فیچرز

ایک ارب ڈالر کا فراڈ کرنے والا عالمی نیٹ ورک جو عام لوگوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتا ہے

Share

بی بی سی آئی کی تحقیقات میں ایک ایسے فراڈ کرنے والے عالمی نیٹ ورک کی نشاندہی کی گئی ہے جس نے عام سرمایہ کاروں کے ایک ارب ڈالرز سے زیادہ لوٹ لیے ہیں۔ بی بی سی آئی نے کاروباری شخصیات کے ایک ایسے گروہ کا پتہ لگایا ہے جو اس فراڈ کے پیچھے ہو سکتے ہیں۔

پہلے آپ کو فون کی ایک گھنٹی سنائی دیتی ہے۔ ایک عمر رسیدہ شحض فون اٹھاتے ہیں۔ فون کرنے والا کالر اپنا نام ’ولیم گرانٹ‘ بتاتا ہے اور یہ کہ وہ ٹریڈنگ کمپنی سولو کیپیٹلز کے لیے کام کرتا ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ اس کے پاس ایک ’بہترین پروموشن‘ آفر ہے۔

بوڑھا شخص کہتا ہے کہ ’مجھے اس میں کوئی دلچسپی نہیں، مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔‘ لیکن ولیم گرانٹ بھی بضد رہتے ہوئے بوڑھے شخص سے کہتے ہیں کہ میرا صرف ایک سوال ہے۔ ’کیا آپ پیسہ کمانے میں دلچسپی نہیں رکھتے؟‘

سویڈین سے تعلق رکھنے والے 75 سالہ پینشنر جان ایرک ایک بار پھر دھوکہ کھانے کو ہیں۔ یہ کال جارجیا میں واقع کرپٹو کرنسی ٹریڈنگ فرم، سولو کیپٹلز کے دفاتر سے کی گئی تھی۔

اس ٹیی فون کال کی ریکارڈنگ کو سننا تھوڑا مشکل ہے، کیونکہ ناصرف جان ایرک کی آواز میں گڑبڑ ہے، بلکہ وہ کال کرنے والے کو بتاتے ہیں کہ وہ سرمایہ کاری کے فراڈ میں پہلے ہی 10 لاکھ سویڈش کرونا (تقریباً 80,000 پاؤنڈ؟) کھو چکے ہیں۔

لیکن کال کرنے والے کو یہ پہلے سے معلوم ہے اور وہ جانتا ہے کہ یہ بات اس پنشنر کو اس کا پیسہ واپس دلانے کے جھانسے میں استعمال کی جا سکتی ہے۔

وہ جان ایرک سے کہتا ہے کہ اگر وہ اپنے کارڈ کی تفصیلات فراہم کرتے ہیں اور 250 یوروز جمع کرواتے ہیں تو سولو کیپیٹلز ایک خصوصی سافٹ ویئیر کا استعمال کرتے ہوئے انھیں ان کا ڈوبا پیسہ واپس دلوائے گا۔

ولیم گرانٹ کہتے ہیں کہ ’ہم تمام پیسے واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔‘

جان ایرک کو شیشے میں اتارنے میں اسے کچھ وقت لگتا ہے۔ لیکن فون پر تقریباً 30 منٹ کی گفتگو کے بعد، جان ایرک اپنے کریڈٹ کارڈ کی تفصیلات بتانا شروع کر دیتے ہیں۔

اس ٹیلیفون آڈیو ریکارڈنگ کو کمپنی نے ’ولیم سویڈن فراڈ‘ کے نام سے محفوظ کیا تھا۔ بی بی سی نے یہ فائل ایک سابق ملازم سے حاصل کی۔ کمپنی نے اسے چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔

درحقیقت، کمپنی نے اسے نئے بھرتی ہونے والوں کو تربیتی پیکج کے طور پر دیا تھا۔

building

یہ فراڈ کیا تھا؟

بی بی سی آئی گذشتہ ایک سال سے ایک عالمی سطح کے تجارتی نیٹ ورک سے متعلق تحقیقات کر رہا ہے جس کی سینکڑوں مختلف ناموں سے سرمایہ کاری کی جعلی کمپنیاں ہیں اور جس نے جان ایرک جیسے دیگر کئی افراد کو ایک ارب ڈالر سے زائد سے محروم کر دیا ہے۔

ہماری تحقیقات میں پہلی بار اس دھوکے کے حجم اور ان مشکوک افراد کے نیٹ ورک کی نشاندہی کی گئی ہے جو اس فراڈ کے پیچھے ہو سکتے ہیں۔

پولیس اس نیٹ ورک کو ’ملٹن گروپ‘ کے نام سے جانتی ہے۔ یہ نام اصل میں یہ جعلساز خود اپنے لیے استعمال کرتے تھے لیکن 2020 میں اسے ترک کر دیا گیا۔

ہم نے سولو کیپٹلز سمیت 152 برانڈز کی نشاندہی کی، جو بظاہر اس نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ یہ سرمایہ کاروں کو ٹارگٹ کر کے ان کو ہزاروں یا بعض صورتوں میں لاکھوں پاؤنڈز سے محروم کر دیتا ہے۔

ملٹن گروپ کی ایک کمپنی نے اپنا اعتماد بنانے کے لیے ناصرف ملک کے بڑے بڑے اخباروں میں اشتہارات دیے بلکہ ایک بڑے ہسپانوی فٹبال کلب کو سپانسر بھی کیا تھا۔

نومبر میں، بی بی سی آئی جرمن اور جارجیا کی پولیس کے ساتھ جارجیا کے دارالحکومت تبلیسی میں کال سنٹر پر چھاپوں کے دوران موجود تھا۔ اس کال سینٹرز کے کمپیوٹرز پر ہم نے برطانوی فون نمبروں کی طویل فہرستیں دیکھی۔

ہم نے کئی لوگوں کو فون کیا اور برطانوی شہریوں سے بات کی جنھوں نے ہمیں بتایا کہ انھوں نے حال ہی میں سرمایہ کاری کی ہے۔

ایک میز پر دھوکہ بازوں کے ناموں اور مفید تفصیلات کی فہرست کے ساتھ ہاتھ سے لکھا ہوا ایک نوٹ بھی تھا کہ ’گھر کا مالک، کوئی ذمہ داری نہیں، 50 ہزار کی بچت، 50 ہزار سٹاک میں لگا ہوا، ’پولینڈ سے تعلق رکھنے والا برطانوی شہری۔‘

ایک اور برطانوی شہری کے نام کے آگے لکھا تھا ، ’بچت دس ہزار سے کم لیکن جھانسہ دینا بہت آسان اور جلد ہی اسے بھی دھوکا دیا جانا چاہیے۔‘

اس دھوکے کے متاثرین کی اکثریت نے سوشل میڈیا پر اشتہار دیکھنے کے بعد اس کمپنی کو سائن اپ کیا۔

عام طور پر 48 گھنٹوں کے اندر انھیں کسی ایسے شخص کی طرف سے فون کال موصول ہوتی جو انھیں بتاتا کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر کی جانے والی سرمایہ کاری کا 90 فیصد تک واپسی کر سکتا ہے۔

فون کے دوسرے سرے پر عام طور پر ایک کال سینٹر ہوتا جس میں جائز کاروبار کو ظاہر کرنے کے لیے بہت سی چیزوں کا استعمال کیا جاتا۔ ان کمپنیوں کا ایک سمارٹ اور جدید دفتر ہوتا جہاں ایچ آر ڈیپارٹمنٹ، ماہانہ اہداف اور بونس کا انتطام کرتا بلکہ بہترین سیلز پرسن کے مقابلوں کا انعقاد بھی کرتا۔

کچھ کال سینٹرز کے پس منظر میں تیز دھن والی موسیقی چلائی جاتی لیکن ان میں کچھ ایسے عناصر بھی ہیں جو آپ کو کسی جائز کاروبار میں نہیں ملیں گے۔ جیسا کہ کس طرح ممکنہ سرمایہ کار کی کمزوریوں کی نشاندہی کی جائے اور ان کمزوریوں کو اس کے خلاف استعمال کیا جائے۔

اپنی پہلی فون کال سے ہی وہ متاثرہ افراد کو نظام کے اندر اور نظام کے باہر والی کمپنیوں جیسا کہ آف شور کمپنوں کے ذریعے سرمایہ کاری کرنے پر راغب کرتے ہیں۔

کچھ متاثرین کو ہدایت کی جاتی کہ وہ ایک سافٹ ویئر ڈاؤن لوڈ کریں جو جعلسازوں کو ان کے کمپیوٹر کنٹرول کرنے اور ان کے لیے تجارت کرنے کی اجازت دیتا۔ اور ملٹن گروپ کی کمپنیوں کے سابق ملازمین کے مطابق، کچھ صارفین سوچتے ہیں کہ وہ حقیقی تجارت کر رہے ہیں، لیکن ان کے پیسے کو صرف چھینا جا رہا ہوتا ہے۔

ملٹن گروپ کے یوکرین کے دارالحکومت کیئو میں کام کرنے والے سابق ملازم الیکس کا کہنا ہے ’متاثرین کا خیال ہے کہ ان کا کمپنی کے ساتھ ایک حقیقی اکاؤنٹ ہے، لیکن حقیقت میں کوئی تجارت نہیں ہوتی ہے، یہ صرف ایک جعلسازی ہے۔‘

بہتر طور پر یہ سمجھنے کے لیے کہ یہ جعلسازی کیسے کی جاتی ہے بی بی سی نے ایک گاہک کا روپ دھارتے ہوئے ملٹن گروپ کے ایک تجارتی پلیٹ فارم کوئنیو سے رابطہ کیا۔

ہمارا رابطہ پیٹرک نامی مشیر سے کروایا گیا اور ہمیں بتایا گیا کہ ہم ایک دن میں 70 سے 90 فیصد تک منافع کما سکتے ہیں۔ اس مشیر نے ہمیں ٹریڈنگ کا آغاز کرنے کے لیے پانچ سو ڈالرز مالیت کے بٹ کوائن بھیجنے کا کہا۔

پیٹرک نے ہمارے خفیہ سٹاک بروکر پر پاسپورٹ کی ایک کاپی فراہم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا، اور جعلی کاپی فراہم کرنے کے بعد ہم تقریباً دو ماہ تک اکاؤنٹ کو چلانے میں کامیاب رہے۔

پھر کوائنیو کو ہمارے بارے میں علم ہو گیا اور پیٹرک نے ہم سے رابطہ منقطع کر دیا۔

لیکن بی بی سی کی جانب سے جمع کروائی گئی رقم پہلے ہی ان کے نظام میں تھی۔ ہم اسے ٹریک کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اسے چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر کے مختلف بٹ کوائن والٹس کے ذریعے استعمال کیا جا رہا تھا۔ اور یہ تمام والٹس بظاہر ملٹن گروپ سے منسلک تھے۔

ماہرین نے بی بی سی کو بتایا کہ مصدقہ اور اچھی مالیاتی کمپنیاں اس طرح سے پیسے کو ٹریڈنگ نظام سے نہیں گزارتیں۔

لوئیس ایبٹ جو کرپٹو کرنسی اور فراڈ میں مہارت رکھنے والے ایک وکیل ہیں، نے رقم کے بہاؤ کا جائزہ لیا اور کہا کہ یہ’بڑے پیمانے پر منظم جرائم‘ کا حصہ ہے۔

ایبٹ نے کہا کہ مختلف بٹ کوائن والیٹس میں رقم پھیلانے کی وجہ یہ تھی کہ ’اسے زیادہ سے زیادہ پیچیدہ اور جتنا ممکن ہو آپ کے لیے، یا شکار کے لیے، یا ہمارے لیے بطور وکیل تلاش کرنا مشکل بنانا تھا۔‘

bbc

بہترین ہدف کون لوگ بنتے ہیں؟

ٹیلیفون کے ذریعے ان ٹریڈنگ جھانسوں میں آنے والے افراد میں سے بیشتر تعداد ایسے لوگوں کی تھی جن کے سماجی و مالی حالات ناسازگار تھے۔ جس نے جتنی بچت کے بارے میں بتایا اس سے اتنی ہی سرمایہ کاری کروائی گئی۔

جو لوگ اکیلے تھے دھوکہ بازوں نے ان سے دوستی کر لی۔ حال ہی میں ریٹائر ہونے والے جین (فرضی نام) جعلسازوں کے لیے ایک بہترین ہدف تھیں۔ انھوں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی اور ان کے پاس مجموعی طور پر 20 ہزار پاؤنڈ تھے اور انھوں نے سمجھداری سے کہیں سرمایہ کاری کا سوچا تھا تاکہ آنے والے برسوں میں ان کی پینشن کے ساتھ اس سے آنے والی آمدن سے ان کے اخراجات پورے ہو سکیں۔

انھوں نے سنہ 2020 میں کورونا لاک ڈاؤن کے دوران ایک آن لائن کمپنی ایور ایف ایکس کا اشتہار دیکھا تھا۔

اس وقت ایور ایف ایکس سپین کی ایک بڑی فٹ بال کلب ٹیم سیویلا ایف سی کے مرکزی سپانسرز میں سے ایک تھی۔ کلب کے کھلاڑیوں نے سوشل میڈیا پر اس ٹریڈنگ پلیٹ فارم کی تشہیر کی تھی اور جین نے اس بارے میں جانچ کی تھی۔

جین نے ایور ایف ایکس کو ویب سائٹ کے ذریعے ایک پیغام بھیجا۔ ان کا ایسے شخص سے رابطہ کروایا گیا جس کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ ایک سینئر ٹریڈر ہے۔ اس نے جین کو بتایا کہ وہ یوکرین کے شہر اوڈیسا سے فون کر رہا تھا، اور اس کا نام ڈیوڈ ہنٹ تھا۔

جین نے کہا کہ اس کا لہجہ مشرقی یورپی لگ رہا تھا، لیکن وہ اسے زیادہ پرکھ نہیں سکیں اور اسے فوراً پسند کر لیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اسے اپنے کام کا پتا تھا، اسے تمام مارکیٹس کا پتا تھا، میں واقعی اس سے متاثر ہو گئی تھی۔‘

جلد ہی وہ دونوں روزانہ بات کرنے لگے اور جین نے چند خاص باتوں کے بارے میں اسے بتایا کہ انھیں اپنی چھت کے مرمت کے لیے پیسے درکار ہیں، اپنی پینشن کے ساتھ آمدن کا ذریعہ چاہیے۔

ڈیوڈ ہنٹ نامی شخص نے ان چیزوں کو ان کے خلاف استعمال کیا۔ اگلے چند ماہ کے دوران جین نے تقریباً 15 ہزار پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کر دی لیکن ان کے سودے فائدہ مند ثابت نہیں ہو رہے تھے۔ پھر ہنٹ نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ اپنا پیسہ نکال دیں اور ایک اور ٹریڈنگ پلیٹ فارم بپرو ایف ایکس میں لگائے جہاں سے انھیں زیادہ فائدہ ہونے کا امکان ہو سکتا ہے۔

اس وقت تک جین کو لایوڈ ہنٹ پر مکمل اعتماد تھا۔ ’مجھے لگا کے میں اسے اچھی طرح جانتی ہوں اور میں نے سوچا اسے میرے فائدہ کا خیال اور احساس ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’میں نے اس کی تجویز مانتے ہوئے اس کے بتائے پلیٹ فارم پر سرمایہ کاری پر آمادگی ظاہر کر دی۔‘

انھیں نہیں پتا تھا کہ بپرو ایف ایکس ڈومینیکا میں قائم ایک غیر منظم، آف شور ادارہ ہے۔ درحقیقت ایور ایف ایکس کی برطانوی ریگولیٹری حیثیت نے بھی اسے برطانوی شہریوں کو دھوکہ دینے سے نہیں روکا، لیکن بپرو ایف ایکس میں سرمایہ منتقل ہونے جین کے وہ مالی تحفظ کی ضمانتیں بھی ختم ہو گئیں جو انھیں برطانیہ کے قانون کے تحت فراہم کی جا سکتی تھں۔

بی بی سی کو کئی ایسے متاثرین ملے جنھوں نے اس طرح کی غیر منظم کمپنیوں میں سرمایہ منتقل کیا تھا۔

ستمبر 2020 میں جین نے 20 ہزار پاؤنڈ بپرو ایف ایکس میں لگانے پر رضامندی ظاہر کی اور ہنٹ نے اگلے چند ماہ تک ان کے مختلف سودے کیے۔ لیکن وہ ہر بار کچھ نہ کچھ خسارے میں رہیں۔

دیگر متاثرین نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے ساتھ بھی اس طرح سے دھوکہ ہوا تھا۔

لندن کے رہائشی بیری برنٹ کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایور ایف ایکس کا اشتہار دیکھ کر سرمایہ کاری شروع کر دی تھی لیکن ابتدا میں چند سودوں میں منافع کے بعد وہ اچانک سے 24 گھنٹوں میں دس ہزار پاؤنڈ سے زیادہ کھو گئے تھے۔

اس کے بعد اس کمپنی کے مشیر نے ان پر دباؤ ڈالا کہ وہ 25 ہزار پاؤنڈ مزید سرمایہ لگائیں جس سے وہ اپنی ڈوبی رقم بھی واپس کما سکتے ہیں۔

بیری کا کہنا ہے کہ ’مجھے تقریباً دو گھنٹوں کے دوران چھ کالیں آئیں اور لوگ مزید پیسہ لگانے کے لیے میری منتیں کر رہے تھے۔‘

جین کو ڈیوڈ ہنٹ کے اسی طرح کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ انھوں نے کہا کہ ’وہ مجھے بتاتا رہا کہ میں جتنا زیادہ سرمایہ لگاؤں گی، میں کما سکتی ہوں۔‘

مزید سرمایہ لگانے کی بجائے آخر کار دونوں نے اس ٹریڈنگ پلیٹ فارم کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ بیری کا 12,000 پاؤنڈ اور جین کا 27,000 پاؤنڈ کا نقصان ہوا۔

بیری کا کہنا ہے کہ ’میں سن اور پریشان تھا۔‘

دونوں نے اپنے نقصانات کا پیچھا کرتے ہوئے درجنوں فون کالز کیں، لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ ڈیوڈ ہنٹ نے جین کی فون کالز کا جواب دینا بند کر دیا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ سب کچھ کھو چکی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’جس دن مجھے احساس ہوا وہ میری سالگرہ تھی۔ یہ وبا کا دور تھا اور میرے خاندان نے ایک چھوٹی سے تقریب رکھی تھی اور میرے لیے ایک کیک لایا گیا تھا۔ اور میں خوش رہنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن مجھے بہت برا لگا رہا تھا، اتنا برا کہ میں زندہ نہیں رہنا چاہتی تھی۔‘

یہ بتانے میں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا جین کو مہینوں ہمت اکٹھا کرنا پڑی۔

فراڈ

کڑیاں ملانے میں کتنا وقت لگا؟

ملٹن گروپ کی کارروائیوں کی تحقیقات اس سے قبل سویڈش اخبار ڈیگنز نیہیٹر اور دیگر کے ذریعے کی جا چکی ہیں، لیکن بی بی سی نے عالمی فراڈ کے پیچھے موجود سینئر شخصیات کی نشاندہی کرنے کا فیصلہ کیا۔

ہم نے ملٹن گروپ میں کمپنیوں کے درمیان رابطوں کا نقشہ بنانے کے لیے عوامی طور پر دستیاب کارپوریٹ دستاویزات کو یکجا کر کے تحقیقات کا آغاز کیا۔

پانچ نام بار بار سامنے آئے، جو ملٹن ٹریڈنگ پلیٹ فارمز یا معاون ٹیک کمپنیوں کے ڈائریکٹرز کے طور پر درج ہیں، ان میں ڈیوڈ ٹودوا، رتی شیلیڈزے، گورم گوگیشویلی، جوزف میگیلڈزے، اور مائیکل بینیمینی شامل ہیں۔

ہم نے ان پانچ ناموں کو پاناما پیپرز میں تلاش کیا۔ پانامہ پیپرز میں سنہ 2016 میں بڑے پیمانے پر آف شور کمپنیوں کی تفصیلات لیک ہوئیں تھیں اور پتہ چلا کہ ان میں سے چار افراد رتی شیلیڈزے، گورم گوگیشویلی، جوزف میگیلڈزے، اور مائیکل بینیمینی آف شور کمپنیوں یا ذیلی کمپنیوں کے ایک گروپ میں ڈائریکٹرز یا سینئر شخصیات کے طور پر درج تھے۔ جو ملٹن گروپ سے پہلے کا تھا۔

ان میں سے بہت سی غیر ملٹن کمپنیوں کی تفصیلات نے کسی نہ کسی طریقے سے ایک شخصیت کی طرف نشاندہی کی۔ ڈیوڈ کیزراشویلی، جو جورجیا کے ایک سابق سرکاری اہلکار ہیں اور جو دو سال تک ملک کے وزیر دفاع کے طور پر کام کرتے رہے۔

کیزراشویلی کو وزیر دفاع کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا اور بعد میں انھیں پانچ ملین یورو سے زیادہ کے سرکاری فنڈز میں غبن کے الزام میں غیر حاضری میں سزا سنائی گئی تھی۔ سزا سنائے جانے کے وقت تک وہ لندن میں رہ رہے تھے اور برطانیہ نے جارجیا کی جانب سے ان کی حوالگی کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔

کیزراشویلی کو ملٹن نیٹ ورک سے جوڑنے والی کوئی دستاویز عوامی طور پر دستیاب نہیں تھی، لیکن جب ہم نے پاناما پیپرز کو دیکھا، تو اس کا نام بار بار سامنے آیا، جس سے اس کی شناخت یا تو اس نیٹ ورک میں بنیادی کمپنیوں کے بانی کے طور پر ہوئی یا ان میں سے ایک کے طور پر۔ ابتدائی شیئر ہولڈرز کے طور پر تو کہیں پردے کے پیچھے، کیزراشویلی اس نیٹ ورک کے مرکز میں دکھائی دیتے تھے۔

اگر ملٹن گروپ کی بات کی جائے تو اسی طرح کیزراشویلی کو ان جعلساز یا فراڈ کمپنیوں سے جوڑنے والی کوئی دستاویز عوامی طور پر دستیاب نہیں تھی، اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں تھا کہ ملٹن برانڈز میں اس کا کوئی براہ راست مالی مفاد تھا۔

لیکن ملٹن سے منسلک کمپنیوں کے کئی سابق ملازمین نے ہمیں رازداری سے بتایا کہ ان کا کیزراشویلی کے ساتھ براہ راست تعلق رہا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ وہ ملٹن گروپ میں شامل ہیں۔

کیزراشویلی اکثر اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ان جعلی ٹریڈنگ ایپس کی مشہوری کرتے ہیں۔ بزنس نیٹ ورکنگ سائٹ لنکڈ ان پر انھوں نے اپنے اکاؤنٹ کو خصوصی طور پر ملازمتوں کو فروغ دینے اور ملٹن سے منسلک کمپنیوں کے بارے میں پوسٹس شیئر کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔

بی بی سی سابق وزیر دفاع کیزراشویلی اور ملٹن برانڈز کے درمیان تعلق ثابت کرنے والے کئی دیگر شواہد تلاش کرنے میں کامیاب رہا۔

کیزراشویلی کی ملکیتی کئی کمپنیوں نے ایک نجی ای میل سرور استعمال کیا جس پر صرف دوسرے صارفین صرف ملٹن گروپ کی کمپنیاں تھیں۔ ان کی وینچر کیپیٹل فرم، انفنیٹی وی سی ان کمپنیوں کے لیے برانڈنگ اور ویب ڈومینز کی ملکیت رکھتی تھی جو دھوکہ بازوں کو تجارتی پلیٹ فارم ٹیکنالوجی فراہم کرتی تھیں۔

کیزراشویلی کیئو میں ایک دفتر بھی رکھتا تھا جو فراڈ ٹریڈنگ کمپنی ایور ایف ایکس کے کال سینٹر اور ان جعلی کمپنیوں کے سافٹ ویئر فراہم کرنے والی کپمنی کے دفتر کے طور پر بھی استعمال ہوتا۔

پولیس نے نومبر میں ان دفاتر پر چھاپہ مارا تھا۔ بہ تیبلسی میں بھی دفتر کی ملکیت رکھتے ہیں جہاں ایسی ہی دیگر ٹیک کپمنیاں قائم تھیں۔

جب بی بی سی نے ملٹن گروپ کے چار سینئر افراد سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا پروفائلز کا جائزہ لیا تو شادی کی پارٹیوں اور دیگر سماجی تقریبات کی پوسٹ کی گئی تصاویر سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ان سب کے کیزراشویلی سے قریبی سماجی تعلقات تھے۔

کیزراشویلی کم از کم 45 ایسے افراد کے ساتھ فیس بک کے دوست ہیں جو ملٹن گروپ کے غبن میں ملوث ہیں، اور بی بی سی کی جانب سے جن چار سینئر شخصیات کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں سے ایک ان کا کزن ہے۔

stats

بی بی سی جارجیا کے سابق وزیر دفاع ڈیوڈ کیزراشویلی کا پیچھا کرتے ہوئے لندن میں ان کی رہائش گاہ تک پہنچا جس کی مالیت اٹھارہ ملین پاونڈ ہے۔ ہم نے ان سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن ہمیں بتایا گیا کہ وہ دستیاب نہیں ہیں۔

انھوں نے اپنے وکلا کے ذریعے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ملٹن گروپ کے ساتھ کسی قسم کے روابط سے انکار کرتے ہیں اور اس بات سے بھی انکار کرتے ہیں کہ انھوں نے کسی آن لائن دھوکے سے مالی فائدہ اٹھایا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کے علم کے مطابق ایور ایف ایکس ایک قانونی کاروبار ہے اور ان کے وکلا کا کہنا تھا کہ بی بی سی نے جن لوگوں کا حوالہ دیا وہ کچھ بھی ثابت نہیں کرتا۔

رتی شیلیڈزے اور گورم گوگیشویلی نے بھی الزامات کی تردید کی اور کہا کہ ایور ایف ایکس ایک قانونی پلیٹ فارم ہے، انھوں نے ملٹن گروپ سے مکمل لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے ایور ایف ایکس اور بی بی سی کے شناخت کردہ برانڈز کے درمیان کسی قسم کے رابطے سے بھی انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ ان برانڈز نے ایور ایف ایکس کے سورس کوڈ کا غلط استعمال کیا ہو اور صارفین کو دھوکہ دیا ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ ایور ایف ایکس نے کبھی کرپٹو والٹ نہیں رکھا اور ناہی ان کے پاس کسی تیسری پارٹی کی ادائیگی کرنے والے پراسیسرز پر کنٹرول تھا۔

جوزف میگیلڈزے نے ہمیں بتایا کہ ان کی ملکیت میں کبھی ایسے کال سینٹر نہیں رہے جنھوں نے دھوکے بازی سے سرمایہ کاری کا کام کیا ہو۔ ان کا کہنا ہے وہ ملٹن گروپ کے بارے میں نہیں جانتے۔

مائیکل بینیمینی نے ہمارے سوالات کا جواب نہیں دیا۔

ایور ایف ایکس نے بی بی سی کے الزامات کی تردید کی ہے اور کہا کہ وہ ایک قانونی پلیٹ فارم ہیں جو خطرات کو مکمل طور پر واضح کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے بیری برنیٹ کے کیس کی چھان بین کی اور ان کے مطابق وہ اپنے نقصان کے خود ذمہ دار ہیں۔

جین کے کیس میں ان کا کہنا تھا کہ ان کے نقصانات کی وجہ ان کی جانب سے ایک ایسی کمپنی منقل ہونا تھا جو ان سے جڑی ہوئی نہیں تھی۔

ان کے مطابق انھوں نے ایف سی اے سے ہر ممکن تعاون کیا اور اب ان کے خلاف برطانوی ریگولیٹری نظام میں کوئی شکایات باقی نہیں ہیں۔

دوسری جانب ایف سی اے کا کہنا ہے کہ ایور ایف ایکس پر 2021 میں ایسے ہی ملتے جلتے برانڈز کے ساتھ پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

سویلا ایف سی نے بی بی سی کو بتایا کہ جب ان کا ایور ایف ایکس سے معاہدہ ختم ہوا اس کے بعد سے ان کا کوئی رابطہ نہیں۔

گذشتہ سال برطانیہ میں صرف فراڈ کی مد میں چار ارب پاؤنڈ کا جرم ہوا جبکہ آن لائن سرمایہ کاری سے جڑے فراڈ سالانہ لاکھوں پاؤنڈ تک کے ہوتے ہیں۔

اس کے باوجود برطانوی پولیس پر تنقید ہوتی رہی ہے کہ وہ فراڈ کرنے والوں کے خلاف کارروائی میں سستی دکھاتی ہے۔

جین نے اپنے ریٹائرمنٹ فنڈ واپس حاصل کرنے کے لیے ملک میں اور بیرون ملک بہت سے دروازے کھٹکھٹائے۔ برطانیہ کی سٹی آف لندن پولیس نے ان کی رپورٹ لکھی لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

ان کا بینک بھی چند خطوط لکھنے کے علاوہ ان کی کوئی مدد نہیں کر سکا۔

وہ افسوس سے کہتی ہیں ’اور وہ کیوں کریں گے؟‘

اس لیے انھوں نے وہ کیا جو ان کی سمجھ میں آیا۔ انھوں نے آن لائن ویب سائٹس پر ان ٹریڈنگ برانڈز کے خلاف لکھنا شروع کر دیا جنھوں نے ان کو دھوکہ دیا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں سب کو خبردار کرنا چاہتی تھی اور میں نے اس کام پر بہت محنت کی ہے۔ مجھے امید ہے کوئی تو اسے دیکھے گا۔‘