میرے خیال میں انسانی جسم میں سب سے زیادہ محنتی عضو انسانی دماغ ہے اور انسانیت کے لئے سب سے زیادہ خطرناک اور سب سے زیادہ مفید بھی یہی عضو ہے۔ انسانی دماغ دن اور رات کے چوبیس گھنٹوں میں جاگتا رہتا ہے۔ آپ نماز کے دوران اپنے اللّٰہ سے رابطے کی کوشش میں ہوتے ہیں لیکن دماغ ان لمحوں میں بھی آپ کو کہیں کا کہیں لے جاتا ہے۔ یہ دماغ تو اتنا محنتی اور شاطر ہے کہ جب آپ سوئے بھی ہوتے ہیں تو یہ اس وقت بھی جاگ رہا ہوتا ہے اور آپ کو آپ کی مرضی کے خواب دکھا رہا ہوتا ہے!
میں نے کالم کے شروع میں عرض کیا تھا کہ انسانی دماغ محنتی ہونے کے علاوہ انسانیت کیلئے بےحد خطرناک اور بےحد مفید بھی ہے۔ اس کی افادیت اُن ایجادات کی صورت میں نظر آتی ہے جن کے نتیجے میں آج انسان کو بےپناہ سہولتیں ملی ہیں، میں اُن ایجادات کی تفصیل میں نہیں جارہا اور اُن جدید نظریات کا حوالہ بھی نہیں دے رہا جن کے سبب ہمارا سیارہ اور اِس میں بسنے والے ہم لوگ کہیں کے کہیں پہنچ گئے ہیں۔ میڈیسن کے علاوہ سرجری کے شعبے میں انسانی دماغ نے جو کارنامے انجام دیے ہیں اُن پر بھی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ آج بہت سی بیماریوں کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا ہے اور بےشمار ایسی ادویات ایجاد ہوئی ہیں اور سرجری کے وہ کرشمے دکھائے گئے ہیں کہ انسان کو بہت سے دکھوں سے نجات مل گئی ہے۔ اِس کے علاوہ یہ انسانی ذہن ہی ہے جو عبدالستار ایدھی اور مدر ٹریسا ایسے افراد کو جنم دیتا ہے۔ انبیائے کرامؑ اور صوفیائے عظامؒ ہماری اندر کی دنیا کو روشن کرتے ہیں اور ہمارے دل سے نفرت اور کدورت کے اندھیرے دور کرنے میں لگے رہتے ہیں، ادب، موسیقی، مصوری اور دوسرے فنونِ لطیفہ میں انسانی ذہن اپنی بہترین صورت میں کار فرما نظر آتا ہے مگر یہ تصویر کا ایک رخ ہے اور یہ روشن رخ بھی میں نے ابھی پورا نہیں دکھایا۔ تاہم انسانی ذہن جہاں انسان کا بہترین دوست ثابت ہوتا ہے وہاں وہ بدترین دشمن کی صورت میں بھی سامنے آتا ہے۔ آج کی ساری انسانیت کش ایجادات بھی سب انسانی ذہن کی پیداوار ہیں۔ دوسری جنگ ِ عظیم میں کروڑوں لوگ اِنہی ایجادات کے سبب لقمۂ اجل بنے۔ طاقتور طبقے کمزوروں کا استحصال کرتے ہیں اور استحصالیوں کی سرپرستی بھی۔ اسرائیل کی حرام زدگیوں کا محافظ کون ہے؟ آج بےگناہ مردوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہیں کیا جارہا بلکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ کشمیر میں انڈیا نے آٹھ لاکھ سے زائد فوج بٹھائی ہوئی ہے اور برس ہا برس سے کشمیریوں کا قتلِ عام جاری ہے۔ انسانی ذہن طالبان کو کیا پٹیاں پڑھاتا ہے کہ وہ بےگناہوں کو شہید کرتے ہیں اور اِس کے عوض ستر ستر حوروں کی امید دل میں لیے پھرتے ہیں۔ مسلمانوں کو مسلمانوں سے کون لڑاتا ہے، یہ فتنہ و فساد کون پیدا کرتا ہے، یہ جعلی پیر کہاں سے آئے ہیں، سب کے سب انسانی ذہن کے منفی کردار ہیں۔ خواہشوں کا غلبہ انسان کو انسانیت کی معراج سے ذلالت کی پاتال تک دھکیل دیتا ہے۔ یہ انسانی ذہن کی کرشمہ سازیاں ہیں جو انسان کو کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف کھینچ کر لے جاتی ہیں تاہم بسا اوقات انسانی ذہن میں یہ دونوں لہریں ایک ساتھ بھی چلتی نظر آتی ہیں!
انسان کے دماغ کے بارے میں سائنسدانوں کا کہنا کہ اگر اسے کمپیوٹر فارم میں بنایا جائے تو اس کے لئے لاکھوں مربع میل جگہ درکار ہوگی یہی وجہ ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود میڈیکل ریسرچر ابھی تک اس کے صرف دس فیصد حصے کو تھوڑا بہت سمجھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ پاکستان میں ستر فیصد لوگ دماغی امراض میں مبتلا ہیں اور یہ اضافہ دہشت گردوں کی دہشت گردی اور الیکٹرونک میڈیا کی میڈیا گردی کی وجہ سے ہوا ہے۔ اِن ستر فیصد میں زیادہ تعداد معمولی قسم کے ذہنی امراض میں مبتلا ہے لیکن ایک تعداد بہرحال ایسی بھی ہے جو تشویشناک کے زمرے میں آتی ہے۔ اِس سے زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ اُن کا علاج کرانے کے بجائے ہم اُنہیں ’’جادو ٹونے کا توڑ کرنے‘‘ والوں کے پاس لے جاتے ہیں حالانکہ اِن کا علاج بہت آسان ہوتا ہے اور اس ضمن میں کوئی بھی اچھا سائی کیٹرسٹ معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے میں اپنے موضوع سے ہٹ رہا ہوں مگر نہیں کیونکہ مجھے انسانی ذہن کی اس عیاری اور مکاری کا ذکر کرنا ہے جو مریض کو یہ یقین دلاتی رہتی ہے کہ تم بالکل نارمل ہو اور اس کا زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ وہ مریض دیکھنے میں بھی نارمل ہی لگتا ہے لیکن اس کا دماغ شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے۔ انسانی تاریخ میں ایسے بہت سے مریض گزرے ہیں جو خود تو عبرتناک انجام سے دو چار ہوئے ہی مگر اُنہوں نے ایک مخصوص وقت میں انسانیت کو بہت نقصان پہنچایا۔
سو آئیں ہم انسانی تاریخ کے اُن سب محسنوں کا شکریہ ادا کریں جنہوں نے ہمیں جسمانی آسودگیاں بخشیں اور اُن سب محسنوں کے لئے میں سراپا سپاس ہوں جو ہمیں روحانی آسودگیوں سے مالا مال کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم یہ ذاتی جائزہ بھی لیں کہ ہمارا ذہن ہمیں منفی راہوں پر لے کر جارہا ہے یا وہ ہم سے کوئی مثبت کام لے رہا ہے؟ حضرت معین الدین چشتی ؒ سے ایک قول منسوب ہے جو میرے دل میں اترا ہوا ہے ا س کے مطابق ’’خود پرستی اور نفس پرستی ہی دراصل بت پرستی ہے اور اسی کو ترک کرنے کے بعد خدا پرستی کی منزل شروع ہوتی ہے‘‘۔ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے میرے دوستو! تم اگر خدا پرستی کی منزل تک پہنچنے کے قائل نہیں بھی ہو تو بھی اس خود پرستی اور نفس پرستی کے شکنجے سے نکل جائو ورنہ یہ بیماریاں ایک دن تمہیں ہلاک کردیں گی۔