منتخب تحریریں

سول سوسائٹی …حق مغفرت کرے

Share

آندھی دھاندی کے دن ہیں۔ خوب اور ناخوب میں فرق کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ جائز حکومت اور ریاستی عمل داری کا سنجوگ ہم نے اس ملک میں کم کم ہی دیکھا۔ البتہ سپہ سالاروں کی آمد و رفت میں تاریخ کی تلپٹ ہم نے بہت دیکھ رکھی ہے۔ در عدالت پر آویزاں میزان کے پلڑوں میں توازن بھی ہمارا تجربہ نہیں رہا۔ اب مگر عجب بجوگ پڑا ہے۔ سرکاری خزانے میں چوہے دوڑ رہے ہیں۔ عوام دانہ گندم کے لئے خوار ہو رہے ہیں۔ اصحاب سیاست کو مگر دو تین اور تین چار کی سبحہ شماری سے فراغت نہیں۔ مئی کی شورش اور ستمبر کی سبک خرامی کے درمیان حائل تین مہینوں کے لالے پڑے ہیں۔ دستور میں تین آئینی ادارے درج ہیں لیکن اگر حرم سرا کی سرگوشی، بنئے بقال کی جمع تفریق اور جماعت اسلامی کی تحکیم کے ہیولے سیاست کے افق پر نمودار ہو جائیں تو وسوسے آ لیتے ہیں کہ دریائے امکان کی موجوں میں کسی طوفان کی آمد ہے۔ ہماری تاریخ میں جماعت اسلامی کا نقش قدم اور قیامت کا فتنہ ساتھ ساتھ چلے ہیں۔ ’موج خرام یار بھی کیا گل کتر گئی‘۔ مختار صدیقی نے ایسے ہی کسی موسم میں لکھا تھا، ’تھی تو سہی، پر آج سے پہلے ایسی حقیر فقیر نہ تھی / دل کی شرافت، ذہن کی جودت اتنی بڑی تقصیر نہ تھی۔‘ فرانسسکو گویا نے ایک تصویر پر عنوان جمایا تھا، ’جہاں عقل کو اونگھ آ جائے، وہاں عفریت جنم لیتے ہیں‘۔ ہمارا روگ گاہے گاہے اونگھ آنا نہیں، ہم تو لمبی نیند کے ماتے ہیں، لطائف غیبی کے ازلی امیدوار ہیں۔ مگر یہ کہ ’کہاں سے، کس سبو سے کاسہ پیری میں مے آئے؟‘ یورپ یوکرائن جنگ کے اثرات سے بچنے کی کوشش میں ہے، اوقیانوس کے پار بیٹھا پیر مغاں ہماری عشوہ گری سے سرگراں ہے۔ چین کے اعتماد کا آبگینہ عمران حکومت چکنا چور کر گئی۔ خلیج کا خطہ ایک نئے معاشی دور میں داخل ہو رہا ہے اور یوں بھی ہر معاشی مہربانی کے پس پشت مفاد کارفرما ہوتا ہے۔ ہمارے پاس لے دے کے جغرافیائی محل وقوع تھا مگر نئی عالمی صف بندی میں اس ’اثاثے‘ کی ازسرنو قدر پیمائی ابھی ہونا ہے۔ اس افراتفری میں برادر عزیز امتیاز عالم نے سول سوسائٹی کے مردہ گھوڑے کو چابک لگایا ہے۔ از کجا می آید ایں آواز دوست۔ سول سوسائٹی کس بلا کا نام ہے اور ہمارے ہاں اس تمدنی ادارے پر کیا گزری؟

سول سوسائٹی اہل دانش کے اس گروہ سے تشکیل پاتی ہے جو ریاستی منصب کے جویا نہیں ہوتے اور قومی مفاد کے معاملات پر کسی گروہی وابستگی سے بے نیاز ہو کر اپنی فہم کے مطابق آواز اٹھاتے ہیں۔ عموماً یہ آواز طاقتور طبقات کی چیرہ دستیوں کے خلاف اور کمزور طبقات کے حق میں اٹھائی جاتی ہے، غیر مقبول خیالات کی ترویج کرتی ہے، چنانچہ حکمرانوں کو گراں گزرتی ہے، رائج الوقت خیالات کے پروردہ اذہان ایسی آوازوں کو کبھی مذہب کے نام پر مطعون کرتے ہیں، کبھی ملک دشمنی کے الزام میں گردن زدنی ٹھہراتے ہیں۔ یورپ میں گیلیلیو، برونو، سپینوزا اور والٹیئر سے لے کر برٹرینڈ رسل اور سخاروف تک طویل فہرست موجود ہے۔ مسلم تاریخ میں امام احمد حنبل، الکندی، الرازی، ابن سینا، ابن رشد اور ابن خلدون کی ابتلا درج ہے۔ ماضی قریب میں علامہ اقبال، سید ابوالاعلیٰ مودودی، سید قطب اور نجیب محفوظ پر حرف دشنام سے پھانسی تک کونسی مشکل نہیں اتری؟ اقتدار کے بیانیے سے انحراف میں جو بھی امتحان گزرے، حتمی نتیجہ یہ ہے کہ تاریخ اپنا فیصلہ ضلعی انتظامیہ کے پریس نوٹ سے اخذ نہیں کرتی۔

سول سوسائٹی ہماری زمین پر نیا بکھیڑا نہیں۔ پچاس کی دہائی میں یہاں ایک سول لبرٹیز یونین بھی بنی تھی جہاں سید مودودی اور فیض صاحب شانہ بشانہ شریک ہوتے تھے۔ یہ وضع داری اب نہیں رہی۔ اپنے حبیب جالب تو چلتی پھرتی سول سوسائٹی تھے۔ پھر نوابزادہ شیر علی خان پٹودی اپنے جلو میں رائو فرمان علی کولئے نمودار ہوئے۔ یہ حضرات دانشور کی صدائے اختلاف کو ملک دشمنی سمجھتے تھے۔ 16 دسمبر 1971 کو اس ملک پہ جو گزری، سو گزری۔ اس ناشدنی تاریخ سے دو روز قبل 14 دسمبر 1971 کو رائو فرمان علی کی تیار کردہ فہرست میں درج چودہ دانشور، ادیب اور اساتذہ چن چن کر قتل کر دیے گئے۔ رائو فرمان علی کی یہ ڈائری گورنر ہاؤس کے ملبے میں بھارتی فوج کے ہاتھ لگ گئی تھی۔ ضیاالحق کا ورود ہوا تو ترقی پسند صحافیوں، ادیبوں اور اساتذہ کی باقاعدہ فہرستیں تیار ہوئیں۔ بیروزگاری، تبادلے اور عقوبت خانے۔ جنرل ضیا دانشوروں کو سیم اور تھور قرار دیتے تھے۔ اس ملک میں مائوں بہنوں نے حرف انحراف بلند کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اپریل 48ء میں رعنا لیاقت علی سامنے آئی تھیں۔ 65ء میں محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کو للکارا۔ 72ء میں عاصمہ جیلانی نے مارشل لا کو چیلنج کیا۔ جنرل ضیا نے حدود آرڈیننس اور آدھی گواہی جیسے قوانین بنائے تو 12 فروری 1983 کو لاہور کی بیٹیاں مال روڈ پر نکل آئیں۔ یہیں حبیب جالب کی سڑک کے بیچ پٹائی ہوئی تھی۔ سیاسی جماعتیں کالعدم تھیں۔ ٹریڈ یونین اور طلبا یونین کا گلا گھونٹا جا چکا تھا۔ اخبارات پر سخت پابندیاں تھیں۔ اس مرحلے پر اہل دانش نے این جی اوز کے نام پر آوازہ انکار بلند کیا۔ عورتوں، اقلیتوں، مزدورو ں اور بچوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی۔ سول سوسائٹی کی نمود میں موجود خطرے کو بھانپ کر ریاست نے اپنے بغل بچوں کو تھپکی دی۔ ڈاکٹر اسرار احمد، ڈاکٹر شیر افگن، نصیراللہ بابر، بنیامین رضوی اور دیگر مرغان دست آموز حسب معمول الزام اور دشنام سے لیس میدان میں اتر آئے لیکن کاری وار پرویز مشرف نے کیا۔ روشن خیالی کے نقارے پر ایسی چوٹ لگائی کہ دانش کو لقمہ نان کا وسیلہ سمجھنے والے جوق در جوق آمریت کے حلقہ نشیں ہو گئے۔ عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمن کا انتقال تو بہت بعد میں ہوا۔ سول سوسائٹی تو 2001 ہی میں Devolution کے نام پر Dissolve ہو چکی تھی۔ بھائی امتیاز عالم اب کسے آواز دیتے ہیں۔ قبروں پر گھاس اگ آئی ہے۔