Site icon DUNYA PAKISTAN

علامتی کہانیاں کیسی ہوتی ہیں

Share

پچھلے کچھ عرصے سے نہ جانے کیوں الف کو یہ غلط فہمی ہوگئی ہے کہ میں اردوادب میں کچھ شُد بُد رکھتا ہوں، میں نے بھی الف کی یہ غلط فہمی دور کرنے کی کوشش نہیں کی ،اب اگر کوئی عزت دے رہا ہو تو اُسے روکا تو نہیں جا سکتا ۔اکثر اوقات الف مجھے کوئی کلاسیکی شعر سنا تا ہے تو میں ایسے ظاہر کرتا ہوں جیسےمیں نے نہ صرف یہ شعر سنا ہوا ہے بلکہ اِس میں پوشیدہ معنی اور رعایتِ لفظی سے بھی واقف ہوں۔ یا جب وہ مجھ سے کسی افسانہ نگار یا ناول نگار کے بارے میں پوچھتا ہے تو مدبّر نقّاد کی طرح میں دو چار ایسی باتیں کردیتا ہوں جوبھلے وقتوں میں حسن عسکری ،انتظار حسین یا ڈاکٹر سلیم اختر کی کتابوں میں نظر سے گزری تھیں ۔ اِسی طرح جب وہ کافکا ، بورخیس یا چیخوف کے کسی افسانے کے مرکزی خیال سے متعلق استفسار کرتا ہے تو میں باقاعدہ پُر اعتماد لہجے میں اپنی رائے دیتاہوں کیونکہ اِن ادیبوں کی دو چار تحریریں میں نے پڑھ رکھی ہیں۔الف کی طرح دوسرے لوگ بھی اِن باتوں کومیرےعِجزپر محمول کرتے ہیں اور میں نے کبھی اِس کی تردید نہیں کی۔من آنم کہ من دانم،می گردن کہ تری گردن۔

گزشتہ روز الف سے ملاقات ہوئی ، ہاتھ میں چند کتابیں تھیں ، ایک غالباً فارسی کہانیوں کا ترجمہ تھا ۔سٹ پٹائے ہوئے لہجے میں پوچھنے لگاکہ یہ فارسی کہانیاں پڑھی ہیں تم نے ؟ میں نے کہا نہیں ۔’’دو دن سے میں یہ کہانیاں پڑھ رہا ہوں، عجیب بے تُکی سی کہانیاں ہیں،نہ کوئی پلاٹ ہے نہ کہانی، نہ کوئی سر ہے نہ پیر۔مثلاً یہ کہانی دیکھو۔ ایک شخص اپنے گھر سے دفتر جانے کے لئے نکلتا ہے ، بس اسٹا پ کی طرف جاتا ہے، وہاں بس کا انتظار کر تا ہے ، بس آتی ہے تو اسے دیکھ کر جھوم اٹھتا ہے کہ صنعتی ٹیکنالوجی کا شاہکار ہے مگر اچانک بس اُس پر چڑھ دوڑتی ہے ، وہ گھبراکر فٹ پاتھ پر چڑھ جاتا ہے مگر بس وہاں بھی اُس کے پیچھے آجاتی ہے ، وہ دوڑتا چلا جاتا ہے ، بس پیچھا نہیں چھوڑتی ، اُس میں کوئی ڈرائیور نہیں ، آخر ایک جگہ اُس کی ہمت جواب دے جاتی ہےاور وہ گر کر بے ہوش ہوجاتا ہے ۔ہوش میں آکر دیکھتا ہے تو بس اُس کے پاس کھڑی ہے ، وہ اٹھ کر اسے دیکھتا ہے ، پھر کہتا ہے کہ صنعتی ٹیکنالوجی کا شاہکار ہے ، بس میں بیٹھتا ہے اور بس چل پڑتی ہے ۔ یہاں افسانہ ختم ہوجاتا ہے ۔اب تم بتاؤ اِس کا کیا مطلب ہے ، کس قسم کی تجرید ہے ؟‘‘الف نے مجھ سے یوں پوچھا جیسے یہ کہانی میں نے لکھی ہو۔

’’کہیں ایسا تو نہیں کہ تم اِس افسانے کی کوئی اہم بات بھول رہے ہو؟‘‘

’’مجھے پہلے ہی پتا تھا کہ تم یہ جواب دو گے ۔ اچھا پھر ایک اور کہانی سنو۔ ایک عورت اور مرد سڑک کے کنارے گفتگو کررہے ہیں ،مرد کی گاڑی پاس کھڑی ہے جس میں غالباً اُس کا ڈرائیور بیٹھا ہے۔ سڑک کے پار ایک بوڑھا شخص اُن دونوں کو دیکھ کرلاٹھی ٹیکتا ہوا مشکل سے اُن کے پاس پہنچتا ہے اور عورت سے گفتگو کرنے والے کو اچانک لاٹھی سے مارتا ہے ، وہ شخص جواب میں بوڑھے کو مارتا ہے، بوڑھا زخمی ہو کر گر پڑتا ہے ، عورت بوڑھے کو بچانے کی کوشش کرتی ہے ،پھر وہ بوڑھے کے چہرے سے خون صاف کرتی ہے، بوڑھا جواب میں عورت کومارنا شروع کردیتا ہے ، عورت مزاحمت نہیں کرتی،پہلا شخص عورت کو بوڑھے سے بچاتا ہے اور اسے گاڑی میں ڈالتا ہےاور گاڑی چل پڑتی ہے۔کہانی ختم۔ مجھے بتاؤ یہ کیا بے سروپا کہانی ہے ؟‘‘میں نے بہت غور سے الف کی گفتگو سنی اور پھر ایک عالمانہ شان سے کہا ’’جان ِ من بات یہ ہے کہ تم اپنی جگہ درست کہتے ہومگر شاید تم نے فرانسیسی کہانیاں نہیں پڑھیں۔اصل میں ہمیں بچپن سے ایسی کہانیوں کی عادت ہے جن کاآغاز ہوتا ہے، کلائمکس ہوتا ہے اور پھر انجام ہوتا ہے، کبھی کبھار کہانی میں ہیرو اور ولن بھی ہوتے ہیں ، پلاٹ اور کردار ہوتا ہے جبکہ دنیا میں ہر جگہ افسانے کا یہ فارمیٹ نہیں چلتا، فرانسیسیوں کی مثال میں نے اسی لئے دی ہےکہ اُنہوں نے کہانی کا روایتی انداز توڑ کرایسی ہی تجریدی اور بظاہر لا یعنی کہانیاں لکھیں، مجھے یوں لگتا ہے جیسے فارسی کے ادیبوں نے فرانسیسی ادب کے زیرِ اثر یہ کہانیاں لکھی ہیں جو تمہیں سمجھ نہیں آ رہیں۔‘‘میری بات سُن کر الف بے حد جز بز ہوا۔’’گویا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ یہ کہانیاں بہت اعلیٰ پائے کی ہیں ،میری ہی عقل ناقص ہے ؟‘‘

’’نہیں میرا یہ مطلب بھی نہیں ۔منٹو اردو کا سب سے بڑا افسانہ نگار تھا، اُس کی کہانیوں میں پلاٹ بھی ہوتا تھا اور کردار بھی ، اُس نے لا جواب افسانے لکھے مگر آخری وقت میں وہ بھی اپنے اِس لگے بندھے اندازسے اکتا گیا اور اُس نے بالکل مختلف انداز کے دو تین تجریدی افسانے لکھے ، ایک کانام تو مجھے یاد ہے ’پھندنے‘۔اگر وہ کچھ دیر اور زندہ رہ جاتا توشاید ہم اسے اردو ادب کاکافکا کہتے۔‘‘

’’ہمم۔کافکا کی مثال تم نے اچھی دی۔‘‘

’’ہاں ۔کافکااِس فن کاماہر تھا ، وہ بغیر پلاٹ اور کہانی کے ، محض اپنے اندازبیان کے زور پر قاری کوجکڑ لیتا تھا ، یہ مشکل کام ہے اور کَس و ناکَس کے بس کی بات نہیں ۔یہ فارسی کہانیاں جو تم مجھے سنا رہے ہو، یوں لگتا ہے جیسے وہ تجرید کے شوق میں کچھ زیادہ ہی آگے نکل گئیں اور تم سے ہضم نہ ہو سکیں ۔اصل میں آج کل کے ادیبوں کو دانشورانہ اظہار کا کچھ زیادہ ہی شوق چرایا ہے،جب سے افسانے میں علامت اور تجرید کا رجحان شروع ہوا ہے تب سے ہم نےفرض کر لیاہے کہ جب تک بات کو گھما پھرا کر فلسفیانہ انداز میں نہ کیا جائےاور قاری کو اندھیرے میں رکھ کر ٹکریں مارنے پر مجبور نہ کیا جائے تب تک ہماری تحریر کو ادب عالیہ نہیں سمجھا جائے گا ۔‘‘

’’تو پھر اب میرے لئے کیا حکم ہے ؟‘‘ الف نے بے بسی سے پوچھا۔

’’تم یہ فارسی کہانیوں کی کتاب میرے پاس چھوڑ جاؤ ،میں پڑ ھ کر تفصیلی رائے دوں گا، اور واپسی پراپنے لئےاردو بازار سے ’وہ ظالم تھا میں مجبور تھی‘ ٹائپ کاکوئی ناول لے جانا۔‘‘ الف نے میری بات کے جواب میں غصے سے مجھے گھور کر دیکھا مگر منہ سے کچھ نہیں بولا۔ اُس کے جانے کے بعد میں نےچند فارسی کہانیاں پڑھیں اور پھر کتاب اُلٹ کر سرہانے رکھ دی ۔ دیوار پر دے مارنےکی صورت میں پینٹ خراب ہونے کا اندیشہ تھا۔

Exit mobile version