جسٹس مظاہر نقوی کی جائیداد، ٹیکس تفصیلات کی تحقیقات پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سپرد
قومی اسمبلی نے آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزامات کا سامنا کرنے والے جسٹس مظاہر علی نقوی کا کیس پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کو بھجوا دیا جسے 15 روز میں سپریم کورٹ کے جج کی زیر ملکیت جائیدادوں اور ان کی جانب سے ادا کردہ ٹیکس کی تفصیلات پر مشتمل رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ڈپٹی اسپیکر زاہد اکرم درانی نے وزیر اقتصادی امور سردار ایاز صادق کے مطالبے پر معاملہ پارلیمنٹ کی طاقتور کمیٹی کو بھجوا دیا۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے وقفہ سوالات کے دوران یہ معاملہ پوائنٹ آف آرڈر پر اٹھایا تھا جبکہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے معاملے پر حکومت اور عدلیہ کے درمیان جاری کشمکش کے تناظر میں قانون سازوں نے اعلیٰ عدلیہ کے ججز پر حملہ جاری رکھا تھا۔
بظاہر کوئی اہم معاملہ نہ ہونے اور ایوان کی کارروائی جاری رکھنے کی کوشش میں ڈپٹی اسپیکر نے اراکین کو پوائنٹ آف آرڈر پر کسی بھی موضوع پر بولنے کے لیے کھلا وقت فراہم کیا۔
چنانچہ ایوان میں بات کرتے ہوئے ایاز صادق نے کہا کہ مختلف بار کونسلز نے جسٹس مظاہر علی نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں ریفرنس دائر کیے ہیں، اس طرح کے الزامات عدلیہ کی ساکھ کو داغدار کر رہے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ دور حکومت میں بطور قومی اسمبلی اسپیکر خدمات انجام دینے والے ایاز صادق نے کہا کہ پی اے سی کو اس معاملے کی تحقیقات کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان ریونیو سے مدد حاصل کرنی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تحقیقات کے دوران ’10 کروڑ روپے سے زائد کا پلاٹ خریدنے اور اس پر تعمیرات کرنے پر‘ جج کی آمدنی کے ذرائع کا پتا لگایا جائے اور اس معاملے کا خصوصی آڈٹ کرنے کے ساتھ ساتھ، ایف بی آر سے جج کے ادا کردہ ٹیکس کی تفصیلات بھی طلب کی جائیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ بدقسمتی کی بات ہے کہ لوگ ایسے الزامات کی وجہ سے اعلیٰ عدالتوں کے ججز پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں، مجوزہ تحقیقات سے جج کو اس معاملے پر صفائی دینے کا موقع ملے گا۔
ڈپٹی اسپیکر نے قومی اسمبلی کے رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس 2007 کے قاعدہ 199 کے تحت معاملے کو فوری طور پر تحقیقات اور آڈٹ کے لیے پی اے سی کو بھجوا دیا اور 15 روز میں کام مکمل کرنے کی ہدایت کی۔
خیال رہے کہ جسٹس مظاہر اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں 4 ریفرنسز زیر التوا ہیں جن میں ان پر ’مس کنڈکٹ‘، ’اختیارات کے غلط استعمال‘ اور آمدنی کے معلوم ذرائع سے زیادہ اثاثے رکھنے کا الزام لگایا گیا۔
ایک شکایت میں متعدد آڈیو کلپس کا بھی تذکرہ کیا گیا جس میں مبینہ چور پر جج اور پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی کے درمیان ہونے والی گفتگو بھی شامل تھی، اس میں بتایا گیا کہ گفتگو کا لہجہ دونوں کے درمیان گہرے اور قریبی تعلق کی عکاسی کرتا ہے۔
دو گھنٹے سے زائد کی کارروائی کے دوران 17 ارکان نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کی اور ان میں سے بعض کو ایک سے زائد مرتبہ بولنے کا موقع بھی ملا۔
ججز پر تنقید کرنے کے علاوہ اراکین اسمبلی نے کئی دیگر مسائل بھی اٹھائے، جن میں حالیہ ڈیجیٹل مردم شماری اور گیس میٹر کے کرایے کے چارجز میں اضافہ شامل ہے۔
جماعت اسلامی کے مولانا عبدالاکبر چترالی اور آزاد رکن قومی اسمبلی علی وزیر نے ملک بالخصوص کراچی میں جاری مردم شماری میں مبینہ بے ضابطگیوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
پیپلز پارٹی کی متاثرہ ملازمین کی خصوصی کمیٹی کے چیئرمین عبدالقادر مندوخیل نے ایک بار پھر شکایت کی کہ وزارتیں کمیٹی کی ہدایات پر عمل درآمد نہیں کر رہی ہیں، انہوں نے اس سلسلے میں ہوا بازی، ریلوے اور اطلاعات کی وزارتوں کا خاص طور پر ذکر کیا۔