کچھ لوگوں کا جسم رات کو اچانک مفلوج کیوں ہو جاتا ہے؟
جب میرے ساتھ ایسا پہلی بار ہوا تو میں کم عمر تھا۔ صبح کا وقت تھا اور سکول جانے میں ابھی کچھ دیر تھی جب میں اٹھا اور میں نے کروٹ لینے کی کوشش کی لیکن میرے جسم نے میرا ساتھ نہیں دیا۔ میں حرکت نہیں کر پا رہا تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میرا پورا جسم مفلوج ہو چکا ہے۔
اگرچہ میرا دماغ مکمل طور پر فعال تھا، میرے جسم کے پٹھے جیسے ابھی تک سو رہے تھے۔ میرا کمرا گرم سا لگ رہا تھا اور ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے دیواریں تنگ ہوتی جا رہی ہیں۔ میں بہت گھبرا گیا تھا لیکن 15 سیکنڈ کے بعد میں ٹھیک ہو گیا۔
بعد میں اس کیفیت کا نام معلوم ہوا کہ اسے ’سلیپ پیریلسس‘ کہتے ہیں۔ یہ حیران کن حد تک کافی عام سی کیفیت ہے جو رات میں ہوتی ہے جب دماغ تو جاگ اٹھتا ہے لیکن جسم وقتی طور پر مفلوج ہو جاتا ہے۔
پہلی بار پیش آنے والے واقعے کے بعد میرے ساتھ ایسا کئی بار ہوا اور ہر بار میرا خوف کم ہوتا چلا گیا لیکن یہ کیفیت کچھ لوگوں کے لیے زیادہ اثر چھوڑ سکتی ہے۔ کچھ لوگوں کو تو خوفناک خواب بھی آتے ہیں۔
24 سالہ وکٹوریا سے میری بات ہوئی جس نے مجھے بتایا کہ ان کے ساتھ ایسا 18 سال کی عمر میں ہوا۔
’میں جاگی لیکن میں ہل نہیں پا رہی تھی۔ مجھے ایک عجیب سی شکل پردے کے پیچھے چھپی نظر آ رہی تھی۔ وہ میری چھاتی پر کودی اور سب سے خوفناک بات یہ تھی کہ میں چلا بھی نہیں پا رہی تھی۔ یہ بالکل اصل لگا۔‘
کچھ لوگوں کو بھوت حتیٰ کہ مرے ہوئے لوگ بھی نظر آئے۔ کچھ نے اپنے ہی جسم کے حصے ہوا میں معلق دیکھے تو کسی نے اپنی ہی کاپی بستر کے ساتھ کھڑی دیکھی۔ کچھ لوگوں کو فرشتے نظر آئے تو بعد میں ان کو لگا کہ انھوں نے کوئی روحانی کیفیت گزاری ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ اسی فریب نظر نے یورپ میں چڑیلوں اور جادوگرنیوں کے تصور کو ہوا دی اور شاید یہی کیفیت ایسے معاملات کی بھی وجہ بنی ہو جس میں چند لوگوں نے دعویٰ کیا کہ ان کو خلائی مخلوق نے اغوا کر لیا تھا۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ کیفیت بہت پرانی ہے۔ ادبی تاریخ میں کئی مصنفین نے ایسی کیفیت کا حوالہ دیا۔ میری شیلے نے فرین اینسٹائین میں ایک ایسی ہی پینٹنگ سے متاثر ہو کر ایک منظر لکھا تھا تاہم اس کیفیت پر اب تک زیادہ تحقیق نہیں ہوئی تھی۔
بلند جلال ہارورڈ یونیورسٹی میں کام کرتے ہیں اور 2020 میں انھوں نے اس کیفیت کا علاج کرنے والے پہلے طبی تجربے کی بنیاد رکھی۔
جلال کا شمار ان گنے چنے سائنسدانوں میں ہوتا ہے جو اس کیفیت پر تحقیق کے لیے وقت اور توانائی خرچ کر رہے ہیں۔ وہ اس کیفیت کی وجوہات اور اثرات پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ انسانی دماغ کے بھید کھولے جا سکیں۔
اب تک اس کیفیت سے گزرنے والے افراد کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں اور بہت کم تحقیقات کی گئی تھیں۔
2011 میں برائن شارپ لیس نے سب سے جامع تحقیق کی۔ اس وقت وہ پینسلوینیا یونیورسٹی میں کام کر رہے تھے۔
انھوں نے پانچ دہائیوں میں ہونے والی 35 تحقیقات کا جائزہ لیا اور پھر تقریباً 36 ہزار رضاکاروں کی مدد سے معلوم کیا کہ یہ کیفیت کافی عام ہے اور تقریباً آٹھ فیصد افراد اس سے گزر چکے ہیں۔
اس میں بڑی تعداد یعنی 32 فیصد نفسیات کے مریضوں کی جبکہ 28 فیصد جامعات کے طلبا ہیں۔ شارپ لیس کا کہنا ہے کہ ’یہ بہت نادر بات نہیں۔‘
جلال کہتے ہیں کہ ’اس کی وجوہات بھی زیادہ پیچیدہ نہیں۔ رات میں ہمارا جسم نیند کے چار مراحل طے کرتا ہے جس میں حتمی مرحلہ ریپڈ آئی مومنٹ کا ہوتا ہے اور اسی مرحلے میں ہم خواب دیکھتے ہیں۔‘
’تاہم اس مرحلے کے دوران ہمارا دماغ پٹھوں کو سن کر دیتا ہے تاکہ انسان خواب کے دوران کچھ نہ کرے اور خود کو نقصان نہ پہنچا لے لیکن کبھی کبھار دماغ اس مرحلے کے مکمل ہونے سے پہلے جاگ اٹھتا ہے جس کی وجہ سے انسان کو لگتا ہے کہ وہ جاگ گیا ہے لیکن دماغ کا نچلا حصہ ابھی اسے مرحلے سے گزر رہا ہوتا ہے اور پٹھوں کو سن کرنے کے نیوروٹرانسمیٹر بھیج رہا ہوتا ہے۔‘
جلال کہتے ہیں کہ دماغ کا سنسری حصہ متحرک ہو جاتا ہے اور آپ ذہنی طور پر تو جاگ جاتے ہیں لیکن اصل میں آپ مفلوج ہوتے ہیں۔
ایک وقت تھا جب مجھے اس کیفیت سے ہر دو یا تین راتوں بعد گزرنے کا اتفاق ہوتا تھا لیکن میری زندگی پر اس کا زیادہ اثر نہیں ہوا۔ میرے خاندان والوں اور دوستوں کے لیے یہ ایک دلچسپ بات ضرور ہوا کرتی تھی۔
آکسفرڈ یونیورسٹی کے کولن ایسپی کا کہنا ہے کہ ’یہ نیند میں چلنے جیسا ہے۔ زیادہ تر لوگ جو ایسی کیفیت سے گزرتے ہیں وہ ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے۔ یہ بات چیت کا ایک موضوع ضرور بن جاتا ہے۔‘
لیکن ایک بدقسمت اقلیت کے لیے یہ کیفیت مشکل ثابت ہوتی ہے۔ شارپ لیس کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ 15 سے 44 فیصد ایسے افراد جن پر یہ کیفیت گزری طبی طور پر پریشان رہے۔ ایسے افراد دن بھر یہ سوچتے رہے کہ اگلی بار ایسا کب ہو گا۔
ایسپی کا کہنا ہے کہ ’ایک پریشانی جنم لیتی ہے اور انسان اس سے نکل نہیں پاتا جس کا سب سے برا اثر پینک اٹیک (بے چینی) کی صورت میں ہو سکتا ہے۔‘
کچھ افراد میں ایسی کیفیت ’نیکرو لیپسی‘ کی نشاندہی بھی ہو سکتی ہے۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہوہتی ہے جس میں دماغ نیند کے عمل پر قابو نہیں رکھ پاتا اور متاثرہ افراد کسی بھی وقت سو سکتے ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کیفیت اس وقت عام ہوتی ہے جب نیند کی کمی ہو تاہم اس کیفیت کے علاج کا سب سے عام اور مفید حل آگاہی ہے جس میں متاثرہ افراد کو اس کی سائنسی وجوہات کے بارے میں بتایا جاتا ہے تاکہ ان کو علم ہو کہ ان کو کسی قسم کا خطرہ نہیں۔
زیادہ سنجیدہ کیسز میں ادویات کا استعمال کیا جا سکتا ہے جس میں انسان کی پریشانی کا علاج کیا جاتا ہے۔
تاہم اس کیفیت کا سب سے زیادہ اثر فریب نظر کی صورت میں ہوتا ہے۔ عام طور پر ایسی کیفیت میں نظر آنے والے فریب خوف کا ذریعہ ہوا کرتے ہیں لیکن سائنسدانوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ ان سے انسانی دماغ کے بارے میں حیران کن معلومات بھی ملتی ہیں۔
جب انسان اس کیفیت میں داخل ہوتا ہے تو دماغ کا موٹر کارٹیکس جسم کو سگنل بھیج کر اسے حرکت کرنے کے لیے کہتا ہے لیکن پٹھے سن ہوئے ہوتے ہیں تو دماغ کو ان سگنلز کا جواب نہیں ملتا۔
جلال کہتے ہیں کہ ’نتیجتاً دماغ اس خلا کو پر کرتا ہے اور ایک وضاحت گھڑ لیتا ہے کہ پٹھے کیوں حرکت نہیں کر رہے۔ اسی لیے بہت سے خوابوں میں انسان کو کوئی چیز اپنے جسم کو دبائے ہوئے محسوس ہوتی ہے۔‘
اسی لیے چند سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ انسانی دماغ کہانی سنانے والی مشین ہے کیونکہ دماغ خود سے کسی چیز کا مطلب تلاش کرنے کے لیے ایک ڈرامائی وضاحت تیار کر لیتا ہے۔
کرسٹوفر فرینچ یونیورسٹی آف لندن میں نفسیات کی ریسرچ ٹیم کے سربراہ ہیں۔ انھوں نے ایسے تجربات کرنے والے لوگوں سے ملتے ہوئے ایک دہائی بتائی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’چند خوابوں کی وضاحت کرنا مشکل ہوتا ہے۔‘ ان کے تجربے میں لوگوں نے ایک کالی بلی، چھاٹی پر لیٹے ہوئے مردہ شخص اور ایک پراسرار بھوت جیسے کردار کا ذکر کیا۔ اطالوی لوگوں نے چڑیلوں کا ذکر کیا۔
ایک اور تحقیق میں جلال نے ایک جیسی عمر اور صنف کے لوگوں کے تجربات کا احاطہ کیا جن کا تعلق ڈنمارک اور مصر سے تھا۔
ان کو معلوم ہوا کہ مصری لوگوں میں یہ کیفیت زیادہ عام تھی اور وہ اس کی کسی ماورائی انداز میں وضاحت کو زیادہ آسانی سے قبول کرنے کو تیار تھے۔ مصری رضاکار بھوتوں اور جنات پر یقین رکھتے تھے اور ان پر یہ کیفیت زیادہ دیر طاری رہی۔
جلال کا خیال ہے کہ ’ماورائی تصورات کا خوف لوگوں کو اس کیفیت سے زیادہ خوفزدہ بھی کر دیتا ہے اور اسی پریشانی کی وجہ سے یہ کیفیت زیادہ طاری ہوتی ہے جو ذہن اور جسم میں تعلق کا اظہار ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’جب آپ پریشان ہوتے ہیں تو نیند کا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے اور اسی لیے یہ کیفیت ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔‘
’فرض کریں آپ کی دادی نے آپ کو بتایا کہ کوئی چیز رات کو آ کر حملہ کرتی ہے تو اسی خوف سے آپ کے ذہن کے مخصوص حصے الرٹ ہو جاتے ہیں۔ پھر نیند کے دوران آپ کو لگتا ہے کچھ غلط ہو رہا ہے، میں ہل نہیں سکتا، وہ چیز یہاں پہنچ گئی۔‘
’ایسا لگتا ہے کہ ثقافت بھی اس کیفیت پر اثر انداز ہوتی ہے۔‘