منگل کی رات سونے سے قبل چند متحرک دوستوں سے گفتگو کی بدولت یہ سوچنے کو مجبور ہوا کہ عید کی تعطیلات ختم ہوتے ہی سپریم کورٹ سے سنسنی خیز خبریں آنا شروع ہوجائیں گی۔حال ہی میں جو آڈیو لیکس منظر عام پر آئی ہیں وہ میرے ساتھیوں کی اطلاع اور تجزیے کے مطابق ہماری اعلیٰ ترین عدالت کے مدارالمہام کو اشتعال دلانے کا باعث ہوئی ہیں۔پنجاب اسمبلی کے انتخابات 14مئی کو ہر صورت یقینی بنانے کا حکم وہ پہلے ہی دے چکے ہیں۔ حکومت اور الیکشن کمیشن مذکورہ حکم کی تعمیل کو لیکن رضا مند نظر نہیں آرہے۔ اس ضمن میں جو لیت ولعل برتی جارہی ہے نظر بظاہر ”توہین عدالت“ کا ارتکاب ٹھہرائی جاسکتی ہے۔ایسے ماحول میں کچھ آڈیوٹیپس کا منظر عام پر آنا غضب کو مزید اکسانے کا جواز بھی بن سکتا ہے۔
ذاتی طورپر اگرچہ میں پنجاب اسمبلی کے انتخاب کے حوالے سے روایتی اور سوشل میڈیا پر مچائے کہرام سے قطعی لاتعلق رہا ہوں۔بے نیازی کا واحد سبب وہ حقائق ہیں جو دو سے زیادہ دہائیوں کے دوران ”خبر“ کی تلاش میں خجل خواری کے طفیل دریافت کئے تھے۔اقتدار کے کھیل کا مشاہدہ متقاضی ہے کہ وطن عزیز میں قوت واختیار کے حتمی مالکوں کی رضا کا پتہ لگایا جائے۔اس تناظر میں غور کرتے ہوئے جبلی طورپر نتیجہ یہ اخذ کیا کہ قوت واختیار کے حتمی مالک بھی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن دیکھنا چاہ رہے ہیں۔ آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے میں تازہ مینڈیٹ کے ساتھ قائم ہوئی حکومت ان کی دانست میں وفاقی حکومت کو چین سے بیٹھنے نہیں دے گی۔اس کے ہوتے ہوئے قومی اسمبلی کے انتخابات بھی تقریباََ یک طرفہ ہوجائیں گے۔ایسے حالات میں فقط چیف جسٹس اور ان کے وفادار ساتھی ہی ”آئین پر عملداری“ کو اپنے تئیں ممکن نہیں بناسکتے۔یہ سوچتے ہوئے 14مئی کے حوالے سے شعیب بن عزیز کا وہ شعر پڑھ کر جندچھڑاتا رہا جو شب گزرنے کے باوجود دن نکلتا نہیں دیکھتا۔
اقتدار واختیار کی بنیادی حرکیات پر غور کئے بغیر روایتی اور سوشل میڈیا پر چھائے ”ذہن ساز“ مگر اپنی پسند کی توجیہات پھیپھڑوں کا زور لگاکر لوگوں کے روبرو رکھتے رہے۔ عید کے دن کا آغاز ہوتے ہی منظر عام پر آئی آڈیو لیکس نے انہیں چسکہ فروشی کے لئے وافر مواد بھی فراہم کردیا۔ ”ذہن سازوں“ کا ایک گروہ گھریلو خواتین کی نجی گفتگو کی تشہیر سے تلملائے ہوئے ہے۔ سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ تحریری آئین کے تحت چلائے پاکستان میں ”شہریوں“ کے ”بنیادی حقوق“کو بے دردی سے نظرانداز کرتے ہوئے لوگوں کی نجی زندگی میں تانک جھانک اور جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ریکارڈ ہوئی گفتگو منظر عام پر لانے کا ذمہ دار ”کون“ ہے۔مذکورہ سوالات کی گونج وہ مصرع یاد دلاتی ہے جو ”سب سمجھتے ہیں اور چپ ہیں“والی حقیقت بیان کرتا ہے۔
نجی زندگیوں میں دراندازی سے مشتعل ہوئے ”ذہن سازوں“ کے برعکس دوسری طرف کے لوگ حالیہ آڈیو لیکس کو عدالتوں کی مبینہ سہولت کاری سے ہوئی ”سیاسی انجینئرنگ“ کے ”ٹھوس ثبوت“ بناکر پیش کررہے ہیں۔ ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے میں ”اخلاقی اور اصولی بنیادوں“ پر مچائے اس کہرام میں حصہ ڈالنے کو آمادہ نہیں۔ ”اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں “ سوچتے ہوئے دل جلانے سے محفوظ رہتا ہوں۔
میرے ذہن میں آڈیو لیکس سے ہٹ کر ایک سوال مگر کئی دنوں سے اٹکا ہوا ہے۔بہت غور اور مختلف ”باخبر“ تصور ہوتے لوگوں سے گفتگو کے باوجود اس کا تسلی بخش جواب ڈھونڈنے میں ناکام رہا۔پاکستان ہی کا ایک خطہ آزادکشمیر بھی ہے۔”سیم پیج“ کے دنوں میں وہاں انتخاب ہوئے تھے جن کے نتیجے میں تحریک انصاف وہاں کی قانون ساز اسمبلی میں بھاری بھر کم اکثریت سے فیض یاب ہوئی تھی۔عمران خان صاحب نے نیازی نام کے نسبتاََ غیر معروف شخص کو وزیر اعظم نامزد کرتے ہوئے اپنے مداحوں اور ناقدین کو ویسے ہی چونکا دیا جو عثمان بزدارکی بطور وزیر اعلیٰ پنجاب نامزدگی سے رونما ہوا تھا۔موصوف مگر چل نہیں پائے ۔بالآخر ”ہما“سردار تنویر الیاس کے سرپر بٹھادی گئی۔کئی مہینوں تک یہ صاحب نظام سقہ کی طرح اقتدار سے لطف اندوز ہوتے رہے۔رواں مہینے کے آغاز میں تاہم انہوں نے وہاں کی عدالت عالیہ کو ”اچانک“ اشتعال دلادیا۔ ”توہین عدالت“ کے مرتکب ٹھہرائے جانے کے بعد وزارت عظمیٰ سے اسی انداز میں فارغ ہوئے جو سپریم کورٹ آف پاکستان کے ہاتھوں یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کی برطرفی کا سبب ہوا تھا۔
اپنے نامزد کردہ وزیر اعظم کی فراغت نے مگر عمران خان صاحب کو پریشان نہیں کیا۔ بے اعتنائی کی وجہ غالباََ یہ خواہش ہوگی کہ شہباز شریف بھی ہمارے سپریم کورٹ کے ہاتھوں سردار تنویر الیاس جیسے انجام سے دوچار ہوں۔بہرحال وجہ جو بھی رہی ہو ان کی جماعت کی ”اکثریت“اپنی جگہ موجود تھی۔اس کے ہوتے ہوئے قائد تحریک انصاف آزادکشمیر اسمبلی کے کسی اور رکن کو نامزد کرکے بآسانی وزیر اعظم بنواسکتے تھے۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔سردار تنویر الیاس اپنے منصب سے فارغ ہوئے تو تحریک انصاف کی ”اکثریت“ پھوٹ کی زد میں آگئی۔اس پھوٹ کے ابتدائی ذمہ دار وہاں کے صدر ریاست بیرسٹرسلطان محمود نظر آئے۔وہ ”اپنے ”دھڑے“ سے کسی شخص کو آگے بڑھانا چاہ رہے تھے۔خبر یہ بھی چلی کہ ان کے نامزد کردہ شخص کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) کے اراکین ”متفقہ“ وزیر اعظم بنانے کو آمادہ ہیں۔
عمران خان آزادکشمیر اسمبلی میں ابھری پھوٹ سے مگر لاتعلق رہے۔اسد قیصراور پرویز خٹک کے ذریعے معاملہ سنبھالنے کی نیم دلانہ کوشش کی۔توجہ بیرسٹر سلطان محمود کی لگائی گیم پر مرکوز تھی تو اچانک چودھری انوار الحق نامی صاحب منظر عام پر آگئے۔ تحریک انصاف کے بیشتر اراکین نے انہیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) کی معاونت سے ”متفقہ“ وزیر اعظم منتخب کرلیا۔ تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے 30سے زیادہ اراکین میں سے اب فقط سات افراد ہی زمان پارک پہنچ کر عمران خان سے وفاداری کے اظہار کو آمادہ ہوئے ہیں۔
روایتی اور سوشل میڈیا پر توجہ مرکوز رکھوں تو پیغام یہ ملتا ہے کہ اقتدار سے فارغ ہونے کے تقریباََ ایک سال بعد عمران خان صاحب پاکستان کے مقبول ترین سیاستدان بن چکے ہیں۔جب بھی انتخاب ہوئے تو ان کی بدولت دو تہائی اکثریت سے وزارت عظمیٰ کے منصب پر لوٹ سکتے ہیں۔مذکورہ تاثر ذہن میں رکھوں تو میرے جھکی ذہن میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ عمران خان صاحب کی بے پناہ مقبولیت کے نظر آنے والے موجودہ موسم میں ان کی جانب سے دی ٹکٹوں کی بدولت آزادکشمیر اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے ا راکین کی اکثریت نے آزادکشمیر کا نیا وزیر اعظم منتخب کرنے کے لئے عمران خان صاحب کی ہدایت سے رجوع کیوں نہیں کیا۔بے وفائی دکھتی ”خودمختاری“ کیوں اختیار کرلی۔
عمران خان کی آزادکشمیر میں فراہم کردہ ”اکثریت“ کے ساتھ جو ہوا اس پر غور کرتے ہوئے سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) بھی نئے وزیر اعظم کا غیر مشروط بنیادوں پر ساتھ دینے کو رضا مند کیوں ہوگئی۔دیکھنے کو ہمارے سیاستدان اندھی نفرت وعقیدت میں بٹ چکے ہیں۔پنجاب میں مسلم لیگ (نون) اور تحریک انصاف کے مابین تخت یا تختہ والی جنگ جاری ہے۔ اس جنگ میں مصروف فریق ایک دوسرے سے روایتی سماجی رابطے برقرار رکھنے کے قابل بھی نظر نہیں آرہے۔ آزادکشمیر میں تاہم سب جماعتیں شیروشکر کیسے ہوگئیں۔وہ کون ہے جس نے انہیں ایک ہی گھاٹ پر پانی پینے کو رضا مند کیا۔ کاش مجھے مذکورہ سوالات کے تشفی بخش جواب مل جائیں۔