’چیٹ بوٹ انسانی دماغ کو پیچھے چھوڑسکتا ہے‘ مصنوعی ذہانت کے ’گاڈ فادر‘ گوگل سے مستعفی
’مصنوعی ذہانت کے موجد‘ کے نام سے مشہور کمپیوٹر سائنسدان نے گوگل کی ملازمت چھوڑ دی، انہوں نے اس ٹیکنالوجی سے لاحق خطرات کے بارے میں ایک خوفناک وارننگ جاری کی ہے۔
غیر ملکی ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق مصنوعی ذہانت کے گاڈ فادر کہلانے والے ڈاکٹر جیفری ہنٹن نے نیویارک ٹائمز کو جاری کیے گئے ایک بیان میں بتایا کہ اے آئی میں ہونے والی پیش رفت سے معاشرے اور انسانیت کے لیے گہرے خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔
جیفری ہنٹن نے اے آئی سسٹمز کیلئے ایک فاؤنڈیشن ٹیکنالوجی بنائی تھی، انہوں نے ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک گوگل میں کام کیا اور چیٹ جی پی ٹی جیسے موجودہ مصنوعی ذہانت کے نظام کے لیے راہ ہموار کی۔
انہوں نے ٹیکنالوجی کے بارے میں کہا کہ ’دیکھیں یہ 5 سال قبل کیسی تھی اور اب کیسی ہے، فرق کو سمجھیں اور اس کے بارے میں بتائیں، یہ خوفناک ہے۔‘
ڈاکٹر جیفری ہنٹن نے کہا کہ ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں کے درمیان مقابلہ نئی اے آئی ٹیکنالوجیز کے لیے خطرناک ہے جو ملازمتوں کو خطرے میں ڈالنے اور غلط معلومات پھیلانے پر مجبور کررہا ہے۔
یاد رہے کہ چیٹ جی پی ٹی کے نومبر 2022 میں منظر عام پر آنے کے بعد سے دنیا بھر میں لاکھوں افراد نے مصنوعی ذہانت کے اس جدید چیٹ بوٹ کا استعمال شروع کردیا ہے۔
مصنوعی ذہانت میں نیورل نیٹ ورک انسانی دماغ کی طرح کام کرتا ہے، یہ ایک ایسا سسٹم ہے جو معلومات حاصل کرکے اس پر کام کرتا ہے۔
سائنسدان نے بی بی سی کو بتایا کہ چیٹ بوٹ جلد ہی انسانی دماغ کی معلومات کی سطح کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ابھی ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ جی پی ٹی-4 کسی ایک شخص کے پاس موجود علم پر سبقت حاصل کرتا ہے، وضاحت دینے کے معاملے میں یہ (ٹیکنالوجی) اتنے آگے نہیں مگر یہ کچھ حد تک ایسا کر سکتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اور اس کی ترقی کی شرح کو دیکھتے ہوئے ہم توقع کرتے ہیں کہ چیزیں بہت تیزی سے بہتر ہوں گی، لہذا ہمیں اس کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ جہاں تک میں جانتا ہوں فی الحال اے آئی ہم سے زیادہ ذہین نہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ جلد ہی ہم سے زیادہ ذہین ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ ان کا خیال ہے کہ یہ سسٹم کسی نہ کسی طرح سے انسانی ذہانت پر سبقت حاصل کرلےگا کیونکہ وہ ڈیٹا کا تجزیہ کررہے ہیں’۔
تاہم چیٹ جی پی ٹی جیسے چیٹ بوٹ مستقبل میں تیزی سے ملازمتوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ اے آئی مشکل کاموں حل کرنے کے لیے ہے لیکن یہ اس کئی زیادہ آگے بڑھ سکتا ہے۔
گوگل سے استعفیٰ دینے والے سانئسدان نے اے آئی کے ذریعے پیدا ہونے والی غلط معلومات کے ممکنہ پھیلاؤ سے بھی خبردار کیا، انہوں نے کہا کہ مستقبل میں عام انسان یہ نہیں جان سکے گا کہ سچ کیا ہے۔
ڈاکٹر جیفری ہنٹن نے یہ بھی کہا کہ ان کی ملازمت چھوڑنے کی کئی اور وجوہات بھی تھیں۔
انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایک تو یہ کہ میں اب 75 سال کا ہوچکا ہوں ،اب یہ ریٹائر ہونے کا وقت ہے، دوسرا یہ کہ میں در اصل گوگل کے بارے میں کچھ اچھی باتیں کہنا چاہتا ہوں اور اگر میں گوگل کے لیے کام نہیں کرتا ہوں تو یہ باتیں زیادہ قابل اعتبار ہوں گی۔‘
گوگل اے آئی کے سائنسدان جیف ڈین نے امریکی میڈیا کو ایک بیان میں ڈاکٹر ہنٹن کا شکریہ ادا کیا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ہم مصنوعی ذہانت کے لیے ذمہ دارانہ نقطۂ نظر کے لیے پُرعزم ہیں، ہم مسلسل ابھرتے ہوئے خطرات کو سمجھنا سیکھ رہے ہیں جبکہ جرأت مندی سے اختراع بھی کررہے ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل مارچ میں شیئر کیے گئے خط میں ماہرین نے محققین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اگلے چھ ماہ تک مصنوعی ذہانت کے نئے نظام کی تیاری پر کام روک دیں اور متنبہ کیا کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو حکومتوں کو مداخلت کرنی چاہیے۔
اس کھلے خط پر ماہرین اور مصنوعی ذہانت کی صنعت کے لیڈرز بشمول ایلون مسک اور ایپل کے شریک بانی سٹیو ووزنیاک نے متنبہ کیا کہ اگرچہ مصنوعی ذہانت کے نمایاں امکانات مثبت ہیں، لوگوں کو مزید مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
جیفری ہنٹن ان سائنسدانوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اس خط پر دستخط نہیں کئے، انہوں نے نیویارک ٹائمز سے گفتگو میں کہا کہ سائنسدانوں کو اے آئی ٹیکنالوجی کو اس وقت تک بڑھانا نہیں چاہئے جب تک وہ یہ یقین نہ کرلیں کہ وہ اسے کنٹرول کرسکتے ہیں۔