میری عمر کے بہت سارے پاکستانیوں کی طرح عمران خان صاحب کو بھی فیلڈ مارشل ایوب خان کا ’’سنہری دور‘‘ بہت یاد آتا ہے۔ذاتی طورپر اگرچہ میں خودان لوگوں میں شامل نہیں ہوں۔میں نے ہوش سنبھالی تو صدارتی انتخاب کی گہماگہمی دیکھی۔سن 1964تھا ۔ ایوب خان کے مدمقابل دائیں اور بائیں بازو کی تمام جماعتوں نے یکجاہوکر محترمہ فاطمہ جناح کو (جنہیں ہم مادرِملت پکارتے تھے) صدارتی امیدوار بنادیا تھا۔میرے گھر اور محلے کی اکثریت مادر ملت کی حامی تھی۔وہ انتخاب مگر 80 ہزار BD اراکین پر مشتمل Electoral Collegeکے ذریعے ہوا تھا۔شاید عوام کو براہِ راست اس انتخاب میں ووٹ ڈالنے کا حق میسر ہوتا تو ایوب خان یہ انتخاب ہارجاتے۔طریقِ انتخاب کی محدودات کو جانتے ہوئے بھی کم از کم میرے محلے کے لوگ مادرِ ملت کی ’’شکست‘‘ سے اداس ہوگئے تھے۔
عمران خان صاحب مگر 1964کے انتخاب کے بارے میں اتنے باخبر نہیں ہوں گے۔انہیں گماں ہے کہ ایوب خان کے دس سالہ دور میں پاکستان میں صنعت کاری کا بھرپور آغاز ہوا۔ پاکستان کو جدید طرز کا ملک بنانے کی کوشش ہوئی۔ نام نہاد ’’عالمی برادری‘‘ پاکستان کو ایک باوقار ملک تسلیم کرتی تھی۔ایوب خان امریکہ گئے تو اس ملک کے صدر نے بذاتِ خود ایئرپورٹ پہنچ کر ان کا استقبال کیا۔پاکستانی اور امریکی صدور کھلی گاڑی میں کھڑے ہوکر ’’خوش آمدید‘‘ کہتے ہجوم کو دیکھ کر ہاتھ ہلاتے رہے۔اگست2018میں پاکستان کے وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد سے عمران خان صاحب شعوری یا لاشعوری طورپر ایوب خان کے دور کو واپس لانا چاہ رہے ہیں۔مصیبت مگر یہ ہے کہ ہمارے ہاں اب ’’پارلیمانی نظام‘‘ ہے۔اپنی حکومت کو برقرار رکھنے کے لئے عمران خان صاحب کو اتحادی جماعتوں کی دلجوئی کرنا ہوتی ہے۔اسی باعث وہ خود کو کبھی کبھار ’’مافیا‘‘ کے شکنجے میں جکڑا ہوا محسوس کرتے ہیں۔حکومتی ’’بے بسی‘‘ کے تدارک کے لئے وقتاََ فوقتاََ ’’’اسلامی صدارتی نظام‘‘ کو متعارف کروانے کی بات بھی چلائی جاتی ہے۔اس نظام کے ’’فضائل‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے اکثر لکھاری اس حقیقت کو نظرانداز کردیتے ہیں کے جنوبی ایشیاء میںاس وقت بنگلہ دیش کو اقتصادی اعتبار سے سب سے کامیاب ملک تسلیم کیا جارہا ہے۔وہاں ہر طرح کے نظام کا تجربہ ہوا۔مارشل لاء کے علاوہ نام نہاد ’’بنگلہ دیش ماڈل‘‘ بھی آزمایاگیا۔بالآخر طے یہی ہوا کہ برصغیر پاک وہند میں پارلیمانی نظام ہی کچھ Deliverکرسکتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ حسینہ واجد نے پارلیمانی نظام کے ہوتے ہوئے بھی ترکی کے اردوان جیسا Authoritarian ماڈل اپنایا۔ بھارت کی مودی سرکار بھی اپنے رویے سے ’’اکثریت کی سفاکیت(Majoritarianism) ‘‘ کی راہ پر چل رہی ہے۔حسینہ واجد اور نریندرمودی کو اپنی پارلیمانوں میں لیکن قطعی اکثریت حاصل ہے۔عمران حکومت کو یہ سہولت میسر نہیں۔ذاتی طورپر عمران خان صاحب عوام کے ایک مؤثر حلقے میں اب بھی مقبول ہیں۔ان کی جماعت مگر کمزور اور گروہوں میں بٹی ہوئی ہے۔ خان صاحب کی تاریخی مجبوری ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں عددی اعتبار سے توانا اور سینٹ میں اکثریت کی حامل سیاسی جماعتوں سے گزارہ کرنے کی راہ نکالیں۔
عمران خان صاحب مگر بضد ہیں کہ ان کے سیاسی مخالفین کی اکثریت ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ پر مشتمل ہے۔وہ انہیں “NRO”نہیں دیں گے۔ سیاسی مخالفین کے علاوہ وزیر اعظم صاحب بہت شدت سے یہ بھی سوچتے ہیں کہ سرکاری اشتہاروں کی ’’ہوس‘‘ میں مبتلا میڈیا جس کے نامور لوگوں کو بقول ان کے ’’لفافے‘‘ لینے کی عادت ہے یکسوہوکر انہیں ’’بلیک میل‘‘ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ان کی حکومت کے ’’اچھے کاموں‘‘ کی مناسب تشہیر نہیں ہوتی۔ وہ مگر تن تنہا اپنے عز م کی بدولت آگے بڑھتے چلے جائیں گے۔سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگاکر میڈیا پر کامل کنٹرول کے ذریعے ’’ترقی‘‘ کا ماڈل ایوب خان نے بھی اپنے دور میں متعارف کروایا تھا۔ان کے دور میں ہوئی ’’ترقی‘‘ مگر بنیادی طورپر سردجنگ کی مرہون منت تھی۔ ترقی پذیر ممالک میں کمیونزم کی کشش کو ختم کرنے کے لئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے آمرانہ نظام کی سرپرستی کی۔ایک بااختیار حاکم کے ذریعے ’’زرعی اصلاحات‘‘ متعارف ہوئیں۔ کسانوں کو آسان اقساط پر ٹریکٹرفراہم ہوئے۔ ٹیوب ویلوں کا جال بچھایا گیا۔ گندم کی فی ایکٹر پیداوار بڑھانے کے لئے ’’میکسی پاک‘‘ نامی بیج متعارف ہوا۔ کھاد کے کارخانے لگے اور ’’خوش حالی‘‘ پھیلی۔اس ’’خوش حالی‘‘ نے مگر امیر اور غریب کے درمیان فرق کو ناقابل برداشت حد تک بڑھانا شروع کردیا۔مشرقی پاکستان مغربی پاکستان کے مقابلے میں غریب تر نظر آنا شروع ہوگیا۔اس کے بعد 1965کی پاک-بھارت جنگ ہوئی۔جس کا انجام ’’معاہدہ تاشقند‘‘ کی صورت دیکھنے کو ملا۔خلقِ خدا کی اکثریت نے یہ فرض کرلیا کہ ایوب خان نے میدان میں جیتی ہوئی جنگ تاشقند میں مذاکرات کی میز پر ہاردی۔تاشقند معاہدے کے بعدایوب حکومت کا زوال شروع ہوگیا۔یہ معاہدہ 1966میں ہوا تھا۔دو سال بعد نومبر1968میں ایوب خان کے خلاف طلبہ تحریک پھوٹ پڑی اور مارچ 1969میں ایوب خان استعفیٰ دینے کو مجبور ہوگئے۔عمران خان صاحب اور ان کے وزراء کو ابھی تک کوئی سمجھانہیں پایا کہ ان کے دورِ اقتدار کے ابتدائی سال میں معاشی اعتبار سے وہ گہماگہمی دیکھنے کو نہیں ملی جو ایوب خان کے ابتدائی چار برسوں میں دیکھنے کو ملی تھی۔اگست 2018سے آج تک ہمارے بازاروں سے رونق غائب ہے۔مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔بے روزگاری ناقابلِ برداشت حدوں کو چھورہی ہے۔ انگریزی محاورے والے Feel Goodماحول کو پیداکئے بغیر عمران خان صاحب اپنی حکومت کو حسینہ واجد اور ترکی کے سلطان اردوان کی مانند چلانا چاہ رہے ہیں۔احتساب بیورو کی بدولت اس حکومت کے سیاسی مخالفین بے بس ہوئے نظر آرہے ہیں۔میڈیا اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی تگ ودو میں مصروف ہوچکا ہے۔ہر سو ’’جی حضوری‘‘ کا عالم ہے۔بات مگر بن نہیں رہی ہے۔Feel Good Factor،جو میری دانست میں ٹھوس معاشی اقدامات ہی کی بدولت پیداہوتا ہے،ان دنوں عنقا ہے۔ حکومت اور اس کے ترجمان اس حقیقت پر توجہ دینے کے بجائے ’’مافیاز‘‘ اور ’’سازشوں‘‘ کے تذکرے میں مشغول رہتے ہیں۔عمران حکومت کے خلا ف’’سازشوں‘‘ کا سراغ لگانے کے لئے میں نے ایک رپورٹر کی جبلت کو پوری طرح بروئے کارلاتے ہوئے اقتدار کے کھیل سے جڑے کئی تگڑے کرداروں سے تنہائی میں ملاقاتیں کی ہیں۔ ان کی اکثریت مجھے بذاتِ خود کنفیوزڈ دکھائی دی۔عمران حکومت کے خلاف متحرک ہوئے مبینہ ’’سازشی‘‘ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ سے کوئی فائدہ نہ ا ٹھاپائے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ میں جب ایک اہم اور حساس ترین سوال اُٹھ کھڑا ہوا تواپوزیشن کی دونوں جماعتوں نے اسے ’’بحران‘‘ بنانے کی ہرگز کوئی کوشش نہیں کی۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ’’آئندہ چھ ماہ‘‘ ہمارے ملک میں بہت ’’دھماکہ خیز‘‘ تصور کئے جارہے ہیں۔اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے سرکردہ رہ نمائوں سے گفتگو کے دوران میں نے انہیں مذکورہ ’’چھ مہینوں‘‘ کے بارے میں ہرگز Excitedنہیں دیکھا۔وہ ’’تخت یاتختہ‘‘ والا ماحول بنانے سے گریز کریں گے۔ان کا گریز بلکہ عوام کی اکثریت کو سیاسی عمل سے بیگانہ بنارہا ہے۔وہ دیانت داری سے یہ سمجھتے ہیں کہ عام آدمی پر نازل ہوئے مہنگائی جیسے عذاب کو سفاکی سے بھلاتے ہوئے ہماری حکمران اشرافیہ اقتدارکے کھیل رچارہی ہے۔ایک دوسرے کو نیچادکھانے میں مصروف ہے۔ایوب خان کے دورِ اقتدار کے آخری دنوں میں جب اپوزیشن کو گول میز کانفرنس کے لئے مدعو کیا گیا تو ان دنوں بھی وطنِ عزیز میں ایسا ہی ماحول تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس کانفرنس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے Initiativeاپنے ہاتھ میں لے لیا۔عمران خان خوش نصیب ہیں کہ ان کے دور میں کوئی ذوالفقار علی بھٹو نہیں ہے۔دورِ حاضر کے ’’بھٹو‘‘ کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھائیں اور ساری توجہ پاکستان کی معیشت میں رونق لگانے پر مرکوز کردیں۔ یہ نہ ہوا تو ’’کچھ نہ کچھ‘‘ ہوکررہے گا۔