اچھے برےلوگوں میں زندگی گزرتی جا رہی ہے بہت اعلیٰ درجے کے انسانوں سے ملاقاتیں بھی رہیں اور ان سے بھی جو انسانی اقدار پر پورا نہیں اترتے تھے تاہم انسانوں کو پرکھنے کا میرا معیار قدرے جداگانہ تھا، انسان خطا کا پتلا ہے اور چونکہ میں بھی خود کو رعایتی نمبروں سے انسان ہی سمجھتا ہوں چنانچہ جہاں اپنی خطائوں پرشرمندہ ہوتا ہوں وہاں دوسروں کی خطائوں پر دوسروں کو بھی شرمندہ ہونے کا موقع دیتا ہوں، بس ایک چیز ایسی ہے جس پر مجھ سے کمپرومائز نہیں ہوتا، وہ دولت کے حصول کے لئے تمام اخلاقی حدود پامال کرنا ہے، میں نے بڑے بڑے نمازی، حاجی ،پارسا دیکھے ہیں جو اندھیرے میں بھی کسی کونے کھدرے میں پڑا کوئی سکہ دیکھ لیتے ہیں اور اس پر جھپٹ پڑتے ہیں، ان کی ہوس کبھی اختتام کو نہیں پہنچتی، وہ زندگی کے آخری سانس تک اپنا بینک بیلنس چیک کرتے رہتے ہیں، ہر انسان کے دل میں زندگی کی بنیادی ضروریات بلکہ آسائش والی زندگی گزارنے کے وسائل کی خواہش ہوتی ہے اور میں نے ایسے ہزاروں افراد دیکھے ہیں جنہوں نے اپنا پورا بچپن شدید غربت میں گزارا، جوانی کے کئی برس بھی کسمپرسی کی حالت میں گزرے گو انہوں نے مسلسل جدوجہد سے وہ سب کچھ حاصل کرلیا اور امانت اور دیانت پر کسی کمپرومائز کے بغیر حاصل کیا، جو ان کی خواہش بھی تھی اور جو ان کا حق بھی تھا۔ اس کے برعکس ہمارے درمیان ایسے لوگ بھی ہیں جو گندی امارت کے حصول کے لئے گندے سے گنداکام بھی کر گزرتے ہیں بلکہ اس کی تلاش میں رہتے ہیں ،وہ زندگی کا یہ سفر پورے اطمینان اور ضمیر کی ہلکی سی خلش کے بغیر طے کرلیتے ہیں، میں یہاں یہ نہیں کہوں گا کہ ان میں سے کئی ایک بیماری کے عالم میں بستر پر ایڑیاں رگڑتے رگڑتے موت کی خواہش کرتے ہیں،مگر ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوتی کیونکہ اس صورت حال سے بہت نیک لوگوں کو بھی میں نے گزرتے دیکھا ہے، میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ قبر میں وہ خالی ہاتھ جاتے ہیں کہ وہاں کون سے مہنگے شاپنگ مال ہوتے ہیں کہ خالی جیب ہونے کی وجہ سے وہ وہاں شاپنگ نہیں کرسکیں گے۔ میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ انہیں دوزخ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں میں پھینک دیا جائے گا کہ اس کا حل علماء نے انہیں عبادات کے تواتر میں بتایا ہوتا ہے۔ وہ اپنی گندی امارت کے ساتھ ساری زندگی بسر کرتے ہیں اور یہ شعر گنگناتے رہتے ہیں؎
اب تو آرام سے گزرتی ہے
عاقبت کی خبر خدا جانے
ویسے تو زندگی کے ہر شعبہ میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں، تاجر بھی ہیں، علماء بھی ہیں، جنرلز بھی ہیں، وکلاء بھی ہیں، صحافی بھی ہیں، سیاست دان بھی ہیں، عدلیہ بھی ہے، ان سب کی کرپشن ملک کی بنیادیں ہلا دیتی ہے، ان میں سے کسی ایک کی ہوس زر بھی تباہی اور بربادی میں سے کسی دوسرے سے کم نہیں، البتہ بیوروکریسی کی کرپشن کے نقصانات کچھ اور نوعیت کے ہیں، انہوں نے ملک کا نظم و نسق چلانا ہوتا ہے، انہیں اوپرسے احکامات ملتے ہیں۔ ان میں ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے پس پردہ کرپشن کے عزائم ہوتےہیں، یہ عزائم اگر پورے کردیئے جائیں تو حکم دینے والے اور حکم کی تعمیل کرنے والے دونوں کے پو بارہ ہوتے ہیں، لیکن مسلسل ایسے احکامات سے آہستہ آہستہ ملک کی چولیں ہل جاتی ہیں تاہم ماضی میں ایسے بیوروکریٹ گزرے ہیں جنہوں نے انتہائی صاف ستھری زندگی گزاری۔ ان میں سے کچھ نام جو مجھے یاد ہیں ان میں مختار مسعود، منظور الٰہی شیخ، قدرت اللہ شہاب (کچھ حوالوں سے متنازعہ بھی ہیں)مہر جیون خان، اے زیڈ کےشیر دل، ڈاکٹر صفدر محمود اور ان کے علاوہ بہت سے دوسرے بیوروکریٹ ہماری بیوروکریسی کے سر کا تاج ہیں، آج جو بیورو کریٹ ہمارے درمیان موجود ہیں اور ریٹائرڈ زندگی گزارنے کے باوجود دلوں میں ان کے لئے بے پایاں محبت پائی جاتی ہے ان میں سے مجھے مسعود پرویز، تسنیم نورانی، طارق محمود اور مرتضیٰ برلاس کے نام یاد آ رہے ہیں۔ اس حوالے سے دو وضاحتیں ضروری ہیں، ایک یہ کہ قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں ایک سے بڑھ کر ایک دیانت دار اور قابل بیوروکریٹ گزرے جنہوں نے ایک نئے ملک کی بنیاد مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کیا، دوسرے یہ کہ جن بیورو کریٹس کے نام میں نے لئے ہیں ان میں سے بیشتر یا تو اعلیٰ درجے کے ادیب تھے یا ادب سے گہرا شغف رکھتے تھے، گویا ادب ذہنی عیاشی کا نام نہیں بلکہ یہ کردار سازی بھی کرتا ہے، ایک وضاحت یہ کہ ماضی اور حال کے تمام قابل قدر بیورو کریٹس کے نام میں نہیں لکھ سکا، اس کی وجہ محض کمزور حافظہ ہے۔آخر میں ایک کرپٹ افسر کی حق گوئی! ایک دن ملاقات ہوئی تو کہنے لگا ’’قاسمی صاحب رشوت لیتے لیتے کمر دہری ہو گئی ہے، مگر خواہشات پوری ہی نہیں ہو رہیں‘‘۔