اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر افغان طالبان نے اپنی مقامی خواتین عملے کو کام پر واپس جانے کی اجازت نہ دی تو وہ مئی میں افغانستان سے نکل جائے گی۔
رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) نے ایک تحقیق جاری کی جس میں خبردار کیا گیا کہ خواتین کے حقوق پر پابندیاں افغانستان میں معاشی تباہی کو مزید بگاڑ دیں گی۔
ملک کے موجودہ حکمرانوں نے گزشتہ سال دسمبر میں افغان خواتین کے اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے پر پابندی عائد کرنے کی جانب اشارہ کیا تھا،اور 12 اپریل کو انہوں نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ اقوام متحدہ میں ملازمت کرنے والی افغان خواتین مزید کام جاری نہیں رکھ سکتیں۔
ساتھ ہی طالبان نے اقوام متحدہ کی جانب سے اپنے مؤقف پر نظرثانی کی اپیلوں کو مسترد کر دیا ہے۔
افغانستان کے لیے سیکریٹری جنرل کی خصوصی نمائندہ روزا اوتن بائیفا نے گزشتہ ہفتے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ اقوام متحدہ اس بات کا تعین کرنے کے لیے آپریشنل جائزہ لے رہی ہے کہ کیا وہ پابندی کے باوجود ملک میں رہ سکتی ہے، نظرثانی کی مدت 5 مئی کو ختم ہو رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے ایک بیان میں وضاحت کی گئی کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے مقامی ورکرز، خواتین اور مرد دونوں، کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ نظرثانی کی مدت کے دوران اقوام متحدہ کے دفاتر میں رپورٹ نہ کریں۔
تاہم انہوں نے انتہائی اہم کاموں سے منسلک افراد کے لیے ’محدود اور نپا تلا‘ استثنیٰ رکھا ہے۔
خیالرہے کہ اگست 2021 میں اقتدار میں واپسی کے بعد سے افغان طالبان کئی امتیازی اقدامات نافذ کیے ہیں جن کے تحت افغان خواتین اور لڑکیوں کو عوامی اور روزمرہ کی زندگی کے بیشتر شعبوں میں حصہ لینے سے روک دیا گیا۔
اس معاملے پر اپنے ایک بیان میں اقوام متحدہ نے کہا کہ طالبان حکام اسے ’افغانستان میں رہنے (یا) ان اصولوں اور ضوابط پر قائم رہنے کے درمیان ایک خوفناک انتخاب کرنے پر مجبور کر رہے ہیں جن کی پاسداری کرنے کا ہمارا فرض ہے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’یہ واضح رہے کہ افغان عوام کے لیے اس بحران کے کسی بھی منفی نتائج کی ذمہ داری ڈی فیکٹو حکام پر ہوگی۔‘
ایک اور بیان میں اقوام متحدہ نے کہا کہ اگر طالبان افغان خواتین کو تنظیم کے لیے کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں تو وہ مئی میں افغانستان سے انخلا کا ’دل دہلا دینے والا‘ فیصلہ لینے کے لیے تیار ہے۔
اقوام متحدہ میں ملازمت کرنے والے 3 ہزار 300 افغان شہری، 2700 مرد اور600 خواتین 12 اپریل سے گھروں میں مقیم ہیں۔
تاہم نیویارک میں ایک حالیہ بریفنگ کے دوران اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے کہا کہ عملے کو پیسے ملتے رہیں گے۔
اقوام متحدہ کا 600 مضبوط افراد کا بین الاقوامی عملہ، جس میں 200 خواتین بھی شامل ہیں، افغان طالبان کے اس حکم نامے سے متاثر نہیں ہیں۔
یو این ڈی پی کی ایک تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کی کام کرنے کی صلاحیت کے تسلسل کے بغیر افغان معیشت کی بحالی کے امکانات بدستور خراب رہیں گے۔
اقوام متحدہ نے گزشتہ سال افغانستان کے لیے مجموعی طور پر 3 ارب 70 کروڑ ڈالر کی غیر ملکی امداد میں سے 3 ارب 20 کروڑ ڈالر کا حصہ ڈالا تھا۔
اقوام متحدہ کی امداد کسی نہ کسی شکل میں براہ راست 2 کروڑ 61 لاکھ افغانوں تک پہنچی جس سے شرح مبادلہ کو مستحکم کرنے، افراط زر کو روکنے اور دیگر اقتصادی اشاریوں کو متاثر کرنے میں مدد ملی۔
نئی رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر غیر ملکی امداد کی سطح 3 ارب 70 کروڑ ڈالر پر برقرار رہی تو 2023 میں افغانستان کی جی ڈی پی میں 1.3 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔