جنوبی ایشیائی موسیقی کو پسند کرنے والے اس برس کوچیلا میوزک فیسٹیول میں شرکت کے لیے بیتاب ہیں کیونکہ وہاں پہلی بار جنوبی ایشیائی گلوکار شرکت کر رہے ہیں۔
کیلیفورنیا کے شہر انڈیو میں منعقد ہونے والا کوچیلا ویلی میوزک اینڈ آرٹس فیسٹول جو دنیا میں میوزک کا ایک بہت ایونٹ ہے ہر اپریل میں مسلسل دو ویک اینڈ پر منعقد ہوتا ہے۔
رواں برس پاکستانی گلوکار اور کمپوزر علی سیٹھی اور بھارتی گلوکار و اداکار دلجیت سنگھ دوسانجھ ان جنوبی ایشیائی فنکاروں میں شامل ہیں جو پہلی باراس فیسٹول میں پرفارم کر رہے ہیں۔
علی سیٹھی کا ’پسوڑی‘ 2022 میں گوگل پر سب سے زیادہ سرچ کیا جانے والا گانا تھا۔
دلجیت دوسانجھ کوچیلا میوزک فیسٹیول میں پرفارم کرنے والے پہلے پنجابی گلوکار ہوں گے۔ دلجیت دوسانجھ بیرون ملک مقیم پنجابیوں میں بے حد مقبول ہیں۔
گزشتہ برس روینہ اروڑا اور عروج آفتاب جیسے جنوبی ایشیائی فنکار بھی کوچیلا فیسٹول شریک تھے ، لیکن رواں برس مشہور فنکاروں کی فیسٹول میں متوقع آمد نے مداحوں میں ایک نیا جذبہ پیدا کر دیا ہے۔
بروکلین کی رہائشی گوری پیٹل کہتی ہیں: ’اگر اس تہوار میں جانے کا کوئی وقت تھا ،تو وہ اب ہے، یہ وہ سال ہے۔‘
ٹیکساس میں پرورش پانے والی گریما سنگھ نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ کوئی جنوبی ایشیائی آرٹسٹ ایک معروف امریکی میوزک فیسٹیول میں شریک ہو گا۔ وہ اس سال اپنی چھ جنوبی ایشیائی سہیلوں کے ہمراہ ’اپنے‘ دلجیت دوسانجھ کو سننے کے لیے کوچیلا فیسٹیول میں جائیں گی۔
وہ کہتی ہیں ’کس نے دوسانجھ کے گانے نہیں سنے۔ میں جنوبی ایشیائی مشہور فنکاروں کی شرکت پر خوش ہوں۔ ‘
کوچیلا فلم فیسٹیول کا تنوع اور ’براؤن کی شمولیت‘ جنوبی ایشیائی شائقین کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔
گوری پیٹل کہتی ہیں کہ ’ہمارے درجنوں دوستوں نے کوچیلا فیسٹیول میں جنوبی ایشیائی فنکاروں کی شمولیت پر بات کی ہے اور کوچیلا فیسٹیول سے ایک تعلق محسوس کیا ہے۔‘
گوری پٹیل کہتی ہیں کہ ’میوزک فیسٹیولز سفید فام لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اور ایک دوسرے سے جڑنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔‘
’ہم جنوبی ایشیائی باشندوں کے لیے اس کا یہی مطلب ہوگا۔ ہمارے پاس بھی کوچیلا پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع ہوگا۔‘
جنوبی ایشیائی گلوکار اور فلمی ستارے اکثر شمالی امریکہ کا دورہ کرتے ہیں جہاں ان کے مداحوں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے۔
رادیکا کالرا نے اس سے پہلے بھی امریکہ اور کینیڈا میں ایسے کنسرٹس میں شرکت کی ہے جہاں دلجیت دوسانجھ نےپرفارم کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ اتنے بڑے فیسٹیول میں دلجیت دوسانجھ کو سننے کا موقع ضائع نہیں کر سکتیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کے لیے اتنے بڑے سٹیج پر آنے کا صحیح وقت ہے۔
کالرہ ایک ماہر ڈانسر ہیں۔ وہ نیویارک میں اپنی نو جنوبی ایشیائی سہیلوں کے ہمراہ دلجیت دوسانجھ کے گیت ’بلیک اینڈ وائٹ‘ پر ڈانس کرنے کا سوچ رہی ہیں۔
شمالی امریکہ میں بالی وڈ اور جنوبی ایشیائی فلمی گانے سن کر پرورش پانے والے جنوبی ایشیائی باشندوں کے لیے کوچیلا میں جنوبی ایشیائیوں کی شرکت ان کی ثقافت کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
ڈینور میں رہنےوالے جوڑے دیپ سنگھ بدیشا اور ہرشویندر سنگھ بدیشا کسی صورت بھی کوچیلا فیسٹول میں شرکت کے موقع کو ضائع نہیں کر سکتے ہیں۔
دونوں نے کوچیلا فیسٹیول میں شرکت کے لیے ٹکٹ خریدے ہیں۔
جب انھوں نے کوچیلا فیسٹیول کے ٹکٹوں کی خریداری کے بارے میں ٹویٹ کی اور امید ظاہرکی کہ دلجیت ’بورن ٹو شائن، گوٹ، وائب اور پانچ تارا‘ گائیں گے، تو فنکار نے انھیں ردعمل دیا۔
تارکین وطن والدین اپنے بچوں کو اپنے ورثے کے ساتھ جڑنے اور موسیقی کو اپنانے کی حمایت کرتے ہیں۔ سرینا سنگھ خود دلجیت دوسانجھ کی بہت بڑی مداح ہیں۔ وہ اپنے شوہر سمرنجیت سنگھ بیدی کے ہمراہ کوچیلا فیسٹیول میں شرکت کرنا چاہتی تھیں لیکن وہ سات ماہ کی حاملہ ہیں۔
سرینا سنگھ کی والدہ نے ان کی پریشانی دور کر دی ہے اور وہ پینسلوینیا سے کولوراڈو آ رہی ہیں تاکہ سرینا سنگھ کی دو سالہ دو بیٹی کا خیال رکھ سکے۔ سرینا سنگھ کی والدہ چاہتی ہیں کہ ان کی بیٹی اپنے بچے کی کی پیدائش سے پہلے کوچیلا فیسٹول میں شرکت کر سکیں۔
’میری امی نے کہا کہ تمھیں جشن منانا چاہیے۔ مجھے کوچیلا جانے میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن میں دلجیت کے لیے جا رہی ہوں۔‘
گریما سنگھ کا کہنا ہے کہ انھوں نے میوزک فیسٹول میں جانے کے لیے اپنے انڈو ویسٹرن لباس کے ساتھ مہندی والے ناخن بنوائے ہیں۔
جب شائقین فیسٹول میں جانے کے لیے بناؤ سنگھار کرتے ہیں تو وہ اپنے تقافتی تعلق کو امریکہ کے فیسٹیول تک لے جاتے ہیں، جیسے، مہندی کے ٹیٹو، اور بندی جو جنوبی ایشیا سے شروع ہوئی۔
مداحوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے آپس میں بات چیت کی ہے کہ فیسٹیول میں کیسا نظر آنا ہے۔ نوجوان جنوبی ایشیائی اپنی ثقافت کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
لاس اینجلس کے علاقے کی مشہور آرٹسٹ نیہا آسر فیسٹیول میں آنے والوں پر مہندی کے پیچیدہ ڈیزائن بنانے کی ماہر ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ’’لوگ اپنے جسم کی نمائش چاہتے ہیں اور کوچیلا میں مہندی کے ڈیزائن ان کا سنگھار بن گیا ہے۔ اس کی وجہ وہ غیر روایتی نظر آنا چاہتے ہیں لیکن مہندی میرے لیے ہندوستانی ہے، بوہیمین نہیں!‘
شائقین کو امید ہے کہ اس سال کے فیسٹیول سے غیر جنوبی ایشیائی باشندوں کو کمیونٹی اور اس کی ثقافت کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی۔
پاکستانی نژاد مداح انیا احسنہ کہتی ہیں کہ ’مجھے امید ہے کہ اس کے بعد لوگ زیادہ سے زیادہ جنوبی ایشیائی موسیقی سنیں گے۔‘