ظاہر ہے وہ جو سارے جہانوں کا مالک اور منصف ہے۔ رمضان المبارک کا مہینہ ہے جس میں ہمارا علما کرام کا سیزن لگتا ہے، ساتھ ہی عدلیہ کا بھی سیزن لگا ہوا ہے۔ علما اور جج توہین کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں اس لیے کوشش ہو گی کہ کسی کی توہین نہ ہو۔
گھر کی بات کی ہی نہ جائے کوئی دور دراز کی بات، کوئی تاریخ کی بات۔
علما حضرات اکثر فرماتے ہیں کہ ہمارے علاوہ دین کی بات کوئی نہ کرے، اس لیے دین کی نہیں عدلیہ کی بات کر لیتے ہیں۔
سنا ہے جب خلفائے راشدین کے زمانے میں عدلیہ کا باقاعدہ نظام قائم کرنے کی کوشش کی گئی تو شروع میں بہت مشکلات کا سامنا ہوا۔
اس زمانے کے معزز علما سے رجوع کیا گیا لیکن کوئی قاضی یعنی جج بننے کو تیار نہ تھا، جس کو پیش کش کی جاتی وہ معذرت کرلیتا، زیادہ سختی ہوئی تو لوگ گھر سے بھاگ جاتے۔
ایک انتہائی معزز عالم کی مشکیں کس کر اسے خلیفہ وقت کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس نے قاضی نہ بننے کی وجہ یہ بتائی کہ منصفی تو خدا کا کام ہے اور اگر یہاں پر میں نے یہ کام شروع کر دیا اور کوئی غلطی کر بیٹھا تو روز قیامت بڑا منصف میرے ساتھ کیا کرے گا۔
کچھ لوگ تھے جو یہ رسک لینے کو تیار تھے یا شاید اندر سے اپنے آپ میں اور اپنے خالق میں کوئی زیادہ فرق نہیں سمجھتے تھے۔ ہمارے جج بھی دھڑا دھڑ انصاف کر رہے ہیں لیکن کسی کو یہ شکایت کرتے نہیں سنا کہ پتا نہیں ہم جج بننے کے قابل بھی تھے یا نہیں۔ ہمارا حساب کون لے گا؟
میں نے کسی حاضر سروس یا ریٹائرڈ جج کو اپنے فیصلوں پر شرمندہ ہوتے نہیں دیکھا۔ ثاقب نثار کسی چار پائی پر لیٹ کر ایک ڈیم کا پہرہ دینے والے تھے۔ نہ کوئی ڈیم نظر آیا نہ کچہری۔
عدلیہ کی آزادی کے لیے سب سے بڑی تحریک جسٹس افتخار چوہدری والی تھی جس میں ہر سیاسی جماعت نے اپنا حصہ ڈالا، عدلیہ آزاد ہوگئی تو ان کے ارسلان نامی بیٹے پر الزام لگا کہ وہ ملک ریاض نامی شخص کے پیسوں پر عیاشیاں کرتا ہے، مفت کی چھٹیاں مناتا ہے۔
افتخار چوہدری نے عدالت لگوا کر پوری قوم کو بتا دیا کہ مفت کی چھٹیاں کون نہیں کرتا میرے بیٹے نے کر لیں تو کیا ہوا۔
اس طرح کے الزامات آج کل امریکی سپریم کورٹ کے جسٹس کلیرنس تھامس پر لگ رہے ہیں۔ جب میں نے 30 سال پہلے ان کا نام پہلی بار سنا تھا تب بھی ان پر اس طرح کے الزامات تھے۔
امریکی سپریم کورٹ کے جسٹس تاحیات ہوتے ہیں اور ان کی تقرری کی منظوری سینیٹ دیتا ہے۔ کلیرنس تھامس پر جو الزمات تھے وہ میں نے پہلے کبھی نہیں سنے تھے۔
ایک خاتون نے الزام عائد کیا تھا کہ کلیرنس تھامس نے انھیں جنسی طور پر ہراساں کیا ہے اور ان کے ساتھ انتہائی نازیبا زبان استعمال کی ہے۔ اس میں کوکا کولا کے کین اور موئے ناف کا بھی ذکر تھا۔ یہ کارروائی امریکی ٹی وی پر لائیو دکھائی جاتی تھی۔ میں ایک امریکی نیوز روم میں انٹرن تھا اور پورا نیوز روم اکھٹے ہو کر یہ کارروائی دیکھتا تھا۔
جو کمیٹی یہ کارروائی سن رہی تھی اس میں سارے گورے تھے۔ نیوز روم میں بھی زیادہ تر گورے ہی تھے، پہلے مجھے لگا یہ سارے گورے اکھٹے ہو کر ایک سیاہ فام کلیرنس تھامس کو سپریم کورٹ کا جج بنے سے روک رہے ہیں۔
لیکن الزام لگانے والی عورت بھی سیاہ فام نکلی، اس کا نام تھا انیتا ہل۔ اس کی متانت نے مجھے بہت متاثر کیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ اس کے الزامات درست ہیں۔
امریکی سینیٹ مردوں اور گوروں سے بھرا ہوا تھا۔ سینٹ نے 52-48 کی اکثریت سے انیتا ہل کے الزامات مسترد کر دیے اور کلیرنس تھامس کو سپریم کورٹ کا جج بنا دیا۔
اب 30 سال بعد کلیرنس تھامس پر دوبارہ اسی طرح کے الزامات ہیں جیسے افتخارچوہدری کے ارسلان نامی بیٹے پر تھے۔ تحفے، مفت کی چھٹیاں وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے بڑے جج نے اپنے بیٹے کو بری کروا دیا تھا اب کلیرنس تھامس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ بچیں گے یا نہیں۔
ہمارے ججوں کی مفت تعطیلات تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ختم نہیں ہوتیں۔ واشنگٹن کے فیصلہ سازوں کو 30 سال پہلے بھی پتا تھا کہ کلیرنس تھامس کا کردار مشکوک ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے ججوں اور ہماری عدلیہ کو کبھی ایسا مسئلہ نہیں ہوا۔
ہم نے بھٹو کو پھانسی دینے والے ججوں سے سوال نہیں کیا، جسٹس افتخار چوہدری سے کبھی کچھ نہیں پوچھا، مجھے علم نہیں کہ آج کل ہمارے بڑے منصف کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں لیکن اتنا یقین ہے کہ ہم کبھی یہ نہیں پوچھیں گے کہ اللہ کی زمین پر منصفی کر رہے تھے یا اپنے شوق پورے کر رہے تھے۔