اس ہفتے کے آغاز میں اس کالم کے ذریعے ’’تیسری عالمی جنگ شروع ہوگئی‘‘ کا دعویٰ کرنے والوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ فی الحال ’’بنکاک کے شعلے‘‘ مارکہ کسی فلم کا انتظار نہ کریں۔امریکہ اور ایران دونوں ہی کو اپنی محدودات کا بخوبی ادراک ہے۔وہ ایک دوسرے کے ساتھ براہِ راست جنگ سے گریز کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ Posturingکا کھیل البتہ جاری رہے گا اور کئی حوالوں سے یہ کھیل براہِ راست جنگ سے کہیں زیادہ جان لیوا ہوتا ہے۔قاسم سلیمانی کو گزشتہ کئی مہینوں سے ایرانی حکومت ایک اساطیری کمانڈر کے طورپر پیش کررہی تھی۔اس کے بارے میں دستاویزی فلمیں بنائی گئیں۔ خصوصی نغمات تیار ہوئے۔بھاری بھر کم سرمایہ کاری سے ایک عجائب گھر بھی بنایا گیا جہاں ایران کے ’’پاسدارانِ انقلاب‘‘ اور خاص کر سلیمانی کے ’’القدس بریگیڈ‘‘ کی تاریخ کو ابلاغ کے جدید ترین ذرائع کے ذریعے انتہائی مؤثر انداز میں Display and Projectکیا گیا۔’’پاسدارانِ انقلاب‘‘ اور ’’القدس بریگیڈ‘‘ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کیونکہ گزشتہ کئی مہینوں سے ایران کے شہری متوسط طبقات مہنگائی اور بے روزگاری سے پریشان ہوکر یہ سوالات اٹھانا شروع ہوگئے تھے کہ ان کی حکومت ایران کے معاشی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے عراق،لبنان اور شام جیسے ممالک میں اپنا اثرونفوذ بڑھانے پر اپنی توانائیاں کیوں صرف کررہی ہے۔ان سوالات کے جواب میں ایرانی حکومت کے ماہرین ابلاغ نے کمال مہارت سے ایرانی ’’تاریخ‘‘ کو یاد دلانا شروع کردیا۔قبل از مسیح ایام کے دوران ایران سے یروشلم تک پھیلی Persian Empireکا مسلسل ذکر جس کا اثرورسوخ وسطی ایشیاء کے آرمینیاسے تاجکستان تک بھی بھرپور اندازمیں کئی صدیوں تک موجود رہا۔سوال جب ’’قومی تفخر‘‘ کی بابت اٹھادیا جائے تو ایرانی شدید ترین باہمی اختلافات کو بھلاکر نہایت جذباتی انداز میں یکسو ہوجاتے ہیں۔بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف مگر مظاہرے شروع ہوگئے۔ان مظاہروں پر متشدد ریاستی جبر سے قابو پایا گیا۔چند دنوں کے لئے انٹرنیٹ بھی بند کردیاگیا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ایرانی عوام کو انٹرنیٹ تک محدود رسائی میسر ہے۔ٹویٹر کی وہاں اجازت نہیں۔اس سے ملتا ایک Appٹیلی گرام ہے جس کی کڑی نگرانی ہوتی ہے۔ٹرمپ انتظامیہ نے مہنگائی کے خلاف پھوٹے مظاہروں کی مگر عاجلانہ تعبیر کی۔ اسے گماں ہوا ہے کہ شاید ایرانی عوام کی اکثریت اپنے ملک میں Regime Changeکے لئے تیار ہوگئی ہے۔صدر ٹرمپ سمیت امریکی انتظامیہ کے اہم عہدے داروں نے ایسے بیانات دئیے جو ’’گرتی ہوئی دیوار‘‘ کو دھکا دینے کو اُکساتے سنائی دئیے۔دریں اثناء لبنان اور عراق میں بھی فقط مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ عراق میں بالخصوص امریکہ کے ساتھ ایران کو بھی اس ملک پر نازل معاشی مشکلات کا باعث ٹھہرایا گیا۔بصرہ میں ایرانی سفارت خانے کی ذیلی عمارت کو جلادیا گیا۔امریکی میڈیا نے بنیادی طورپر مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف عراق میں ہوئے ان مظاہروں کو ’’ایران کے خلاف بغاوت‘‘ کے طور پر پراجیکٹ کیا۔عراق کو ایران کا ’’ویت نام‘‘ بنانے کے خواب دکھائے جانے لگے۔عراق میں اُبھرے جذبات کو ذہن میں رکھتے ہوئے قاسم سلیمانی کو اس ملک کی سرزمین پر ڈرون طیاروں کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔امریکی حکومت کو اس حملے کا ’’جواز‘‘ نظر بظاہر ان مظاہرین نے فراہم کیا جو آج سے چند دن قبل ایران کی “Proxy”ٹھہرائی تنظیم کے مرکز پر ہوئے امریکی فضائی حملے کے خلاف احتجاج کے لئے بغداد میں امریکی سفارت خانے کے باہر جمع ہوگئے۔اس احتجاج کے حوالے سے ریگولر اور سوشل میڈیا کے ذریعے جو تصاویر پھیلائی گئیں ان کے ذریعے امریکی عوام کو یہ باور کروانے کی کوشش ہوئی کہ بغداد میں مقیم اُن کے سفارت کاروں کو اسی انداز میں Hostageبنانے کی تیاری ہورہی ہے جو ایرانی انقلاب کے ابتدائی ایام کے دوران تہران میں قائم امریکی سفارت خانے پر ’’قبضے‘‘ کے دوران اپنایا گیا تھا۔صدر ٹرمپ پر تواتر سے یہ الزام لگاکہ وہ اپنے سفارت کاروں کے تحفظ پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اپنے خلاف کانگریس میں پیش ہوئی مواخذے کی تحریک کے بارے میں فکرمند ہے۔صبح اُٹھ کر اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف طنز بھرے ٹویٹس لکھنے کے بعد گالف کھیلنے چلاگیاہے۔ حقیقت جبکہ یہ تھی کہ وہ فلوریڈا میں اپنے فارم ہائوس اور گالف کلب میں بیٹھا فوجی اور قومی سلامتی کے ماہرین سے صلاح مشورے میں مصروف تھا۔ بغداد میں امریکی سفارت خانے کے ’’گھیرائو‘‘ کا ایران کو اس بریفنگ میں ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔اس حوالے سے اسے ’’سبق‘‘ سکھانے کے لئے کئی تجاویز پر غور ہوا۔ شنید ہے کہ قاسم سلیمانی کی ہلاکت ان تجاویز میں ساتویں نمبر پر تھی۔ ’’سبق سکھانے‘‘ کی اگرچہ ضرورت باقی نہیں رہی تھی کیونکہ بغداد میں امریکی سفارت خانے کے باہر جمع ہوئے مظاہرین چند اشتعال انگیزنعرے لگانے ،پتھر برسانے اور ایک دروازے کو آگ لگانے کے بعد اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئے تھے۔قاسم سلیمانی کی ڈرون حملوںکے ذریعے ہلاکت کا ان کی رخصت کے بعد ہرگز کوئی جواز نہیں تھا۔نجانے کیا سوچ کر یہ قدم اٹھالیا گیا۔امریکہ کو شاید یہ گماں تھا کہ سلیمانی جیسے اساطیری کمانڈر کی ہلاکت کی ’’پذیرائی‘‘ کے لئے عراق کے عوام امریکہ کو تھینک یو کہنے سڑکوںپر نکل آئیں گے۔ ایسامگر ہوا نہیں۔ عراق کے عوام کی اکثریت بلکہ خوف سے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئی۔ انہیں یہ فکر لاحق ہوگئی کہ امریکہ اور ایران ایک دوسرے کے ساتھ براہِ راست جنگ لڑنے کے بجائے ان کی سرزمین پر ایک دوسرے کو جنگی چالوں کے ذریعے نیچادکھانے کی تیاری کررہے ہیں۔عراق کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو بھی اندیشہ ہائے دورودراز کے بارے میں سوچنا پڑا۔تحمل کی دہائی شروع ہوگئی۔اس دہائی کا روس اور چین نے بردباری سے ساتھ دیا۔عالمی منڈی میں مگر ہلچل مچل گئی۔ تیل کی قیمت میں فوری اضافہ ہوا۔اس کی ترسیل اور عالمی منڈی میں فراہمی کے بارے میں عدم تحفظ کا احساس پھیلنے لگا۔ایرانی قیادت نے یقینا قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بارے میں تندوتیز بیانات دئیے۔ مشتعل ہوکر امریکہ پر جارحانہ فوجی حملے سے مگر گریز کیا۔قاسم سلیمانی کے جسد ِخاکی کو عراق سے ایران لانے میں تین دن لگائے۔ ایرانی عوام کی ایک ریکارڈ اور متاثر کن تعداداس کے تابوت کے ’’دیدار‘‘ کے لئے کئی شہروں میں سڑکوں پر اُمڈ آئی۔قاسم سلیمانی کی تدفین کے فوری بعد ایران نے عراق میں قائم ایک وسیع وعریض فوجی اڈے پر جو حقیقتاََ امریکی افواج کی رسد کو یقینی بنانے والا ایک بہت بڑاسٹور ہے میزائلوں کے ذریعے حملہ کردیا۔ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا کہ اس حملے کے نتیجے میں 80امریکی فوجی ہلاک ہوگئے ہیں۔سلیمانی کے قتل کا لہذا ’’منہ توڑ جواب‘‘ دے دیا گیا ہے۔ٹرمپ نے مگر ایک ٹویٹ کے ذریعے ’’ستے خیراں‘‘ کا حوصلہ دیا۔بعدازاں کیمروں کے روبرو آکر اس نے ایک بار پھر ایران کو سفارتی زبان میں مذاکرات کی دعوت دی۔ایران اور امریکہ ابھی تک جو رویہ اپنائے ہوئے ہیں وہ براہِ راست جنگ سے گریز کا عندیہ دے رہا ہے۔معاملہ مگر ہاتھوں سے لگائی گرہوں کو دانتوں سے کھولنے والا ہے۔مزید کئی روز تک ہمیں انتظار کرنا ہوگا کہ دل دہلادینے والی الجھنیں کیسے سلجھائی جائیں گی۔