دنیابھرسے

ایرانی میزائل حملوں کا قبل از وقت پتہ چل گیا تھا، امریکا کا دعویٰ

Share

امریکی وائٹ ہاؤس اور دفاعی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں حملے سے پہلے ہی پتہ چل گیا کہ ایرانی میزائل عراق میں امریکی تنصیبات کو نشانہ بنائیں گے۔

واشنگٹن پوسٹ میں شائع رپورٹ میں آفیشلز نے دعویٰ کیا کہ انہیں خفیہ ذرائع کے ساتھ ساتھ عراق میں مواصلاتی نظام سے اس حملے کی وارننگ مل گئی تھی۔

ایک سینئر انتظامی آفیشل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہم جانتے تھے اور عراق نے ہمیں حملوں سے کئی گھنٹوں قبل ہی اس حوالے سے خبردار کردیا تھا، ہمیں کئی گھنٹوں قبل ہی خفیہ اطلاعات موصول ہو گئی تھیں کہ ایرانی ہمارے اڈوں کو نشانہ بنانے کی تیاری کر رہے ہیں۔

دوسری جانب ایک اور سینئر دفاعی آفیشل نے معلومات کی فراہمی میں عراق کے کردار کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر عراقیوں نے معلومات فراہم کی تھیں تو یہ کئی گھنٹے قبل ممکن نہیں تھا۔

اخبار کے مطابق امریکی سیکریٹری دفاع مارک ایسپر نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی سمیت محکمے کے اہم حکومتی آفیشلز کا اجلاس طلب کیا تھا اور حملے کی اطلاع موصول ہونے پر انہوں نے اجلاس منسوخ کردیا تھا۔

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق قبل از وقت وارننگ ملنے کی بدولت فوجی کمانڈرز کو اپنی فوج کو محفوظ مقام پر منتقل اور حفاظتی سامان لیس کرنے کا مناسب وقت مل گیا اور حملے کے کئی گھنٹوں بعد تک امریکی فوجی اپنے محفوظ ٹھکانوں میں رہے۔

ایک آفیشل نے کہا کہ حملے سے قبل کچھ دستے مغربی عراق میں واقع الاسد فوجی اڈے سے نکل گئے تھے۔

ایک اور سینئر دفاعی آفیشل نے کہا کہ یہ محض خوش قسمتی نہیں کہ کوئی حملے میں ہلاک نہیں ہوا، قسمت کا ہمیشہ اہم کردار ہوتا ہے لیکن فوجی محاذ پر موجود کمانڈرز نے حملے کا اندازہ لگاتے ہوئے بہترین فیصلہ کیا۔

حملے کے بعد اپنے ٹیلی ویژن خطاب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی قبل از وقت ملنے والی وارننگ کو ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی بدولت کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔

ایک دفاعی آفیشل کے مطابق امریکی صدر ریڈار نیٹ ورک کی جانب اشارہ کر رہے تھے جو امریکی فوج نے دشمنوں کے میزائلوں کی نشاندہی کے لیے نصب کیا ہے۔

رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ ان اطلاعات کی روشی میں کم از کم دو خفیہ ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کی بدولت امریکا کو اپنی منصوبہ بندی کے لیے معقول وقت مل گیا۔

حملے سے قبل سب سے پہلے یہ عندیہ ملا کہ عراق میں موجود امریکی فوج پر ایران حملے کی تیاری کر رہا ہے البتہ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ یہ اطلاع کہاں سے موصول ہوئی۔

ایک اور حکومتی آفیشل نے بتایا کہ امریکی فوج کو حکومت کے اندرونی ذرائع سے حملے کے ‘واضح اشارے’ مل چکے تھے جبکہ ایک سینئر آفیشل نے کہا کہ پنٹاگون کو ایران کے جوابی حملے کی پوری توقع تھی۔

دوسری وارننگ تکنیکی اعتبار سے ملی، رپورٹس کے مطابق امریکی فوج کے پاس سیٹلائٹ ہے جو لانچ ہونے کے فوراً بعد میزائل کا سراغ لگا لیتی ہے جس سے امریکی حکومت حملوں کے بارے میں خبردار ہو گئی تھی۔

ڈرون حملے میں قاسلم سلیمانی سمیت اہم فوجی قیادت کی ہلاکت کے بعد امریکا نے احتیاطی تدابیر کے طور پر مشرق وسطیٰ میں ساڑھے4ہزار فوجی تعینات کر دیے تھے اور خطے میں فوج کے مقامات بھی بدل دیے تھے۔

اس کے ساتھ ساتھ محاذ پر موجود کمانڈرز نے اپنے سروس ممبرز کو چھوٹے فوجی اڈوں پر منتقل کرتے ہوئے آلات اور سازوسامان کو بھی مختلف مقامات پر منتقل کردیا تھا تاکہ انہیں ہدف بنانا مشکل ہو سکے۔

ایک سینئر دفاعی آفیشل نے کہاکہ لوگوں کو ایسے مقامات سے نکال لیں جن کا دفاع ممکن نہ ہو اور انہیں بہتر دفاع کے حامل علاقوں میں منتقل کردیا جائے لیکن ساتھ ساتھ ہمارے فوجیوں کو ایک جگہ جمع نہ کریں تاکہ انہیں ایک جگہ ہدف نہ بنایا جا سکے۔

اس کے ساتھ ساتھ حملے سے ایک گھنٹہ قبل منگل کو شام 4بجے آفیشلز نے میڈیا کو بھی ممکنہ ایرانی حملے کے حوالے سے خبردار کردیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق میزائل لانچ ہونے کے بعد امریکی فوجی حکام پراعتماد نہیں تھے کہ ایران کی جانب سے کن اڈوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔

ایک سینئر آفیشل نے بتایا کہ یہ حملے ایک گھنٹے تک جاری رہے، پہلے حملے سے آخری حملے کے درمیان کُل دورانیہ ایک گھنٹے سے زائد تھا، ایسا نہیں تھا کہ ایک حملہ ہوا اور دھماکا ہوا بلکہ یکے بعد دیگرے میزائل لانچ کیے جاتے رہے۔

رپورٹ میں یہاں تک کہا گیا کہ پہلا میزائل لانچ ہونے کے بعد وائٹ ہاؤس، سینٹرل کمانڈ اور دو دیگر کمانڈ ناردرن کمانڈ اور اسٹریٹیجک کمانڈ کے درمیان مستقل رابطہ تھا۔

میزائل نے جیسے ہی اپنے پہلے ہدف کا نشانہ بنایا تو امریکی فوجی حکام نے نقصانات کا اندازہ لگانا شروع کردیا، لہٰذا منگل کو ساڑھے7 بجے وائٹ ہاؤس آفیشلز نے نے ٹرمپ کو بریفنگ دی اور وہ پراعتماد تھے کہ حملے میں کسی بھی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔

البتہ حقیقتاً آفیشلز بدھ کو اُس وقت تک ایرانی حملوں میں ہلاک یا زخمی ہونے والوں کے بارے میں پراعتماد نہیں تھے جب تک امریکی فوج نے حملے میں تباہ شدہ ملبے کا بغور جائزہ نہیں لے لیا۔

دفاعی حکام کے مطابق کسی بھی قسم کا جانی نقصان نہ ہونے کے بعد آفیشلز کا یہ ماننا ہے کہ ایران نے محض طاقت کا ایک مظاہرہ کیا تاکہ وہ اپنے عوام کے سامنے سرخرو ہو کر شرمندگی سے بچ سکیں۔

سینئر انتظامی آفیشل نے بتایا کہ امریکی سیکریٹری دفاع ایسپر اور سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو منگل کو شام 7بجے وائٹ ہاؤس پہنچے اور ایک گھنٹے بعد ٹرمپ نے امریکی اراکین کانگریس کو فون کر کے مطلع کرنا شروع کردیا کہ ایرانی حملے میں کسی بھی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔

ایک اور انتظامی آفیشل نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا ابتدائی ردعمل یہ تھا کہ یہ ایران کی جانب سے باقاعدہ جنگ شروع کرنے کے بجائے اپنے عوام کے سامنے شرمندگی سے بچنے کی کوشش تھی۔