صحافت سیاسی منصب نہیں اور نہ ریاستی ملازمت ہے۔ صحافت تو عمومی معنوں میں کسی کاروباری ادارے کی ملازمت بھی نہیں۔ اس لئے کہ اپنے آجر ادارے کے قانونی اور جائز مفادات کا محافظ ہونے کے باوجود صحافی کی بنیادی وابستگی درست خبر کی ترسیل ہے۔ یہی اصول ادارتی صفحے یا برقیاتی ذرائع ابلاغ میں تجزیے پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ البتہ خبر رائے کی بجائے واقعاتی حقیقت کا غیر جانب دارانہ بیان ہوتی ہے۔ صحافتی ادارے کی طے شدہ پالیسی ہوتی ہے اور ضروری نہیں کہ عامل صحافی اپنے ضمیر کی روشنی میں اس پالیسی کے ہر پہلو سے اتفاق رکھتا ہو۔ یہ کشمکش اس وقت نازک ہو جاتی ہے جب خبر کی واقعیت اور ادارے کی پالیسی میں اختلاف سامنے آ جائے۔ ہماری صحافتی تاریخ میں بارہا ایسا ہوا کہ صحافی نے اپنے ضمیر کی روشنی میں روزگار سے دست کشی اختیار کر لی۔ چنانچہ صحافت محض پیشہ نہیں، درحقیقت ایک تمدنی خدمت ہے۔ اپریل 1959 میں ایوب آمریت نے پروگریسو پیپرز لمیٹڈ پر غیرقانونی قبضہ کیا تو پاکستان ٹائمز کے مدیر مظہر علی خان کو ’تجویز‘ دی گئی کہ وہ روز نامہ پاکستان ٹائمز کی ادارت جاری رکھیں ورنہ انہیں Essential Services Ordinance کے تحت ایسا کرنے پر مجبور کر دیا جائے گا۔ مظہر علی خان نوابزادہ ضرور تھے لیکن جمہوری مزاج پایا تھا۔ انہوں نے مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ حکومت اگر چاہے تو یہ دلچسپ تجربہ کر دیکھے کہ کسی صحافی کو اخبار کی ادارت پر ’مجبور‘ کیا جائے۔ اس پر مظہر علی خان اس اعزاز سے محفوظ رہے۔ ہماری صحافت میں پیشہ ورانہ اخلاقیات کی روایت محض بائیں بازو تک محدود نہیں رہی۔ روز نامہ جسارت جماعت اسلامی کا ترجمان اخبار تھا۔ جسارت کے اساطیری مدیر عبدالکریم عابد نے مشرقی پاکستان کے مسئلے پر جماعتی موقف سے اختلاف کرتے ہوئے استعفیٰ دیا، پھر ضیا آمریت کی حمایت پر مستعفی ہوئے۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخاب کے بعد تیسری بار استعفیٰ دیا۔ محمد صلاح الدین نے بھی پالیسی کے اختلاف پر جسارت سے علیحدہ ہو کر 1984 میں ہفت روزہ تکبیر جاری کیا تھا۔ 6 اگست 1990 کو غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت پر 58 ( 2 ) (ب) کی تلوار چلائی تو آئی اے رحمن پاکستان ٹائمز کے مدیر اعلیٰ اور عزیز صدیقی مدیر تھے۔ دونوں دانشوروں کی رفاقت بوئے گل و رنگ ِگل کا نمونہ تھی۔ اس شام عزیز صدیقی نے صفحہ اول پر اشاعت کی غرض ’سسی فس کی آزمائش‘ کے عنوان سے اداریہ لکھا اور پھر دونوں حضرات مستعفی ہو کر اخبار کی سیڑھیاں اتر آئے۔ ہماری تاریخ میں صحافیوں کو کوڑے مارنے کی روایت ہی نہیں، شدید ریاستی دبائو کے نتیجے میں جان دینے والے صحافی مثلاً ابراہیم جلیس اور رضیہ بھٹی بھی شامل ہیں۔ بے شک ہمارے ہاں حکومتی اشارے پر سجدہ تعظیمی کرنے والے صحافیوں کی بھی کمی نہیں رہی لیکن کسی شعبے یا پیشے کی قامت اس کے بہترین نمونوں سے متعین ہوتی ہے، ضرر رساں جڑی بوٹیوں سے نہیں۔ صحافی سیاسی عمل کی حرکیات سے گہرے تعلق کے باوجود کسی سیاسی جماعت کا ترجمان نہیں ہوتا۔ صحافی کا منصب مختلف سیاسی جماعتوں کے نکتہ نگاہ کا جائزہ لے کر اپنی دیانت دارانہ رائے پیش کرنا ہے۔
جمہوری عمل کی اکائی سیاسی کارکن ہے۔ قومی سمت کے بارے میں وسیع تر اتفاق رائے رکھنے والے سیاسی کارکن ایک تنظیمی ڈھانچے میں شامل ہو کر سیاسی جماعتیں تشکیل دیتے ہیں۔ گویا سیاسی جماعتیں ایک طرف قوم میں موجود مختلف نکتہ ہائے نظر کی نمائندگی کرتی ہیں تو دوسری طرف ملکی سیاسی عمل میں باقاعدہ فریق کی حیثیت رکھتی ہیں۔ سیاسی جماعت انتخابی عمل میں حصہ لے کر کامیابی کی صورت میں پارلیمانی پارٹی کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ پارلیمانی جماعت کے ارکان پر داخلی نظم و ضبط کے علاوہ پارلیمنٹ میں سیاسی وابستگی کے ضمن میں قواعد و ضوابط بھی لاگو ہوتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ہمارے ہاں پروجیکٹ عمران کی بنیاد رکھی گئی تو ’کاسہ لیسان ازلی‘ ، کاروباری جتھوں اور تفرقہ فروشوں کے علاوہ تابع فرمان صحافیوں کی صف بندی بھی عمل میں آئی۔ جس نے بیعت سے انکار کیا، وہ ’لفافہ صحافی‘ اور ’پانچویں نسل کی ہائبرڈ وار فیئر‘ کے طوق کا مستحق ٹھہرا۔ یہ آزمائش اب اختتامی مرحلے میں ہے۔ سازش کے تار و پود ہر آنے والے دن کے ساتھ بے نقاب ہو رہے ہیں۔ دفاعی تجزیہ کاری کے نام پر دوائے دل بیچنے والے دکان بڑھا چکے۔ کمرہ انصاف کی سرگوشیاں آڈیو لیکس کی صورت میں گلی کوچوں تک پہنچ چکی ہیں۔ اب وقت ہے کہ غیر سیاسی سازش اور سیاسی عمل میں فرق بیان کیا جائے۔ سیاست دان کے گریبان سے کیچڑکے دھبے صاف کرکے حقیقی وطن دوستی کے خد و خال بیان کئےجائیں۔ جمہوری قوتوں کے درمیان مئی2006میں میثاق جمہوریت کے عنوان سے وسیع تر مفاہمت کا جو عمل شروع ہوا تھا، وہ اٹھارہویں آئینی ترمیم اور ساتویں این ایف سی ایوارڈ سے ہوتا ہوا موجودہ اتحادی حکومت تک آ پہنچا ہے۔ سیاسی جماعتیں غلطیوں سے مبرا نہیں ہوتیں۔ گزشتہ پندرہ برس میں بہت سے اتار چڑھائو آئے، نیاز مند آج پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی بصیرت کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہے۔ اس جماعت نے دوسری جمہوری قوتوں سے متعدد اختلافات کے باوجود کم از کم دو مواقع پر سازش کے منجدھار میں ہچکولے کھاتی جمہوریت کو زبردست تقویت پہنچائی ہے۔ اگست 2014 میں پیپلز پارٹی پارلیمنٹ کے اندر برسراقتدار جماعت (مسلم لیگ نواز) کا ہاتھ نہ پکڑتی تو ڈی چوک میں برپا طوفان تباہی مچا دیتا۔ حالیہ ہفتوں میں آئینی اور سیاسی بحران کے نکتہ عروج پر پیپلز پارٹی نے پارلیمنٹ میں اتحادی حکومت کا مضبوطی سے ساتھ دے کر ملک کو ایک ایسی سازش سے بچایا ہے جس کی جڑیں آئینی اور ریاستی اداروں میں دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس عمل میں اتحادی حکومت کی دیگر سیاسی جماعتوں کو داد نہ دینا بھی نا انصافی ہو گی۔ پاکستان کا مستقبل ایسی ہی جمہوری مفاہمت اور دستور پسندی سے وابستہ ہے۔ اس کے بغیر معاشی ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ صحافی کسی جماعتی وابستگی سے بے نیاز ہو کر قومی جمہوری قوتوں کو سلام پیش کرتا ہے۔