گزشتہ ہفتے کراچی میں طویل علالت کے بعد آنسہ نور جہاں انتقال کر گئیں اس سانحہ ارتحال پر پوری قوم افسردہ ہے۔چڑیا گھر کی اس کئی من فربہ ہتھنی کا نام نور جہاں رکھا گیا تھا یہ جسارت ملکہ ترنم نور جہاں کی زندگی میں ممکن نہیں تھی ۔اب طے پا گیا ہے کہ اس کی تدفین کراچی کے سفاری پارک میں ہو گی ملکہ ترنم نور جہاں کا مرقدبھی کراچی ہی میں ہے مجھے علم نہیں کہ اس ہتھنی کی قبر پر کتبہ بھی نصب ہو گا قبر پختہ ہو گی یا کچی اس پر سنگ مرمر کی چھت بھی تعمیر کی جائے گی یا اسے دھوپ ،لُو اور بارش کے تھپیڑوں کے سپرد کر دیا جائے گا ؟یہ امور چڑیا گھر سے وابستہ اس کے لواحقین کا مسئلہ ہیں ،مجھے اگر کوئی خدشہ ہے تو صرف یہ کہ اگر کسی ناواقف نے وہاں فاتحہ پڑھ کر اپنی کسی دلی مراد کیلئے دعا کی اور اتفاقاً وہ دعا قبول بھی ہو گئی تو اس کے بعد چڑیا گھر والوں کی سب ذمہ داریاں ختم ہو جائیں گی کچھ عرصے بعد کسی کو یاد ہی نہیں رہنا کہ یہاں ہتھنی مدفون ہے چنانچہ عقیدت مند عالی شان مقبرہ تعمیر کریں گے ،اس مرقد کو ’’اماں جی ‘‘ کی زیارت گاہ قرار دیا جائے گا سو ’’اماں جی‘‘کی لحد پر اپنی دلی مرادیں مانگنے والوں کا ہجوم ہو گا سالانہ عرس کی سہ روزہ تقریبات بھی منعقد ہوں گی دیگیں چڑھائی جائیں گی ۔
’’مرقدمبارک‘‘ پر سبز چادریں بھی تہہ در تہہ نظر آئیں گی لمبے بالوں اور گھٹنوں تک سجے سبز چولے پہنے ملنگ دھمال ڈال رہے ہونگے لنگر بھی تقسیم کیا جائے گا اور یوں وہ سب کچھ ہونے کا امکان ہے جو بزرگ مشہور والوں کی قبروں پر ہوتا ہے یہاں تو پھر بھی ایک جاندار قبر میں دفن ہو گا جبکہ لاہور میں ایسےمزار بھی موجود ہیں جن میں سرے سے کوئی دفن نہیں چنانچہ ایسے مزاروں کو ’’غائب پیر ‘‘ کا نام دے دیا گیا ہے۔ اس نوع کے خدشات کی وجہ سے نور جہاں کے لواحقین یعنی چڑیا گھر کی انتظامیہ کو میرا مشورہ ہے کہ وہ آنسہ نور جہاں کی قبر نہ بنائیں بس اسے دفن کرکے زمین ہموار کر دیں، تاہم ایک خدشہ اس میں بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ اگر پبلک کے علم میں یہ بات لائی گئی کہ اس ہموار زمین تلے ہتھنی المعروف نور جہاں دفن ہے تو کوئی پتہ نہیں کہ کوئی اس پر قدم رکھتا ہوا گزرے اور شام کو اتفاقاً بیمار ہو جائے تو بھی نور جہاں کی ولایت پکی ہے اس کے بعد زمین کا اتنا حصہ ایک بار پھر مقدس قرار پائے گا اور ’’اماں جی ‘‘ سے بلائیں دور کرنے کی دعائیں مانگنے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
ان باتوں سے قطع نظر یہ ہتھنی بے حد خوش قسمت ہے اس کے علاج معالجہ کےلئے یورپ کے صف اول کے ’’ڈنگر ڈاکٹر ‘‘ بلائے گئے بہت مہنگی ادویات استعمال کی گئیں اس کی خوراک کا خاص خیال رکھا گیا مگر اللہ کے کاموں میں کون دخل دے سکتا ہے۔ موت کا ایک دن معین ہے اس کے باوجود ہتھنی کے آخری سانسوں تک لواحقین اور معالجوں کو رات بھر نیند نہ آئی۔جب سے اس ’’عفیفہ‘‘ کے حوالے سے خبریں سامنے آئی ہیں اسپتالوں کے سامنے علاج معالجہ کی ابتدائی سہولتوں کیلئے قطاروں میں کھڑے متعدد پاکستانیوں نے چڑیا گھر کے سامنے قطاریں بنالی ہیں اور ضد کر رہے ہیں کہ انہیں چڑیا گھر میں رکھا جائے وہ یہ درخواست منظور ہونے کے بعد تحریری طور پر یہ وعدہ کرنے کو تیار ہیں کہ وہ چڑیا گھر آنے والے بچوں کو اپنی پیٹھ پر سوار کرکے چڑیا گھر کا چکر بھی لگائیں گے۔ صبح وشام اپنی روٹین کی خوراک کی بجائے وہ خوراک بھی بخوشی کھائیں گے جو مرحومہ ومغفورہ ہتھنی کھایا کرتی تھیں بس اس حوالے سے شرط صرف یہ ہے کہ ان کا علاج معالجہ بھی وی وی آئی پی لیول کا ہو بالکل ویسا جیسا مرحومہ کا ہوا اس کے بعد زندہ رہیں یا فوت ہو جائیں انہیں کوئی شکایت نہیں ہو گی کہ دل میں یہ خلش تو نہیں رہے گی کہ علاج کے بغیر فوت ہو گئے ۔
میں ہتھنی کے سانحہ کے بعد گزشتہ روز لاہور کے چڑیا گھر گیا میں نے دیکھا کہ مجھے دیکھتے ہی سارے بندر، لگڑبگڑ، ہرن، چیتے، شیر،دریائی گھوڑے آنکھیں بند کرکے زمین پر لیٹ گئے اور لمبے لمبے سانس لینے لگے ایسے لگتا تھا جیسے قریب المرگ ہیں مجھے سخت پریشانی ہوئی میں چڑیا گھر کے منیجر کے پاس گیا اور کہا آپ دیکھیں یہ جانور قریب المرگ ہیں اور ان کا پرسان حال کوئی نہیں ۔منیجر نے جواب میں کہا سر یہ سب ٹھیک ٹھاک ہیں اور قریب المرگ ہونے کا یہ بہانہ اکثر بناتے ہیں ،میں نے ایک بندر کو اعتماد میں لے کر اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ یہ سب بغیر کسی جرم کے قید میں رہنے کے خلاف احتجاج کرتے رہتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے پاکستانیوں کی طرح انہیں بھی ایک آزاد شہری کے طور پر ٹریٹ کیا جائے اور اس قید سے رہائی دی جائے ۔منیجر کی زبانی یہ بات سن کر مجھے ان حریت پسند جانوروں پر بہت پیار آیا کاش میرے بس میں ہوتا تو میں ان کو آزادی دلاتا مگر جب یہ اپنی آنکھوں سے آزادی کی نوعیت سے آگاہ ہوتے تو اگلے ہی روز آزادی کا تحفہ یہ کہہ کر واپس کر دیتے کہ قید کے دوران انہیں مفت رہائش، علاج معالجہ اور خورونوش کی سہولتیں میسر تھیں باہر تو لوگوں کی زندگی اجیرن ہے چنانچہ انہیں پہلی فرصت میں واپس چڑیا گھر بھیج دیا جائے ۔
اب ان جانوروں کو کون سمجھائے کہ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے۔