیسن کے نیلے پانی نے جیسے فارم کے بیچوں بیچ سرخ ریت کے پتھر کی پہاڑیوں سے ایک کنارہ کاٹ دیا تھا۔ مجھے پرانے حیدرآباد کے پہاڑوں اور جنگل کی یاد آ رہی تھی۔ وہ جنگل جہاں بچپن میں میں اپنے دادا کے ساتھ شکار پر جاتا تھا‘۔

اسی دوران مکرم نے ہیلن سیمنز نامی آسٹریلوی خاتون سے شادی کی، جو بعد میں ایڈز کی وجہ سے انتقال کر گئیں۔ اس شادی سے بھی ان کے دو بچے ہوئے۔

مکرم جاہ نے اپنی توجہ آسٹریلیا میں اپنی نئی سٹیٹ ’مرچیسن ہاؤس سٹیشن‘ پر مرکوز کر رکھی تھی جو پانچ لاکھ ایکڑ اراضی پر پھیلی ہوئی تھی۔ اس کی ایک جانب بحر ہند اور دوسری طرف پہاڑ اور غار تھے۔

ادھر انڈیا میں ان کی جائیداد تقسیم ہو رہی تھی اور اس پر دوسروں کا قبضہ بڑھتا جا رہا تھا لیکن مکرم آسٹریلیا میں کئی ملین ڈالر کی جائیداد خرید رہے تھے۔

،تصویر کا کیپشنجان زوبرسکی مکرم جاہ کی زندگی پر کتاب ’دی لاسٹ نظام: رائز اینڈ فال آف گریٹ پرنسلی سٹیٹ‘ کے مصنف ہیں

قرض ادا کرنے کے لیے جہاز، بلڈوزر اور بیش قیمتی اشیا فروخت

مکرم جاہ کے سوانح نگار جان زوبرسکی کے مطابق ’مکرم اخراجات کی بڑھتی ہوئی فہرست ، اپنے عملے اور دنیا بھر کے مہنگے ہوٹلوں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے قیمتی ہیرے اور جواہرات سوئٹزرلینڈ لائے اور انھیں فروخت کیا لیکن آسٹریلیا میں ان کے اخراجات دوگنا اور تین گنا بڑھ رہے تھے اور لوگوں نے ان کے پیسوں کے ساتھ ہیرا پھیری شروع کر دی تھی۔‘

مقروض زندگی سے بچنے کی کوشش اور حکومت ہند کی جانب سے نظام ٹرسٹ کی قیمتی اشیا کو بیرون ملک نیلام کرنے پر پابندی کی وجہ سے مکرم جاہ ٹوٹتے جا رہے تھے۔ 1996 تک انھیں قرض ادا کرنے کے لیے آسٹریلیا اور یورپ میں اپنی جائیدادیں گروی رکھ کر فروخت کرنی پڑیں۔ ان کا جہاز ضبط کر لیا گیا اور کاریں اور بلڈوزر نیلام کر دیے گئے۔

آسٹریلیا کے اخبار ’دی ویسٹرن میل‘ نے خبر شائع کی تھی کہ ’شاہ، جس نام سے وہاں کے لوگ انھیں بلایا کرتے تھے، ان کے ملازمین نے غلط طریقے سے پیسہ خرچ کیا اور دھوکہ دہی بھی کی۔

ایک جمعہ کو نظام مکرم جاہ نے پرتھ میں اپنے سیکرٹری سے کہا کہ وہ نماز پڑھنے جا رہے ہیں اور اس کے بعد پھر وہ آسٹریلیا میں نظر نہیں آئے۔ اپنے خلاف درج مقدمات پر کارروائی کے خوف سے وہ ترکی چلے گئے اور زندگی بھر وہیں رہے۔ اس دوران ان کی دو اور شادیاں ہوئیں جو زیادہ دیر نہ چل سکیں۔

2002 میں حکومت ہند نے انھیں نظام ٹرسٹ سے لیے گئے زیورات سرکاری خزانے میں دیے جانےکے لیے 22 ملین ڈالر دیے لیکن یہ قیمت مارکیٹ کی قیمت کے ایک چوتھائی سے بھی کم بتائی گئی۔

رواں سال کے شروع میں ان کی وفات کے بعد مکرم جاہ کی جسد خاکی کو حیدرآباد لایا گیا اور پورے اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا۔ اس سے پہلے وہ آخری بار 2012 میں حیدرآباد آئے تھے۔

سوانح نگار جان زوبریسکی نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا انھیں کوئی ملال رہ گیا ہے؟ جواب میں ان کا کہنا تھا ہاں۔

مکرم جاہ نے انطالیہ کے کیفے میں چائے پیتے ہوئے کہا کہ ’انگلینڈ میں میرے ایک دوست کو دوسری عالمی جنگ کی ایک ٹوٹی ہوئی آبدوز ملی تھی۔ اس نے مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا مجھے اس میں دلچسپی ہے؟ میں نے جواب دیا ہاں لیکن بات آگے نہ بڑھ سکی‘۔

Exit mobile version