’یوروپین سپیس ایجنسی‘ (یورپی خلائی ایجنسی — ای ایس اے) سیارہ مشتری پر ایک سیٹلائٹ بھیجنے کی تیاریاں مکمل کر چکی ہے، جو اس ادارے کے اب تک بھیجے گئے شاندار مشنوں میں سے ایک ہے۔
یہ سیٹلائٹ آٹھ سال تک تحقیقات کرنے کے لیے جمعرات کو زمین کے مدار سے نکلے گا تا کہ جولائی تک مشتری کے بڑے چاندوں تک پہنچ سکے۔
ماہرین کے پاس اس بات کے کافی ثبوت ہیں کہ ان چاندوں کی یہ برفیلی دنیا – ’کالیستو‘ (Callisto)، ’یوروپا‘ (Europa) اور ’جانيميد‘ (Ganymede) – کی گہرائی میں مائع پانی کے سمندر موجود موجود ہیں۔
ای ایس اے کے اِس مشن کا مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ آیا چاند میں بھی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے درکار حالات موجود ہیں۔
جوئس زندگی کا پتہ لگانے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔ یہ اجنبی مچھلیوں کی تصاویر واپس نہیں بھیجے گا۔ لیکن یہ اس بات کا تعین کرنے میں مدد دے سکتا ہے کہ آیا مشتری کے چاندوں کے پوشیدہ سمندروں کے حالات میں سادہ ’مائکروبیل اورگینزِم‘ (حیوانی جرثومے) کی موجودگی کا کوئی امکان ہے یا نہیں۔
’ای ایس اے‘ میں سائنس کے ڈائریکٹر پروفیسر کیرول منڈیل کا کہنا ہے کہ یہ کوئی جنونی خیال نہیں ہے۔
انہوں نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’زمین کے ہر انتہائی ماحول میں چاہے اس میں تیزابیت زیادہ ہو، تابکاری زیادہ ہو، کم درجہ حرارت ہو، زیادہ درجہ حرارت ہو، ہمیں کسی نہ کسی شکل میں مائکروبیل زندگی ملتی ہے۔‘
’اگر آپ زمین کے سمندروں کے نچلے حصے میں (آتش فشاں) روشندانوں کو دیکھیں تو یہ بھی اجنبی دنیا کی طرح نظر آتے ہیں۔ اگر ہمارے پاس بھی ایسی ہی صورتحال ہے تو اس کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ مائکروبیل زندگی کسی اور جگہ موجود نہ ہو۔ اور یہ وہ حالات ہیں جن کا ہم جوئس کے ذریعے مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔‘
پونے دو ارب ڈالر کی مالیت کے مشن کو ’آرئین-5‘ (Ariane-5) راکٹ پر لاد کر فرانسیسی گیانا کے ایک مقام ’کوراؤ‘ سے مقامی وقت کے مطابق سوا نو بجے لانچ کیا جائے گا جو کے برطانوی وقت کے لحاظ سے سوا ایک بنتا ہے۔
’آرئین-5‘ (Ariane-5) میں اتنی انرجی نہیں ہو گی کہ وہ جوئس کو مشتری کے چاندوں تک ایک فائدہ مند ٹائم فریم کے اندر لے جائے ۔
اس کے بجائے یہ خلائی جہاز کو اندرونی نظام شمسی کے گرد ایک راستے پر بھیجے گا۔ زہرہ اور زمین کے ’فلائی بائیس‘ کا ایک سلسلہ جو کشش ثقل کے ذریعے اس مشن کو اس کی مطلوبہ منزل تک لے جائے گا۔ (’فلائی بائیس‘ flybys — ایک نقطہ سے آگے کی پرواز، خاص طور پر مشاہدے کے لیے کسی سیارے یا چاند کے لیے خلائی جہاز کا قریبی نقطہ نظر)
توقع ہے کہ یہ مشن مشتری سیارے کے نظام میں جولائی 2023 تک داخل ہو جائے گا۔
جوئس سیٹلائیٹ مشتری کے چاند ’جانيميد‘ کے گرد مدار میں ٹھہرنے سے قبل یہ مشن ان چاندوں کے قریب سے 35 مرتبہ گزرے گا۔
خلائی جہاز میں کل 10 آلات لگے ہوئے ہیں۔ چاند کی ذیلی سطح کی خصوصیات کا نقشہ بنانے کے لیے مختلف کیمرے، ذرات کو جانچنے والا آلہ (پارٹیکل ڈٹیکٹر)، ریڈار ہیں۔ یہاں تک کہ موسمیات کے جائزے کے لیے بھی ایک آلہ ہے جو سطحی کے ’تھری ڈائمنشنل‘ (3D) نقشے بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
لیکن یہ برطانیہ کا فراہم کردہ میگنیٹومیٹر ہے جو کچھ انتہائی بااثر ڈیٹا فراہم کر سکتا ہے۔ امپیریل کالج لندن کا بنایا ہوا آلہ ہمیں چاند کے پوشیدہ سمندروں کی خصوصیات کے بارے میں بتائے گا۔ اور خاص طور پر ’گانیمیڈ‘ (Ganymede) کو موثر طور پر عمل کرنے کے لیے میں معلومات کافی مفصل ہونی چاہیے۔
امپیریل کے میگنیٹومیٹر کے پرنسپل انویسٹی گیٹر، پروفیسر مشیل ڈوگرٹی نے وضاحت کی کہ ’ہم سمندر کی گہرائی، اس کے نمکیات، سمندر کے اوپر کی پرت کتنی گہرائی میں ہے، اور کیا سمندر چٹانی چادر کے ساتھ رابطے میں ہے، یہ سب کچھ جان لیں گے۔‘
’لہذا ہمیں چاند کی اندرونی ساخت کی سمجھ حاصل ہو جائے گی، اور سطح کو دیکھنے والے دیگر آلات کے مشاہدات سے ہم یہ مسئلہ حل کر سکیں گے کہ آیا اس سطح پر نامیاتی مواد موجود ہے۔‘
ہم نے زمین پر موجود زندگی سے سیکھا ہے کہ زندگی کو چار ضروری اجزاء کی ضرورت ہوتی ہے: مائع پانی، کسی قسم کے غذائی اجزاء، توانائی کا ذریعہ، اور وقت – استحکام کی ایک طویل مدت جس کے دوران حیاتیات اپنے قدم جما سکتی ہے اور خود کو قائم کر سکتی ہے۔
اگر اب نہیں تو اس کے ماضی بعید میں ہم نے طویل عرصے سے زمین کے بعد مریخ کو زندگی کو قائم رکھنے کا سب سے زیادہ امکانی امیدوار سمجھا ہے۔
لیکن ماہرین فلکیات کے لیے، سائنس دان جو کائنات میں کہیں اور زندگی کے امکان کا مطالعہ کرتے ہیں، مشتری اور زحل کے برف سے ڈھکے چاند واقعی اپنے میں ہماری دلچسپی پیدا کرنے لگے ہیں۔
یہ دنیائیں سورج سے بہت دور، نظام شمسی کی سرد فضا کی بیرونی حلقے میں موجود ہوسکتی ہیں، اور وہ زندگی کے لیے ضروری چار اجزاء کو پورا کرنے کے قابل ہوسکتی ہیں، یہاں تک کہ توانائی کی فراہمی کے بھی امکانات ہوتے ہیں۔ یہ کسی ستارے کی روشنی اور گرمی نہیں ہے، بلکہ چاندوں پر مسلسل کم ہوتی ہوئی کشش ثقل اور دیوہیکل سیاروں کو اپنے سے دور دھکیلنا کے عمل ہے۔
یہ وہ لچک ہے جو پانی کو مائع کی شکل میں رکھنے کے ذرائع فراہم کرتی ہے اور یہ سمندر کے فرش پر آتش فشاں کے نظام کو بھی چلا سکتا ہے جس کا پروفیسر منڈیل نے ذکر کیا ہے اور جس کے بارے میں کچھ سائنس دانوں کے خیال میں زمین پر زندگی کی ابتدا کا سبب ہو سکتی تھی۔
یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر کے ماہر فلکیات پروفیسر لیوس ڈارٹنل کا کہنا ہے کہ ’اگر میں شرط لگانے والا آدمی ہوتا، تو میں شاید یوروپا پر اپنی رقم لگاتا جو زندہ ہے، جو آج موجود ہے۔ اس کے امکانات آج مریخ پر موجودہ زندگی تلاش کرنے کی کوششوں سے کہیں زیادہ ہیں۔‘
امریکہ اگلے سال اپنے ساتھی مشن کا آغاز کرے گا، جسے ’کلپر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ یوروپا پر توجہ مرکوز کرے گا، 50 ’فلائی بائیس‘ بنائے گا، جن میں سے کچھ 25 کلومیٹر سے بھی کم فاصلے کے ہوں گے۔
سیاروں کی منزل کے قریب سے گزرنے کے بعد عام طور پر بعد میں ایک خلائی جہاز مدار میں جاتا ہے اور پھر ایک اور مشن اترنے کی کوشش کرتا ہے۔
اس طرح مریخ پر ریسرچ میں پیش رفت ہوئی ہے، جہاں ہم ایک اضافی قدم اٹھانے والے ہیں، وہ لیبارٹری میں مطالعہ کرنے کے لیے مواد کو زمین پر واپس لانے کی کوشش کرنا ہے۔
مشتری اور زحل کے چاندوں کی تحقیقات ترتیب میں اتنی ترقی یافتہ نہیں ہیں، لیکن اس صدی کے آخر میں ایسے منصوبوں کا تصور کرنا ممکن ہے جو نظام شمسی کے ان دلکش بیرونی اجسام پر اتریں اور ان کی برفیلی تہوں کو کھود کر نیچے کے پانیوں کا نمونہ حاصل کر سکیں۔
ماہر فلکیات رائل، پروفیسر سر مارٹن ریس کہتے ہیں کہ ’اگر ہمیں زحل یا مشتری کے چاندوں پر زندگی کے شواہد ملتے ہیں تو تقریباً یقینی طور پر یہ ایک آزاد اور پہلی مرتبہ کی گئی اصل تحقیق ہو گی۔‘
’اس کے بعد یہ تحقیق ایک اہم پیغام دے گی کہ زندگی، اگر یہ تحقیق ہمارے نظام شمسی میں آزادانہ طور پر دو بار شروع ہوئی تھی، تو یہ کوئی نایاب اتفاق نہیں ہو سکتی ہے، اور یہ (زندگی) یقینی طور پر ہماری کہکشاں میں ایک ارب جگہوں پر موجود ہے، اور یہ دریافت مکمل طور پر کائنات کو دیکھنے کا تصور بدل دیتی ہے۔ پھر ہم زندگی کے راز کو سمجھنے کے لیے آسمان کی طرف دیکھتے ہیں۔‘