مجھے اِس اعزازِ بلند کی خبر خود جنرل قمر جاوید باجوہ نے دی تھی کہ ستّر کی دہائی میں وہ راولپنڈی کے سرسیّد اسکول میں میرے شاگرد رہے ہیں۔ راول لائونج میں ہونے والی اِس اتفاقیہ ملاقات میں میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ بھی موجود تھے۔ یہ 2014کا ذِکر ہے جب لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ راولپنڈی کی ٹین کور کے کمانڈر تھے اور اب کوئی تین سال بعد، 29 اپریل 2017کی اُس سوختہ بخت شام، آرمی ہائوس کے ڈرائنگ روم میں اُستاد ایک صوفے پر سُکڑا سِمٹا بیٹھا تھا اور کمرہ شاگرد کی اُستادانہ گھن گرج سے گونج رہا تھا۔
’’سَر میری پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا گیا ہے۔ مجھے دھوکہ دیا گیا ہے۔ مجھے سخت صدمہ پہنچا ہے۔ مجھے شدید مشکل میں ڈال دیا گیا ہے۔ اَب میں کس طرح سامنا کروں اپنے لوگوں کا؟ جب سب کچھ طے پاگیا تھا تو پھر ایسا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اِس نوٹیفکیشن سے فوجی قیادت میں سخت بے چینی پھیل گئی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ میرے آنے سے پہلے معاملات کتنے خراب تھے۔ میں نے سول ملٹری تعلقات بہتر بنانے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا؟ لیکن سَر فوج ایک بہت ڈسپلنڈ ادارہ ہے۔ اِس ادارے کی ایک سوچ ہے۔ اپنے ادارے کی عزت کا تحفظ میری ذمّہ داری ہے۔ اگر مجھے اِس طرح ’چِیٹ‘ کیا جائے گا تو میں اپنے لوگوں کو کیسے مطمئن کروں گا؟ فوج کی پوری لیڈرشپ جانتی ہے کہ کیا طے پایا تھا اور حکومت نے کس طرح اُس کے برعکس اعلان جاری کردیا ہے۔ اِس کا ردّعمل توآنا ہی تھا۔ سَر اِس طرح نہیں چل سکتے یہ معاملات…‘‘
مجھے اندازہ نہ تھا کہ ’’دستاویز ِشکست‘‘ پر دستخط کر دینے کے بعد، ایک نپا تلا سرکاری بیان اوجڑی کیمپ کا بارُود خانہ بنادیا گیا ہے۔ جنرل اعجاز امجد جانے کہاں رہ گئے تھے اور میں آتش زیرپا جرنیل کی بارُودپاشی کے سامنے چاند ماری کا ٹیلہ بنا بیٹھا تھا۔
خاصی دیر بعد جنرل باجوہ نے چائے کی پیالی اٹھائی تو گولہ باری میں لمحہ بھر وقفے کو غنیمت جان کر میں نے بڑی ملائمت سے کہا ’’اب میں بول سکتا ہوں یا آپ نے مزید کچھ کہنا ہے؟
جنرل باجوہ بولے…’’جی جی سَر ضرور۔ بس میں نے کھل کر ساری باتیں کہہ دی ہیں۔ آپ سے میرا احترام کا رشتہ ہے۔ آپ کی جگہ کوئی اور حکومتی وزیر مشیر ملنا چاہتا تو کم ازکم آج ہر گز نہ ملتا۔‘‘ میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ’’کیا آپ بتائیں گے کہ انکوائری کمیٹی کی کون سی سفارش پر عمل نہیں ہوا؟ جنرل باجوہ کہنے لگے ’’دیکھیں سَر ! انکوائری کمیٹی کی سفارش تھی کہ پرویز رشید کو فارغ کئے جانے کی توثیق کی جائیگی۔ اِس اعلامیے میں کوئی ذکر نہیں۔ کمیٹی نے فاطمی کے بارے میں کہا ہے کہ اُسے Remove کیا جائے، اعلامیے میںDenotify کا لفظ استعمال کیا گیا ہے پھر نوٹی فکیشن کو کیوں میڈیا پر اچھالا گیا… ‘‘
مجھے یہ باور کرانے میں خاصا وقت لگا کہ حکومتی اعلامیے کے مطابق وزیراعظم نے انکوائری رپورٹ کے پیراگراف اٹھارہ کی منظوری دے دی ہے جس میں چار سفارشات کی گئی تھیں۔
1۔پرویز رشید کو وزارت سے ہٹا دیا جائے۔
2۔ طارق فاطمی کو منصب سے فارغ کر دیا جائے۔
3۔ ظفر عباس، سرل المیڈا اور ڈان کا معاملہ اے۔پی۔این۔ایس کے حوالے کردیا جائے۔
4۔ راؤ تحسین کیخلاف انضباطی کارروائی کی جائے۔
آپ بتائیے اِن میں سے کون سی سفارش نہیں مانی گئی ؟ ممکن ہے زبان وبیان کا کوئی چھوٹا موٹا مسئلہ ہو یا کوئی تکنیکی موشگافی، لیکن کیا یہ کوئی ایسا فوج مخالف باغیانہ بیانیہ تھا کہ آپ نے آئو دیکھا نہ تائو اور ’Rejected‘ کا میزائل داغ دیا؟ میں نے جنرل صاحب کے اشکالات کی گرہ کشائی کی۔ کچھ ہی دیر بعد مکالمہ ہموار راستے پر آگیا ۔ میں ایک ہاتھ میں کتاب اور دوسرے میں چاک کی ڈلی پکڑ کر اُستاد کے روپ میں آگیا اور بولا ’’دیکھیں جنرل صاحب ! آپ ٹھیک کہتے ہیں کہ وزیراعظم کو آپ کی مشکلات کا احساس ہونا چاہئے لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا کہ کچھ مشکلات اور مجبوریاں وزیراعظم کی بھی ہوسکتی ہیں؟ آپ نے کبھی اِس زاویے سے دیکھا کہ وزیراعظم کے سیاسی رفقا اُس کے کور کمانڈر ہیں؟ آپ کو کچھ لوگوں سے شکایت پیدا ہوئی۔ آپ نے اُنہیں فارغ کرا دیا۔ وزیراعظم کو بھی تو کچھ لوگوں سے شکایات ہیں۔ تحفظات ہیں۔ کیا آپ وزیراعظم کے کہنے پر وہ کچھ کریں گے جو آپ کے کہنے پر اُس نے کیا ؟ کیا آپ ’’ریجیکٹڈ‘‘ کا توہین آمیز ٹویٹ کرنے والے جرنیل کو نکالیں گے؟ ‘‘
رات گزری جارہی تھی۔ کھانا لگنے کا اعلان ہوا۔ اچانک جنرل اعجاز داخل ہوئے۔ بولے ’’میں نے سوچا آپ دونوں کو ایک دوسرے سے کھل کر بات کرنے کا موقع دیا جائے۔‘‘
کھانے کے دوران میں نے واضح طور پر محسوس کیا کہ جنرل باجوہ جارحانہ پیش قدمی کے بجائے اب دفاعی مورچے کی طرف منتقل ہوگئے ہیں۔ اُنہیں یہ اندازہ بھی ہوگیا تھا کہ سرکاری نوٹی فکیشن میں اگر کوئی ’رائی‘ تھی بھی تو اُسے پہاڑ نہیں بنالینا چاہئے تھا۔ عین اُس وقت جنرل اعجاز بولے’’قمر تمہیں خود میاں صاحب سے بات کرنی چاہئے۔ جتنا زیادہ وقت گزرے گا، اتنا ہی معاملہ بگڑتا چلا جائے گا۔ جس طرح تم لوگوں کو غصہ آیا، اُسی طرح نوازشریف کو بھی غصہ آسکتا ہے۔ میں اُسے تم سے کہیں زیادہ بہتر جانتا ہوں۔‘‘
اچانک جنرل باجوہ بولے’’سَر ممکن ہے پرائم منسٹر ہمارے فارمل چینل سے ٹیلی فون کال نہ لیں۔ اگراُن سے بات ہوسکتی ہو تو کرادیں۔‘‘ میں نے راہداری میں جاکر رائیونڈ ایکسچینج کانمبر ملایا۔ کال تو مل گئی لیکن دوسری طرف وزیراعظم نہیں، مریم نواز بول رہی تھیں۔ میں نے مختصراً بتایا کہ اِس وقت آرمی ہائوس میں ہوں۔ جنرل باجوہ وزیراعظم سے بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ مریم بولیں ’’ہولڈ کریں انکل …‘‘چند لمحوں بعد کہنے لگیں ’’ انکل ابو اوکاڑہ گئے تھے۔ تھکے ہوئے ہیں اور سونے کو ہیں۔ ‘‘ مجھے وزیراعظم نوازشریف سے کوئی توقع نہ تھی کہ وہ ’Rejected‘ کا زہر میں بجھا تیر خاموشی سے کھالیں گے ۔
تین گھنٹوں سے زائد محیط مذاکرات کے باوجود جب میں آرمی ہائوس سے اسلام آباد کے لئے نکلا تو دِل وسوسوں سے چھلک رہا تھا تاہم میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ’’ڈان لیکس‘‘ کی پیالی میں کیسے کیسے طوفان انگڑائی لے رہے ہیں اور کیسے کیسے تلاطم بپا ہونے کو ہیں؟ (جاری ہے)