’’پروجیکٹ‘‘، طوائف الملْوکی اور منصوبہ ساز
بیانیوں، خوش گمانیوں اور خواب خرامیوں کے باوجود، دَرودِیوار پہ لکھی حقیقت یہ ہے کہ ہم بھنور میں گھْمَّن گھیریاں کھا رہے ہیں اور ساحل دکھائی نہیں دے رہا۔ عربی زبان سے نسبی تعلق رکھنے والا ایک دولفظی مرکّب اْردو میں مستعمل ہے ’’طوائف الملْوکی‘‘۔ انگریزی میں اسکا متبادل ہے ’’انارکی‘‘ (Anarchy)۔ مختلف اردو لغت میں ’’طوائف الملْوکی‘‘ کے معنی ہیں افراتفری، آپا دھاپی، ہڑبونگ، سکھا شاہی، انتشار، اندھیر نگری، دھینگا دھینگی اور بدانتظامی وغیرہ۔ میرے پیش نظر صرف یہ سادہ و معصوم سا سوال ہے کہ کیا 2008ء سے 2018ء تک، کسی آن بھی قومی منظر نامہ اس طرح کی طوائف الملْوکی کا نقشہ پیش کر رہا تھا؟ کیا یہ موجودہ حکومت کا کیا دھرا ہے؟ تعصّب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ تو کیا کسی سیّارے سے اتری نادیدہ مخلوق نے ہمارے ہاتھ پائوں باندھ کر منہ میں کپڑا ٹھونسا اور اس پاتال میں دھکیل کر غائب ہوگئی؟ ایسا بھی نہیں۔ تو پھر مستقیم راہوں پر چل نکلنے والے پاکستان کو کس نے ’’طوائف الملْوکی‘‘ میں جھونکا؟ اب یہ کوئی معمّہ نہیں رہا۔ سب کردار زندہ وسلامت ہیں۔ کسی کی راتیں بے خواب نہیں ہو رہیں، کسی کا ضمیر نشتر نہیں چلا رہا، کسی کی آنکھیں نم نہیں ہو رہیں، کسی کے دل میں قوم سے معافی مانگنے کی تڑپ انگڑائی نہیں لے رہی۔ یہ الگ بات کہ ’’پروجیکٹ عمران‘‘ کے کرداروں پر اب ’’پروجیکٹ مکافات عمل‘‘ کا باب وا ہوچکا ہے۔ ان کے چار سْو رسوائیاں رقص کررہی ہیں اور تاریخ سوچ رہی ہے کہ انکا تذکرہ بیاضِ سیاہ کے کن اوراق کی زینت بنایا جائے کہ برسوں پڑھنے والوں کو گھن آتی رہے۔
مشرف کی نوسالہ آمریت کے بعد2008ء میں پیپلزپارٹی نے حکومت سنبھالی۔ مسلم لیگ (ن) نے انتخابی نتائج تسلیم کرتے ہوئے اپنا پارلیمانی کردار نباہنے کا فیصلہ کیا۔ ججوں کی بحالی کے عہد پر کچھ عرصے کیلئے حکومت کا حصہ بنی۔ اسی مسئلے پر الگ ہوگئی۔ باہمی تلخی کا ایک ایسا مرحلہ بھی آیا کہ ڈوگر کورٹ کے ذریعے وزیراعلیٰ شہبازشریف کا تختہ الٹ کر پنجاب میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) پھر بھی سڑکوں پر سرکس لگانے کے بجائے قومی اسمبلی میں توانا اپوزیشن کا کردار ادا کرتی رہی۔ 2009ء میں ججوں کی بحالی کیلئے نوازشریف کی قیادت میں نکلنے والا لانگ مارچ، حصول مقصد کیساتھ ہی گوجرانوالہ میں ختم ہوگیا حالانکہ گورنر راج کے خلاف اْسے متحرک رکھا جاسکتا تھا۔ اپنی اپنی سیاسی جماعت اور اپنی اپنی جماعتی سیاست کے باوجود دونوں نے افہام وتفہیم سے اٹھارہویں ترمیم منظور کی۔ ملکی تاریخ میں یہ پہلی قومی اسمبلی تھی جس نے پانچ سال کی آئینی عمر پائی۔ آصف علی زرداری پہلے صدر تھے جس نے اپنی آئینی معیاد مکمل کی۔ جون 2013ء کے اوائل میں مسلم لیگ (ن) نے حکومت سنبھالی۔ آصف زرداری تین ماہ بعد (9 ستمبر2013) تک صدر رہے۔ انہوں نے عارف علوی کی طرح نہ تو اپنی حریف جماعت کیلئے مشکلات پیدا کیں، نہ کوئی بل روکا نہ کوئی ریفرنس داغا۔ ہماری ناقابلِ رشک سیاسی تاریخ نے یہ دل کشا منظر بھی دیکھا کہ پہلی بار (اور اب تک آخری بار) وزیراعظم نوازشریف نے رخصت ہونے والے صدر کے اعزاز میں ضیافت کا اہتمام کیا جس میں تمام سیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔ ہمیشہ خفا اور آتش زیرپا رہنے والی تحریک انصاف واحد جماعت تھی جس نے اس کا بائیکاٹ کیا۔
بدقسمتی سے جمہوریت کی پختگی، سیاسی جماعتوں کی بلوغت اور نظام کی اْستواری، ہماری روایتی تلاطم مزاج مقتدرہ کیلئے کوئی اچھی پیش رفت نہ تھی۔’’پروجیکٹ عمران‘‘ کا سنگ بنیاد اکتوبر2011ء کے لاہوری جلسے میں رکھا جاچکا تھا لیکن جنرل اشفاق پرویز کیانی نے رخصت ہوتے ہوئے صاف ستھرے انتخابات کو اپنی سب سے اہم ترجیح بنالیا۔ انتخابات ہوئے۔ خان صاحب شکست ِخواب کا جانکاہ صدمہ برداشت نہ کرسکے۔ مدتوں انگاروں پہ لوٹتے اور سڑکوں پہ رْلتے رہے۔
نومبر2013ء میں ’’شہید الطرفین‘‘ جنرل راحیل شریف کی آمد سے بھی کوئی مثبت تبدیلی نہ آئی۔ مشرف سے قریبی رشتہ وتعلق اور مدتِ ملازمت میں توسیع کی آرزو نے جنرل راحیل شریف کو وزیراعظم سے دور کردیا۔ وہ جلد ہی ’’پروجیکٹ عمران‘‘ کا حصہ بن گئے جو اب ادارہ جاتی مشن بن چکا تھا۔ نومبر 2016ء میں آرمی چیف بننے کے کچھ ہی عرصہ بعد جنرل باجوہ بھی دل وجان سے اس پروجیکٹ میں شامل ہوگئے۔ باقی سب تاریخ ہے۔
آج وطن عزیز جس ہمہ جہتی زوال، ادارہ جاتی ٹوٹ پھوٹ، معاشی انحطاط، انتشار اور بے یقینی کا شکار ہے اسکی ذمہ داری عمران خان سے کہیں زیادہ ’’پروجیکٹ عمران‘‘ کے منصوبہ سازوں کے سَر ہے۔ وہ جنہوں نے اپنے منتخب وزیراعظم کے خلاف سازش کی، اپنے اللہ اور آئین سے باندھا گیا عہدِ وفا توڑا، مطلوبہ فیصلوں کے لئے ججوں کو دھمکایا، سالوں کی محنت ضائع ہوجانے کی دہائی دی، جھوٹے مقدمے بنائے، سرینا کے شاپرز میں فیصلے فراہم کئے اور مستحکم جمہوری روایات کی طرف بڑھتے ہوئے جمے جمائے سیاسی عمل کو ’’طوائف الملْوکی‘‘ کی بھینٹ چڑھا دیا۔ یہ سقوطِ ڈھاکہ سے کچھ کم سانحہ نہیں۔ آگے بڑھنے کے بجائے ہم اس کوشش میں ہلکان ہوئے جارہے ہیں کہ کس طرح پاکستان کو 2017 ء کی سطح پر واپس لے کر آئیں۔ عالم یہ کہ نصف صدی سے جنگوں کے زخم خوردہ افغانستان کی کرنسی بھی ہم سے تین گنا بھاری ہے اور مہنگائی کی شرح 40 فیصد کو چھورہی ہے جو پورے نوازدور میں 4 فی صد سے اوپر نہ گئی۔
’’طوائف الملْوکی‘‘رقص کناں ہے۔ ادارہ جاتی کشمکش تھمنے میں نہیں آرہی۔ عدلیہ اب مقننہ بھی بن چکی ہے اور انتظامیہ بھی۔ اس نے آزاد وخودمختار آئینی ادارے ’’الیکشن کمیشن‘‘ کے اختیارات بھی سلب کر لئے ہیں۔ سیاست کے میدان میں دھاڑتا چنگھاڑتا سوموٹو، وطن عزیز کو تماشا بنانے والوں کا رْخ کرتے ہی خرگوش کی طرح کسی جھاڑی میں دبک جاتا ہے۔ پارلیمنٹ خود کو تمام اداروں کی ’’ماں‘‘ سمجھتے ہوئے اپنی مادرانہ عزت وعظمت کے لئے پورے قد سے اٹھ کھڑی ہوئی ہے لیکن ’’جری ماں‘‘ کو بھی ہمت نہیں ہورہی کہ اپنے ناخلف بیٹوں کا نام تک لے۔ اْدھرنہایت ذوق وشوق سے ’’طوائف الملْوکی‘‘ کی فصل کاشت کرنے، اپنے اداروں کی حرمت وآبرو کو کھاد کے طورپر استعمال کرنے اور اْسکی نگہداشت کیلئے اپنے ادارے کو خاردار باڑ بنالینے والے سارے زندہ وموجود کردار، اپنی تمام تر مراعات اور سہولتوں سے لطف اٹھاتے ہوئے پرتعیش گھروں کی بالکونیوں میں بیٹھے، سگار پیتے، گرماگرم کافی کی چْسکیاں لیتے ہوئے ’’طوائف الملْوکی‘‘ کے بھنور میں غلطاں پاکستان کا نظّارہ کررہے ہیں، کوئی نہیں جو پاکستان کو پاتال میں دھکیلنے والے فتنہ گروں کو کٹہرے میں لائے۔