تھانیدار صاحب! میرا نام احمد فراز ہے۔ اُمید تونہیں کہ آپ میرے نام سے واقف ہوں لیکن یاد دہانی کیلئے بتائے دیتا ہوں کہ دنیا مجھے ایک شاعر کی حیثیت سے جانتی ہے۔ آپ نے پچھلے دنوں اپنی بیگم کے روٹھ جانے پر اُسے جو مہدی حسن کی گائی ہوئی غزل’’رنجش ہی سہی ‘‘واٹس ایپ کی تھی وہ میری ہی لکھی ہوئی ہے۔گزارش ہے کہ آئے روز سوشل میڈیا پر میرے نام سے جو شاعری لگائی جارہی ہے اس سے میری روح بہت بے چین ہے۔یہ لوگ مجھ پر عجیب و غریب بہتان باندھ رہے ہیں۔ ایک صاحب نے ’فراز کا آخری شعر‘ کے نام سے یہ چول لکھ کر فیس بک پر لگا دی کہ’’میرے مرنے پہ نہ رونا اے میرے دوست…تم جوروئے تو میں ایک بار پھر مرجائوں گا‘‘۔تھانیدار صاحب ! یہ صرف ایک نمونہ پیش کیا ہے ورنہ ایسی ایسی شاعری مجھ سے منسوب کی جارہی ہے جسے پڑھ کر خون کے آنسو رونے کو جی چاہتاہے۔ کئی دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ شعر سن کر مجھے خود شک پڑ گیا کہ یہ لائن سنی سنی لگتی ہے‘ بعد میں پتا چلا کہ میرا نام استعمال کرکے ساتھ انڈین گانا جوڑ دیا گیا ہے۔میں وہ شاعرہوں جو اہل ِ ذوق کے دلوں میں زندہ ہوں لیکن پریشانی لاحق ہوگئی ہے کہ جس قسم کے شعر میرے نام پر پھیلائے جارہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگوں کو میرے اصل شعر بھول جائیں اور یہ شعر یاد رہ جائیں۔ آپ سے درخواست ہے کہ ایسے لوگوں کے خلاف کوئی ایسی دفعہ لگائیں کہ ان کی ضمانت پہلی پیشی میں خارج ہوجائے۔ساتھ ہی ان لوگوں کے خلاف بھی کارروائی کریں جو میرے نام سے اپنی کتابوںکے پیچھے فلیپ لکھ کر چھاپ رہے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں میں نے ایک نو آموزشاعر کی کتاب دیکھی جس کی بیک پر میرا فلیپ لکھا ہوا تھا جس میں تحریر تھا کہ ’’صفدر بمبانوالااور غالب کی شاعری میں اُنیس بیس کا فرق ہے اوریقیناً اُنیس سے مراد غالب ہے‘‘۔یہ لائنیں پڑھ کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ اگرچہ میں مشروبِ مغرب سے شغل کے دوران کچھ بےپروا سا ہوجاتا تھا لیکن اتنا بھی نہیں کہ صفدر بمبانوالا اور غالب کے درمیان سات ہزار کلومیٹر کا فرق نہ پہچان سکوںاور پھر یہ صفدر بمبانوالا ہے کون؟۔ معلوم ہوا کہ موصوف تانگے کے بم بناتے ہیں اور اسی نسبت سے ’بمبانوالا‘ تخلص کرتے ہیں۔
میں نے ایک دن خواب میں ان سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ حضور آپ نے کیوں میرے نام سے فلیپ لکھ کر اپنی کتاب کی پشت پر آویزاں کیامیں تو وفات پاچکا ہوں؟ ڈھٹائی سے بولے’’کسی زندہ شاعر کے نام سے ایسی لائن لکھ کر لگاتا تو خود میری وفات کے امکانات روشن ہو جانے تھے‘‘۔ تھانیدار صاحب!کچھ روز پہلے ایک لڑکے نے ایک لڑکی کو محبت نامہ لکھا اور اُس میں نہ صرف میرا شعر برباد کیا بلکہ اپنی محبوبہ کا نام بھی شامل کردیا’’اب کے ہم بچھڑے تو شکیلہ شایدکبھی خوابوں میں ملیں….جس طرح سوکھے ہوئے پھول معاشرتی علوم کی کتابوں میں ملیں‘‘۔ حضور! پہلی فرصت میں ان بدتہذیب لوگوں کو ہتھکڑی پہنائیے۔ان لوگوں نے صرف میرے کلام کو ہی تختہ مشق نہیں بنایا بلکہ فیض‘ اقبال اور بلھے شاہ کو بھی نہیں بخشا۔یہ کسی بھی شاعر کانام کسی اور شاعر کے ساتھ ملا کر ایک نیا شعر تخلیق کر رہے ہیں۔ میری کل علامہ اقبال سے بات ہورہی تھی ‘ وہ بھی شدید پریشان تھے کہ ان کے نام سے بھی عجیب وغریب چیزیں سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہیں۔ وہ بتا رہے تھے کہ کسی نے اپنے فیس بک پیج پر یہ بھی لکھ کر لگایا ہوا ہے کہ آج کل وہ علامہ اقبال کی کتاب’شہاب نامہ‘ بڑے شوق سے پڑھ رہے ہیں۔تھانیدار صاحب! یہ سلسلہ نہ روکا گیا تو کوئی بعید نہیں کہ کچھ عرصے بعد لوگ سعادت حسن منٹو کو بھی شاعر ماننے لگیں گے۔ مجھے یقین ہے آپ منٹو کو ضرور جانتے ہوں گے ‘ اگر نہیں جانتے تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ آپ صرف پولیس مقابلوں کے بل بوتے پر انسپکٹر بنے ہیں۔
میں آپ سے ایک بار پھر درخواست کرتا ہوں کہ فوری طور پر اِن ادب دشمنوں کے خلاف ایف آئی آر کاٹیں ‘ یہ سائبر کرائم نہیں لٹریچر کرائم کے مرتکب ہورہے ہیں۔میرے حوالے سے تو کئی لوگوں نے اپنی ایسی یادداشتیں بھی شیئر کی ہیں جو خود بھی مجھے یاد نہیں۔ ایک بیس سالہ نوجوان نے لکھا ہے کہ وہ نہ صرف ہر وقت میرے ساتھ رہا کرتا تھا بلکہ اس نے ایک دو دفعہ میرے اشعار کی تصحیح بھی کی۔ کاش میں اس بیس سالہ نوجوان کے نام میں سے ’بیس‘ نکال سکتا۔ آپ ہی بتائیے ایسے لوگوں سے میں کیسے نمٹوں؟ اندازہ لگائیے کہ فیس بک پر میرے ایک درجن سے زیادہ اکائونٹس بھی ایکٹو ہیں۔ اِ ن اکائونٹس کی رُو سے میں روزانہ اپنا ا سٹیٹس اپ ڈیٹ کرتا ہوں ۔ ایک اکائونٹ پر تو روزانہ میری تازہ غزل بھی اپ لوڈ ہورہی ہے جسے پڑھ کر کئی دفعہ ایسا لگتاہے جیسے کوئی میری روح کے ایصال عذاب کیلئے دل وجان سے کوشاں ہے۔ایسا کب تک ہوتارہے گا تھانیدار صاحب! کوئی تو ہو جو اس دونمبری کا تدارک کرے۔ خدا کیلئے مجھے اوردیگر سینئر شعراء کے کلام کو تباہ کرنے والوں کو پکڑیں تاکہ کوئی کسی شاعر کی مٹی پلید نہ کرسکے۔