گو شہ خاص

ڈان لیکس‘ نواز باجوہ ملاقات اور’’متروکہ املاک‘‘!

Share

29 اپریل2017ءکو‘ اوّل ِشب کی لطیف ساعتوں میں، آرمی ہائوس سے اسلام آباد آتے ہوئے میں اِسی پیچ وتاب میں رہا کہ ’’ڈان لیکس‘ کا اُونٹ، جس کی کوئی کَل سیدھی نہیں، کس کروٹ بیٹھے گا؟بیٹھے گا بھی یا یوں ہی شُتْرغَمْزے دِکھاتا رہے گا۔یہ خلش بھی پیہم چُٹکی لے رہی تھی کہ مجھے اس مشقِ زیاں کار میں پڑنا بھی چاہئے تھا یا نہیں ؟ ڈان لیکس کے معاملات دیکھنے کے لئے چوہدری نثارعلی خان ، اسحاق ڈار اور شہباز شریف پر مشتمل ایک باضابطہ رابطہ کار ٹیم موجود تھی۔میری کاوش رضاکارانہ تھی جس کا علم صرف وزیراعظم کو تھا۔

’ڈان لیکس‘ برسوں سے جاری جنگ کا ایک نیا محاذ تھا۔ نوازشریف سے نجات اور عمران خان کی تخت نشینی کے بنیادی اہداف اب ادارہ جاتی ترجیح بن چکے تھے۔ آئی۔ایس۔آئی کے سربراہان احمدشجاع پاشا ، ظہیرالاسلام، رضوان اخترلمبی دوڑ کے کھلاڑیوں کی طرح میدان سے باہر جاتے وقت اِن اہداف کی جھنڈی اپنے جانشین کو تھماتے رہے۔ راحیل شریف کو توسیع نہ ملنا اس قبیلے کے لئے اچھی خبر نہ تھی۔جنرل اشفاق ندیم امیدوں کا نیا مرکز ٹھہرے۔بات بنتی نظرنہ آئی تو ساری کوششیں اس پہ مرکوز ہوگئیں کہ ہر قیمت پر جنرل باجوہ کا راستہ روکا جائے۔ جنرل باجوہ اِس مہم سے باخبر تھے۔ مجھ سے دوبار اس کا تذکرہ کیااور یہاں تک بتایا کہ اُن کے بچوں کو بھی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ میں نے پوچھا ۔ ’’کون کر رہا ہے یہ سب کچھ؟‘‘ اُن کا سیدھا سادہ جواب تھا ۔ ’’وہی جو کسی بھی شخص کے فون نمبر تک رسائی رکھتے ہیں۔‘‘ جنرل باجوہ کے آرمی چیف بن جانے کے بعد اِن عناصر کی حکمت عملی کا پہلا نکتہ یہ ٹھہرا کہ نواز باجوہ تعلقات کو بھی نواز راحیل ہی کی سطح پر رکھا جائے۔ قرارپایاکہ پانامہ کے الائو کے ساتھ ساتھ ڈان لیکس کے بھانبھڑ کو بھی ٹھنڈا نہ ہونے دیا جائے۔

جنرل باجوہ سے میری ملاقات اِس فتنہ سرشت قبیلے کے لئے اچھی خبر نہ تھی۔ میرے اور چیف کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ ہمارا رابطہ اُن کے بیٹے سعد کے ذریعے ہوا کرے گا۔ ایک ہونہار، معاملہ فہم اور مودب نوجوان کے طور پر سعد نہایت عمدہ رابطہ کار ثابت ہوا۔اُسی شب سعد نے اپنے والد کی طرف سے مجھے دو ٹیکسٹ بھیجے۔ایک توناشائستہ اور لغو تھا۔دوسرے میں کہاگیا تھا کہ ’’جنرل باجوہ کی مسلسل نافرمانی اور رعونت کی وجہ سے وزیراعظم نوازشریف اُنہیں فارغ کر رہے ہیں تاکہ فوج کو سول حکمرانی کے تابع لایاجاسکے۔‘‘ یہ ٹیکسٹ جنرل باجوہ کو اس حاشیے کے ساتھ پہنچائے گئے کہ مذکورہ شخص مریم نواز کی ٹیم کا رُکن ہے۔ میں نے مریم سے بات کی تو اس کا تفصیلی ٹیکسٹ آیا۔ ’’انکل ! جو کچھ سوشل میڈیا پہ ہورہا ہے اُسے ہرگز میری حمایت حاصل نہیں۔ ایسے ٹیکسٹ مجھ سے منسوب نہ کئے جائیں جس طرح میں آئی۔ایس۔پی۔آر کے ڈھیروں اکائونٹس سے اپنے خلاف ہونے والی زہریلی مہم کو آرمی چیف یا ڈی۔جی۔آئی سے منسوب نہیں کرتی۔‘‘ میں نے قدرے تفصیلی خط لکھ کر سعد سے کہا کہ ’’کچھ لوگ وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کے لئے ایک مہم چلا رہے ہیں۔انہیں سنجیدگی سے لینے کے بجائے نظرانداز کردینا چاہئے۔‘‘ شام کو سعد کا پیغام آیا __ ’’انکل! آپ کا بہت شکریہ۔ میں نے آپ کا خط ابو کو پڑھ کر سنایا ہے۔وہ آپ سے سو فی صد متفق ہیں۔جو کچھ ہوا ابو کو خود اُس کا بہت رنج ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ اتنی بڑی غلط فہمی اور بدگمانی کے باوجود تعلقاتِ کار کو ٹھیک کیاجاسکتا ہے۔‘‘ 2 مئی2017 کو وزیراعظم سے میری تفصیلی ملاقات ہوئی۔ وہ خاصے برہم تھے۔ کہنے لگے۔ ’’مجھے اتنا دُکھ اُس دِن بھی نہیں ہوا تھا جس دِن مجھے ہتھکڑیاں لگا کر کسی کال کوٹھڑی میں ڈالا گیا تھا۔ اگر وزیراعظم کے اعلامیے کو اِس توہین کے ساتھ ردّ کردیا جائے تو کیا یہ کھُلی نافرمانی نہیں؟ آپ ہی بتائیں وزیراعظم کو کیا کرنا چاہئے۔کیا مجھے چپ چاپ عہدے سے چمٹے رہنا چاہئے؟ مجھ سے بڑھ کر کون چاہے گا کہ سول ملٹری تعلقات اچھے ہوں۔ ملک ترقی کرے۔ عوام خوشحال ہوں۔ آخر اس نوٹیفیکیشن میں تھا کیا کہ یہ آپے سے باہر ہوگئے؟میں نے سب کچھ تو مان لیا۔ پرویز رشید جیسے مخلص ساتھی کو فارغ کردیا۔ اس کے باوجود ریجیکٹڈ (Rejected)کے کیا معنی ہیں؟‘‘ ماحول کی آتشناکی کے باوجود میں آرمی چیف سے ملاقات پر اصرار کرتا رہا۔ وزیراعظم کو میری شبنم افشانی گراں گزر رہی تھی۔اُنہی دنوں ’’پرائیویٹ‘‘ نمبر سے فون آیا۔ کوئی کرنل صاحب بول رہے تھے۔ کہنے لگے۔ ’’ڈی۔جی۔سی جنرل فیض حمید آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘ میں نقاب پوش بارگاہوں کی جادو نگری سے بہت ڈرتا ہوں۔ آنکھ کے آپریشن کا بہانہ کرکے طرح دے گیا۔ دوبارہ فون آیا۔ ’’آپ کے گھر کے قریب انتظام کرلیتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’کچھ دِن ٹھہر جائیں۔‘‘ کچھ دِن نہیں، پورے دو سال تک وہ ٹھہرے رہے۔ جون 2019 میں جنرل فیض حمید نے آئی۔ایس۔آئی کی کمان سنبھالی۔ اگلے ماہ، نصف شب مجھے گھر سے اٹھایا گیا اور ہتھکڑی پہنا کر اڈیالہ جیل کی قصوری چکی میں ڈال دیاگیا۔ 4 مئی2017ءکو آرمی چیف کی وزیراعظم سے ملاقات ہوئی۔ایک ’’چہرہ بچائو‘‘ فارمولا طے پاگیا۔ یہ کہ ابہام دور کرنے کیلئے حکومت نیا نوٹیفیکیشن جاری کرے گی۔ اُس کیساتھ ہی آئی۔ایس۔پی۔آر اظہار افسوس (معذرت) کرتے ہوئے Rejected والا ٹویٹ واپس لے لے گا۔ رات دس بجے کے لگ بھگ سعد قمر کے توسط سے مجھے جنرل باجوہ کا ٹیکسٹ ملا۔

’’Sir, I have met with PM. Everything went very well and things are settled. Thank you for your role.‘‘

(سر! وزیراعظم سے میری ملاقات ہوگئی ہے۔ بات چیت بہت اچھی رہی ہے۔ سارے معاملات طے پاگئے ہیں۔ آپ کے رول کا بہت شکریہ)

5 مئی کو طے شدہ مصالحتی فارمولے پر عمل ہوجانا تھا۔ ایسا نہ ہوا۔ ’’متروکہ املاک‘‘ کے آلات ابھی کُند نہ ہوئے تھے۔ جانے کون، کس کا بہروپ بھرے کس کے پہلو میں بیٹھا، کس کی آرزئوں میں رنگ بھر رہا تھا۔ ٹیڑھی میڑھی کلوں والا اونٹ کسی کروٹ بیٹھنے کے بجائے مسلسل اِٹْھلاہٹ دکھا رہا تھا۔ اور پھر تقویم ِوقت کے افق سے 9مئی کا وہ حشربداماں دِن طلوع ہوا جس کی تفصیلات آج تک گہرے بھیدوں والے جستی صندوق میں بند ہیں۔ اُس دِن کا تصوّر بھی کرتا ہوں تو جھرجھری سی چھوٹ جاتی ہے۔ (جاری ہے)