پیر کی صبح یہ کالم لکھنے سے قبل خبر یہ ملی ہے کہ مزدوروں کے عالمی دن کی مناسبت سے ہم صحافیوں کے علاوہ دیگر ملازمین کو میسر ہوئے چھٹی کے دن عمران خان صاحب لاہور میں ایک ریلی کی قیادت کریں گے۔ لبرٹی مارکیٹ سے شروع ہوکر یہ ریلی ناصر باغ پر ختم ہوگی۔ناصر باغ کے ذکر سے یاد آیا کہ میرے بچپن میں اسے گول باغ کہا جاتا تھا۔ لاہور کے تاریخی موچی دروازے کے باہر موجود باغ جب قد آور رہ نماﺅں کو اپنے جلسے کے لئے کم دِکھنا شروع ہوا تو انہوںنے 1960ءکی دہائی میں اپنے جلسوں کا اہتمام گول باغ میں شروع کردیا۔ میں نے پہلا جلسہ وہاں کم عمری میں سنا تھا۔ محترمہ فاطمہ جناح نے اس سے خطاب کیا ۔ وہ 1964ءکے صدارتی انتخاب کے لئے فیلڈ مارشل ایوب خان کے مقابلے میں انتخابی مہم چلانے وہاں تشریف لائی تھیں۔
محترمہ کے بعد دوسرا تاریخی جلسہ اس باغ میں پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد ہوا تھا۔ 1967ءکے آخری یا 1968ءکے ابتدائی ایام تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے وہاں تقریر کرنا تھی۔ان کی تقریر کے دوران مگر گول باغ کے گرد ”سازشی انداز“ میں جمع کئے پانی میں بجلی کا تار ”اچانک“گرگیا۔”کرنٹ“ کے خوف سے بھگدڑ مچ گئی۔بھٹو صاحب کو ان کے چند وفادار ساتھی باغ سے نکال کر گورنمنٹ کالج کے مین گیٹ تک پیدل لائے۔ وہاں ایک رکشہ کھڑا تھا جس میں بٹھا کر انہیں وہاں سے ہوٹل بھجوادیا گیا۔
اسی باغ سے بھٹو صاحب ہی نے ہماری تاریخ کا سنگ میل قرار پایا ”یوم مئی“ کا جلوس نکالا تھا۔ وہ چیئرنگ کراس پر صوبائی اسمبلی کی موجودہ عمارت کے سامنے ختم ہوا تھا۔ ”سوشلزم آوے ای آوے“ کا نعرہ اس جلوس کے دوران گونجتا رہا۔ اس نعرے سے مضطرب ہوکر جماعت اسلامی کی معاونت اور اس کے بانی مولانا مودودی کی قیادت میں ”یوم شوکتِ اسلام“ کے عنوان سے چند ہفتے کے بعد جوابی جلوس نکالا گیا تھا۔
عمران خان جو ریلی نکالیں گے نظر بظاہر وہ ”یوم مئی“ کی تاریخ اور وجوہات یاد کرنا نہیں چاہے گی۔مقصد اس کا حکومت کو مجبور کرنا ہے کہ وہ 14مئی تک قومی اسمبلی اور بقیہ صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کردے۔ ایسا ہوجائے تو رواں برس کے ستمبر میں قومی اسمبلی سمیت تمام صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات”ایک ہی دن“ منعقد ہوسکتے ہیں۔عندیہ یہ بھی ملا ہے کہ لاہور میں نکالی ریلی کا عمران خان عوامی تحریک کے لئے ”ریہرسل“ کی صورت جائزہ لیں گے۔وہ کامیاب اور پرجوش محسوس ہوئی تو ایسی ہی ریلیاں ملک کے دیگر بڑے شہروں میں بھی نکالی جائیں گی۔بالآخر ایک بار پھر اسلام آباد پر یلغار ہوگی۔ حکومت کو مستعفی ہوکر نئے انتخابات کے انعقاد کو مجبور کیا جائے گا۔
گزشتہ برس کے اپریل میں وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد ”فوری انتخاب“ کے حصول کے لئے مناسب اور پرجوش تیاری کے ساتھ عمران خان اس بر س کے 25مئی کے دن بھی اسلام آباد تشریف لائے تھے۔یہاں پہنچنے سے قبل وہ اپنے حامیوں کو قائل کرچکے تھے کہ امریکہ نے ان کی خودمختار اور وطن دوست پالیسیوں سے اکتاکر ان کے خلاف سازش رچائی تھی۔ان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے لئے ان کی مخالف تمام جماعتوںکو اکٹھا کیا۔ ہمارے ریاستی اداروں میں موجود ”میر جعفر وغیرہ“ بھی سازشیوں کے سہولت کار بن گئے۔قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے مگر ان کے خلاف پیش ہوئی تحریک کو ”قومی سلامتی کے منافی“ ٹھہراکر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ سپریم کورٹ نے مگر یہ حکم دیا کہ آئین کسی وزیر اعظم کے خلاف پیش ہوئی تحریک پر گنتی سے فرار کا جواز فراہم نہیں کرتا۔ قومی اسمبلی کو گنتی کے لئے مجبور کیا گیا اور عمران خان اس کے نتیجے میں ہمارے وزیر اعظم نہ رہے۔
اقتدار سے فراغت کے بعد عمران خان ایک لمحے کو بھی چین سے نہیں بیٹھے۔ امریکی سازش کا ڈھول پیٹتے ہوئے ریاستی اداروں میں موجود ”میر جعفروں“ کو للکارنا شروع ہوگئے۔ ”ہم کوئی غلام ہیں؟“ کا سوال ”امپورٹڈ حکومت“ کو شرمند کرتا رہا۔نہایت لگن اور روایتی اور سوشل میڈیا کے ماہرانہ استعمال سے چلائی اس مہم کے بعدبھی تاہم 25مئی 2022ءکے روز اسلام آباد قاہرہ کے ”التحریر اسکوائر“ میں تبدیل نہیں ہوسکا۔
25مئی کی ریلی کے چند ماہ بعد عمران خان اسلام آباد کی جانب ایک اور لانگ مارچ کے لئے لاہور سے روانہ ہوگئے۔بدقسمتی سے وزیر آباد میں ان کے قافلے پر قاتلانہ حملہ ہوگیا۔ ان کی ٹانگ اس حملے میں زخمی ہوئی۔ ربّ کا صد شکر کہ جان بچ گئی ورنہ ہم ایک اور قدآور سیاسی رہ نما سے محروم ہوجاتے۔اپنے زخموں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے بھی تحریک انصاف کے قائد نے اپنے لوگوں کو لانگ مارچ جاری رکھنے کی ہدایت دی۔اس کا اختتام راولپنڈی میں ہوناتھا۔اس سے خطاب کو عمران خان ہر صورت تیار تھے۔
عمران خان کے بے شما ردیرینہ حامی بھی نجی ملاقاتوں میں آف دی ریکارڈ تسلیم کرتے ہیں کہ لاہور سے چلے لانگ مارچ کا اصل ہدف فوری انتخاب کا حصول نہیں بلکہ ایک اہم ترین ”تعیناتی“ کے تناظر میں تحریک انصاف کے ”جثے“ کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔وہ ”اجاگر“ ہوا لیکن محسوس نہیں ہوا۔ ”تعیناتی“ وہی ہوئی جس کا فیصلہ وزیر اعظم شہباز شریف نے کئی ماہ پہلے سے طے کررکھا تھا۔
قصہ مختصر ہم بلاخوف تردید یہ کہہ سکتے ہیں کہ اقتدار سے فراغت کے بعد تحریک انصاف نے فوری انتخاب کے حصول کےلئے جن ریلیوں اور لانگ مارچ کا اہتمام کیا وہ اپنے ہدف کے حصول میں ناکام رہیں۔اس تناظر میں محض ریلیوں اور لانگ مارچ کے ذریعے عمران خا ن ستمبر کے مہینے میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ”ایک ہی دن“ انتخاب لینے میں کامیاب ہوتے نظر نہیں آرہے۔
میری دانست میں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پرویز الٰہی اور محمود خان کو پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلی تحلیل کرنے پر مجبور کرنے کے بعد عمران خان نے ”90دن کے اندر“ نئے انتخاب کے حصول کے لئے فقط عدالتوں پر انحصار کرنا شروع کردیا۔ سیاسی جنگ مگر کسی ایک ہی میدان تک محدود رکھی نہیں جاسکتی۔ تحریک انصاف نے عدالت پر توجہ مرکوز رکھی تو اس ادارے کے اندرونی اختلافات برسرعام آنا شروع ہوگئے۔ تحریک انصاف کے مخالفین نے ”سب پہ بالادست“پارلیمان کو آپا دھاپی کے موسم میں ہتھیار کی صورت استعمال کرنا شروع کردیا۔ ان کے اپنائے حربے ابھی تک عمران خان کو اپنے ہدف سے دور رکھے ہوئے ہیں۔تحریک انصاف کے قائد کو بھی اب کوئی ”وکھرا“نسخہ سوچنا ہوگا۔