پاکستان

لاپتہ افراد کے وکیل انعام الرحیم کی حراست غیر قانونی قرار

Share

لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ نے خفیہ ایجنسیوں کی تحویل میں موجود وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کی حراست کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انھیں فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔

گذشتہ برس 17 دسمبر کو جبری طور پر گمشدہ افراد کے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل انعام الرحیم کو راولپنڈی میں ان کی رہائش گاہ سے اغوا کیا گیا تھا۔

بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کےمطابق جمعرات کے روز جسٹس مرزا وقاص رؤف کا کہنا تھا کہ وکیل انعام الرحیم کو تحویل میں رکھے جانے کو کسی صورت بھی قانونی قرار نہیں دیا جا سکتا۔

خیال رہے کہ گذشتہ جمعرات کو وزارت دفاع کے نمائندے بریگیڈیئر فلک ناز نے عدالت کو بتایا تھا کہ کرنل انعام ان کی تحویل میں ہیں اور انھیں ’آفیشل سیکرٹ ایکٹ‘ کی خلاف ورزی کے الزام میں حراست میں لیا گیا ہے۔

انعام الرحیم کے وکلا بریگیڈیئر ریٹائرڈ واصف اور شیخ احسن الدین کی جانب سے مؤقف اختیار کیا کہ ایجنسیوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انعام الرحیم ان کی حراست میں ہیں اور وہ اب تک اس کا کوئی قانونی جواز پیش نہیں کر سکے۔

دوسری جانب ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کے مطابق نہ صرف کسی سویلین کو تحویل میں لیا جا سکتا ہے بلکہ ان سے تفتیش بھی کی جا سکتی ہے۔

تاہم عدالت ان دلائل سے مطمئن نہیں ہوئی اور انعام الرحیم کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

کرنل انعام الرحیم کون ہیں؟

انعام الرحیم ایڈووکیٹ کا تعلق پاک فوج کے 62ویں لانگ کورس سے ہے۔ یہ وہی کورس ہے جس سے موجودہ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کا بھی تعلق ہے۔

آل پاکستان ایکس سروس مین لیگل فورم کے کنوینر انعام الرحیم ماضی میں لاپتہ اور فوج کے حراستی مراکز میں قید افراد کے مقدمات لڑنے کے علاوہ فوجی عدالتوں اور فوجی سربراہان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے خلاف عدالتوں سے رجوع کر چکے ہیں۔

انعام الرحیم پاک فوج کی لیگل برانچ جسے جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ یا جیگ برانچ کہتے ہیں سے بھی منسلک رہے۔ پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد وہ فوج میں رہتے ہوئے پرویزمشرف کے ناقدین میں شامل تھے۔

انھوں نے اپنے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف سے تمغہ امتیاز ملٹری وصول کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ وہ لیفٹینینٹ کرنل کے عہدےسے آگے نہ جاسکے اور اکتوبر 2007 میں ریٹائر ہو گئے۔

2008 میں انعام الرحیم نے راولپنڈی میں قانون کی پریکٹس شروع کر دی۔ ان دنوں راولپنڈی میں پرویز مشرف پر حملہ کیس کے ملزمان رانا فقیرو دیگر اپنے لیے وکیل تلاش کررہے تھے مگر کوئی ان کا کیس لینے کے لیے تیار نہ تھا۔ انعام الرحیم آگے بڑھے اور انہوں نے ملزمان کے وکیل کے طور پر خدمات پیش کیں۔ اس طرح وہ پہلی بار میڈیا کی نظروں میں بھی آئے۔

پرویز مشرف اوردیگر عسکری شخصیات کے اثاثوں سے متعلق انعام الرحیم نیب سے بھی رجوع کرتے رہے۔ پرویز مشرف کے اثاثوں کے بارے میں انھوں نے مختلف فورمز پر درخواستیں بھی دیں۔

انعام الرحیم نے جنرل راحیل شریف کے دور میں پاک افغان سرحد پر انگوراڈہ کی چیک پوسٹ مبینہ طور پر افغانستان کے حوالے کرنے کے خلاف بھی ایک رٹ پٹیشن کررکھی تھی جس میں اس وقت کے ڈائریکٹرجنرل آئی ایس پی آر عاصم سلیم باجوہ کو بھی ملزم نامزد کررکھا تھا۔

حال ہی میں عاصم سلیم باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی سی پیک اتھارٹی کے سربراہ کے طورپر تعیناتی کے بعد یہ معاملہ ایک بارپھر سامنے آیا تھا۔