پاکستان

معروف کاروباری شخصیت ایاز مہر کی مبینہ جبری گمشدگی کی تحقیقات میں ’کوئی پیشرفت نہیں‘

Share

سندھ کی معروف کاروباری شخصیت ایاز مہر کو لاپتہ ہوئے ایک ہفتہ گزر چکا ہے مگر پولیس کے مطابق مبینہ جبری گمشدگی کے اس مقدمے میں تاحال کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی ہے۔

ان کے چھوٹے بھائی نوید مہر کا کہنا ہے کہ ایاز صوبائی دارالحکومت کراچی کے علاقے گزری سے گھر کی طرف آ رہے تھے جب ’گزری بازار میں دوپہر گیارے بجے کے قریب ایک سفید فارچونر، سرف اور ڈبل کیبن گاڑیوں میں سوار نامعلوم لوگوں نے انھیں روکا۔

’ایاز اور ڈرائیور کو الگ الگ گاڑی میں بٹھایا اور (نامعلوم افراد) روانہ ہوگئے۔۔۔ ان کا کوئی پتہ نہیں۔‘

نوید مہر کا کہنا ہے کہ ان کے بھائی ایک روز قبل ہی سکھر سے کراچی پہنچے تھے، وہ اپنے بڑے بھائی کے گھر جا رہے تھے جہاں ان کا بیٹا منتظر تھا جس کو عمرے کے لیے روانہ ہونا تھا۔ ’لیکن راستے سے ہی انھیں اٹھا لیا گیا اور یہ منظر کئی لوگوں نے دیکھا۔‘

ڈیفینس تھانے میں 48 سالہ ایاز مہر کے بھائی جاوید مہر کی مدعیت میں اغوا کا مقدمہ درج کیا گیا جس میں بتایا گیا ہے کہ ایاز آئل اینڈ گیس کے شعبے میں بزنس مین ہیں۔ اس کے مطابق ایاز کی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں اور ان کو ’نامعلوم افراد دس اپریل کی صبح گیارہ بجے گزری سے اغوا کر کے لے گئے۔‘

ایاز مہر کے فون کی سی ڈی آر کے مطابق ان کے فون کے کوارڈینینٹس ماڑی پور لیاری ایکسپریس سے لے کر ملیر تک پائے جاتے ہیں جس کے بعد سے موبائل فون بند ہے۔

ایس ایس پی ضلعہ جنوبی اسد رضا کا کہنا ہے کہ ابھی تک تحقیقات میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔

ایاز مہر کون ہے؟

ایاز مہر کا تعلق شمالی سندھ کے ضلع شکارپور کے علاقے چک کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے ہے جس کے تمام ہی افراد زمینداری کے ساتھ نجی کاروبار یا سرکاری ملازمتوں پر اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں۔

ان کے والد نے ایل ایل بی کیا جس کے بعد سے اس خاندان میں تعلیم کے رجحان میں اضافہ ہوا۔

ایاز مہر نے مہران یونیورسٹی سے سول شعبے میں بی ای کیا۔ اس کے بعد وہ دبئی چلے گئے جہاں وہ گاڑیوں کے کاروبار سے منسلک رہے تاہم 2003، 2004 میں مالی بحران کی وجہ سے وطن لوٹ آئے اور یہاں انھوں نے گھوٹکی کے قریب ایک آئل کمپنی میں سول انجینیئرنگ کے شعبے میں ملازمت اختیار کی۔

یہ ملازمت ان کیریئر میں ٹرننگ پوائنٹ بنی۔ چند برسوں کے بعد انھوں نے یہ ملازمت چھوڑ کر سول شعبے میں اپنی کمپنی بنا لی۔

ایاز مہر کے چھوٹے بھائی نوید مہر کے مطابق کسی مقامی سندھی کی یہ پہلی کمپنی تھی جو اعلیٰ پروفیشنل لوگوں اور جدید مشنری کے ساتھ پیٹرولیم اور گیس کے شعبے میں آئی اور وہ پیٹرولیم اور تیل تلاش کرنے والی کمپنیوں کے لیے انفراسٹریکچر بناتے تھے۔ ’انھیں اس شعبے میں موجود کئی شخصیات کی مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔‘

وقت کے ساتھ ایاز مہر کی کمپنی کا دائرہ کار سندھ کے اضلاع قمبر شہداکوٹ، خیرپور سے نکل کر ڈیرہ مراد جمالی، جھل مگسی اور کرم ایجنسی تک پھیل گیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے گھوٹکی کے بارڈر پر گابر کے مقام پر کینٹونمنٹ کی بھی تعمیر کی جس کے بعد وہ فوج کے سول ورکس میں بھی شامل ہوگئے۔

اطلاعات کے مطابق ان کا شمار ان کاروباری شخصیات میں کیا جاتا ہے جو سب سے زیادہ انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

شکاپور کے دیہی علاقے مہر اور جتوئی سرداروں کے زیر اثر ہیں اور یہی خاندان یہاں سے کئی دہایوں سے اسمبلیوں تک پہنچتے رہے ہیں۔ تاہم ایاز مہر کے خاندان نے سرداروں سے سیاسی اور سماجی راہیں الگ کیں۔

ایاز مہر نے 2018 میں سینیٹ کا انتخاب لڑا۔ انھیں سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے ٹیکنوکریٹ کی نشست سے ٹکٹ دیا تھا لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔

اس انتخابات سے قبل سیاسی میدان میں ان کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ ان کی سیاسی انٹری پر کئی چہ مگوئیاں ہوئیں حالانکہ اس سے قبل ان کا بھائی نوید مہر نے 2015 کی بلدیاتی انتخابات میں آزاد حیثیت سے ٹاؤن کمیٹی چک کے چیئرمین کا انتخاب لڑا اور حالیہ بلدیاتی انتخاب میں انھوں نے چک ٹاؤن کے چیئرمین اور دو یوسیز پر کامیابی حاصل کی۔

نوید مہر کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ان کے خاندان کا تعلق نیا نہیں ہے۔ جنرل ضیاالحق کے مارشل لا میں ان کے والد دو مرتبہ سکھر سینٹرل جیل میں قید رہے، 1987 میں والد کی وفات ہوئی۔ اس وقت وہ چھوٹے تھے، اب جب بڑے اور سیٹلڈ ہوئے تو دوبارہ سیاست میں سرگرم ہوگئے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ بعض مقامی سیاستدانوں نے بیانیہ بنایا کہ ’ہم پیپلز پارٹی میں کسی کی وجہ سے آئے حالانکہ ریکارڈ گواہ ہے کہ جنرل مشرف کے دور حکومت میں بھی ہمارے کزن کو پیپلز پارٹی نے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا تھا۔‘

کیا جنرل فیض سے کوئی تعلق تھا؟

ایاز مہر کو جب گابر چھاؤنی کا کنٹریکٹ ملا تو اس وقت جنرل فیض حمید جی او سی پنو عاقل تھے۔ اس وقت دونوں کے دوستانہ تعلق تھے۔ سکھر ایئرپورٹ کے قریب ایاز مہر کی کمپنی کا دفتر تھا جہاں وہ آتے جاتے رہتے۔

نوید مہر کہتے ہیں ان کی کمپنی کو گابر چھاؤنی کی تعمیر کا کنٹریکٹ مروجہ قوانین کے مطابق ملا، اس مشکل ریگستانی علاقے میں عرصہ دراز سے مشکل ترین حالات کی وجہ سے یہ تعمیر نہیں ہو پارہی تھی۔

ان کے مطابق گابر چھاؤنی کے افتتاح کے موقع پر آرمی چیف (راحیل شریف) کے احکامات تھے کہ سارے آفیسرز کو دعوت دے کر بلایا جائے اور ان کو یہ اعلیٰ کوالٹی کنسٹرکشن دکھائی جائے تاکہ اپنے علاقوں میں تعمیر کی کوالٹی اسی طرح رکھیں۔

اس عرصے میں ایاز مہر کی فوجی افسران بشمول اس وقت کے جی او سی پنو عاقل (جنرل فیض) سے قربت ہوئی۔

نوید مہر کہتے ہیں کہ جنرل فیض کے تبادلے کے بعد مقامی سیاستدانوں نے ’گمراہ کن بیانیہ بنایا کہ پنو عاقل کے جی او سی کے ساتھ ایاز مہر کی بزنس پارٹنر شپ ہے۔‘ تاہم وہ اس کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔

خیال رہے کہ گذشتہ سال کے اواخر میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے کور کمانڈر بہاولپور کے عہدے سے استعفیٰ دے کر قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔

ایاز مہر کی بازیابی کے لیے شکارپور میں احتجاجی دھرنے بھی دیے گئے جبکہ سوشل میڈیا پر بھی اس کی مذمت کی جا رہی ہے۔

ایاز مہر کے بھائی اور اغوا کے مقدمے کے مدعی جاوید مہر نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ انجینیئر ایاز مہر اس ملک کا شہری ہے جس کے آئین میں دیےگئے فرسٹ کلاس حقوق ہیں۔ ’وہ کسی سوال یا الزام کا جواب اسی ملک میں رہ کر دے گا نہ کہ وی لاگرز کی طرح ملک سے باہر رہ کر۔ ہمارے ادارے اور ہم سب اس مٹی کے وارث ہیں۔‘

ادھر سینیٹر مشتاق احمد نے کہا ہے کہ ایک ارب سے زائد ٹیکس دینے والے 10 بڑے ٹیکس دہندگان میں سے 1، ایاز مہر، کا دن دہاڑے اغوا بدترین انتظامی نااہلی۔سندھ میں اغوا برائےتاوان 1 نفع بخش کاروبار۔ یہ سندھ حکومت کی سہولتکاری سےہو رہا ہے۔

’ملک کے مختلف علاقوں سےدھوکا دہی سے سندھ بلا کر اغوا کیا جاتا ہے۔سندھ جرائم کی آماجگاہ، اغواکاروں/ڈاکوؤں کا راج۔‘