انتظار حسین نے رات کے اندھیرے میں گزرتی ریل گاڑی کو چراغوں کی قطار سے تشبیہ دی تھی۔ ہمارے مقدرات کی محضر میں اپنے عہد کے روشن چراغوں کو یکے بعد دیگرے بجھتے ہوئے دیکھنا لکھا تھا۔ آئی اے رحمان 12اپریل 2021کو رخصت ہوئے۔ محمد ضیا الدین نے 29نومبر 2021کو رخت سفر باندھا۔ 15مارچ 2023کو مسعود اللہ خان بھی اوجھل ہو گئے۔ کیا قافلہ جاتا ہے جو تو بھی چلا چاہے۔ مگر تمنا کی اس بلندی کے لئے تو میرؔ کی قامت چاہئے۔ ہم فرومایہ تو خواب کی وحشت کے اسیر ہیں۔ دم مارنے کی مجال نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم خواب کے بیان کی ہمت بھی نہیں رکھتے۔ ہماری آزمائش فقط یہ ہے کہ رفتگاں کے غبار میں قدم اٹھاتے ہوئے نئے حوادث کے اندیشوں اور ناآفریدہ خواہشوں کے انتظار میں شبِ عمر تمام کریں۔ آپ کے نیاز مند کو پرانی تصاویر جمع کرنے کا شوق لاحق ہے۔ ایک روز اس خزانے میں گم تھا کہ دسمبر 1968کی ایک تصویر پر نظر ٹھہر گئی۔ ایوب مخالف تحریک میں صحافیوں کا ایک مختصر سا جلوس لاہور کی مال روڈ پر وائی ایم سی اے کے سامنے سے گزر رہا ہے۔ بیشتر چہرے اجنبی ہیں مگر مسعود اللہ خان اور منو بھائی کو پہچان لیا۔ دھان پان سے منو بھائی کے پلے کارڈ پر احمد ندیم قاسمی کا مصرع لکھا ہے، ’ہم تو انسان کا بے ساختہ پن مانگتے ہیں‘۔ قاسمی صاحب نے یہ غزل پچاس کی دہائی میں زندانی فیض احمد فیض کے مجموعہ کلام دست صبا کی تقریب رونمائی میں پڑھی تھی۔ انہی برسوں میں کہیں مجید امجد نے لکھا تھا۔ ’بیس برس کی کاوش پیہم / سوچتے دن اور جاگتی راتیں / ان کا حاصل / ایک یہی اظہار کی حسرت۔‘ دیکھئے، کس طور عشرے سے عشرہ منجدھار کی کشاکش کا تسلسل لئےچل رہے ہیں۔ سبکسارانِ ساحل کو کیا خبر کہ اسیران قفس پر ہر ساعت ایک صدی بن کر گزرتی ہے۔ آسکر وائلڈ نے ریڈنگ جیل میں لکھا تھا، And that each day is like a year / A year whose days are long۔
یہ جو کہیں اوپر کی سطروں میں سبکساران ساحل کی ترکیب چلی آئی ہے، یہ مولانا ابوالکلام آزاد کے عطایا میں سے ہے۔ آپ تو جانتے ہیں، درویش کی ذاتی پونجی اوچھی ہے، ادھر ادھر کے خزانوں میں نقب لگا کے اپنے خرابے کا دیا جلاتا ہے اور غضب یہ کہ زائد از بیشترحوالہ تک نہیں دیتا۔ اول تو اخباری کالم تدریسی مقالہ نہیں ہوتا، دوسرے میرے ممدوح ایسے باثروت ہیں کہ مجھ غریب کے مٹھی بھر لینے سے ان کی قامت میں کمی نہیں آتی۔ مولانا آزاد بدیسی حکمرانوں کے کاسہ لیس اور خطاب یافتہ گروہ سے مخاطب تھے۔ مولانا نے آزادی کی منزل پا لی اور اس کامرانی کے عنوان سے اپنی خودنوشت بھی لکھ ڈالی۔ ہمارے حصے کے ’سبکساران ساحل‘ کی ترکیب نحوی مختلف ہے۔ اسکندر مرزا نے 7 اکتوبر کو لکھا ، ’میں گہرے غور و فکر کے بعد اس افسوسناک نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر میں نے موجودہ حالات میں ناگزیر قدم نہ اٹھایا تو میں اپنے فرض سے غفلت کا مرتکب ہوں گا‘۔ ٹھیک بیس روز بعد ایوب خان بھی ‘ اس نتیجے پر پہنچے کہ ملک کو تباہی سے بچانے کےلئے اسکندر مرزا کی رخصتی ضروری ہے۔ دس برس بعد ایوب خان نے ٹھیک انہی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے اقتدار یحییٰ خان کے سپرد کر دیا۔ یحییٰ خان کو الوداعی تقریر کرنا نصیب نہیں ہوا تاہم چھ برس بعد 5 جولائی 1977 ء کو جنرل ضیا الحق نے ملک کو ’خانہ جنگی‘ سے بچانے کیلئے ’نوے روز‘ کیلئے اقتدار سنبھال لیا۔ گیارہ برس بعد جہاز کے حادثے کے بعد نئی قیادت کو کسی اعلان کی ضرورت نہیں تھی۔ نوشتہ دیوار یہ تھا کہ انتقال اقتدار کی بجائے شراکت اقتدار جاری رہے گی۔ ایک اور عشرہ گزرا تو 12 اکتوبر کی رات پرویز مشرف نے اپنی آمد کو منتخب حکومت کے اقدام کا ردعمل قرار دیا تھا۔ یہ ردعمل 9 برس تک جاری رہا۔ تب چیف جسٹس افتخار چوہدری کی عبا کی اوٹ سے جنرل کیانی نمودار ہوئے جنہوں نے سیاسی مداخلت سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ اس اعلان کی حقیقت میجر جنرل اطہر عباس نے بیان کی تھی۔ گزشتہ چھ برس کی رست و خیز کے کچھ پہلو تو نومبر 2022 میں بادلِ نخواستہ رخصت ہونے والے جنرل صاحب بیان کر رہے ہیں۔ پس پردہ وحشت کے کچھ مناظر محترم عرفان صدیقی تاریخ کے سپرد کر رہے ہیں۔ اس دوران منتخب نمائندوں کا ایک خاص اجلاس منعقد ہوا۔ ادھر ادھر سے خبر نکلی ہے کہ اس مجلس میں ایک بھلے مانس نے فرمایا کہ ’جھوٹ کی بنیاد پر سیاسی بیانیہ مرتب کرنا بھی ہمارے مسائل کا ایک بنیادی سبب ہے‘۔ صاحب کیسا جھوٹ؟ آمریت کی دیوار جھوٹ کی بنیاد پر اٹھائی جاتی ہے اور اس بے روزن و در دیوار کے سائے میں سچ کے پودے پر برگ و بار نہیں آتا۔ سچائی بیان کرنے والوں پر وطن فروشی اور قوم دشمنی کے الزام لگائے جاتے ہیں۔ آج ہمارے ملک میں ٹریڈ یونین باقی ہے اور نہ طلبا یونین کا کوئی نشان۔ صحافت جابر سلطان کا منظور شدہ بیان ہے۔ ملکی معیشت اور تمدنی ارتقا پر غور کرنے والے اہل سیاست کے گلے میں نا اہلی کا طوق لٹک رہا ہے۔ دانش کا نام لینا اپنے پیچھے بلا لگانے کے مترادف ہے۔ سنا ہے کہ مذکورہ مجلس میں معیشت کا بھی کچھ ذکر ہوا ہے۔ معیشت کا حال یہ ہے کہ کل ملکی برآمدات 30 ارب ڈالر کے برابر ہیں اور توانائی کے شعبے میں درآمدات کا حجم بھی اتنا ہی ہے۔ نیز یہ کہ ہم ہر برس تیس ارب ڈالر کی مالیت کا صاف پانی بحیرہ عرب میں غرق کر رہے ہیں۔ سچ ٹکڑوں میں بیان نہیں کیا جاتا۔ قوم پوچھتی ہے کہ جن دہشت گردوں کے خلاف کارروائی مقصود ہے وہ کب اور کس کی اجازت سے پاکستان آئے نیز یہ کہ 80 ہزار پاکستانی شہریوں اور فوجی جوانوں کے قاتلوں سے گٹھ جوڑ کرنے والوں کی جواب دہی کب ہو گی؟