پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکریٹری اسد عمر نے تجویز دی ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان اور موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر بند کمرے میں براہِ راست ایک دوسرے سے بات چیت کر کے گلے شکوے دور کرلیں۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’خبر مہر بخاری کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اس بات کا امکان بھی ظاہر کیا کہ ہوسکتا ہے آرمی چیف اور عمران خان تک درست باتیں نہ پہنچائی جارہی ہوں۔
اسد عمر نے بات چیت کرنے کی تجویز میزبان کے اس کے سوال کے جواب میں دی کہ ’چاہتے یا نا چاہتے ہوئے آپ کی جماعت اسٹیبلشمنٹ مخالفت کی مکمل تصویر بن چکی ہے، وزیراعظم شہباز شریف، آصف زرداری یہاں تک کے محسن نقوی نے بھی کہہ دیا ہے کہ ریڈ لائن نہ کراس کی جائے عمران خان اداروں کو بدنام کرنے کی حد عبور کرچکے ہیں بلکہ سابق صدر نے یہ بھی کہا کہ ’میں اس شخص کا زوال دیکھ رہا ہوں‘۔
وقت آگیا ہے کہ عمران خان اور جنرل عاصم منیر ایک کمرے میں بیٹھیں کوئی بھی نہ ہو ، دروازہ بند کر دیں :
— Waseem Abbasi (@Wabbasi007) May 8, 2023
پی ٹی آئی رہنما اسد عمر ۔۔
ویسے دروازہ بند غیر ضروری نہیں؟؟
pic.twitter.com/gdA76achku
میزبان نے سوال کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’اس حکمت عملی کے ساتھ الیکشن ہو بھی جائیں تو کیا آپ کو حکومت بنانے دی جائے گی‘؟
جواب دیتے ہوئے اسد عمر نے سیاستدانوں کی تنقید رد کرتے ہوئے کہا کہ ’آصف زرداری کو اس وقت ادارے کا بہت احساس ہورہا ہے جنہوں نے بطور صدر پاکستان ٹیلی ویژن پر کہا تھا کہ ہم آپ کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے، آپ ہوتے کون ہیں ہماری طرف دیکھنے والے‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اسی طرح شہباز شریف کے بھائی اور بھتیجی بھی حاضر سروس آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے بارے میں کیا کیا کہتے رہے ہیں، تو ان لوگوں کی باتیں تو چھوڑ دیں، ان کی باتیں سیاسی بیانات کے سوا کچھ نہیں‘۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ ’ادارے کے ساتھ کوئی ٹکراؤ نہیں ہے لیکن اس میں کوی شک نہیں کہ عمران خان نے ایک حاضر سروس جرنیل فیصل نصیر کے بارے میں شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے، انہوں نے ادارے پر نہیں بلکہ ایک شخص کے کردار کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں‘۔
اسد عمر نے کہا کہ ’میری اپنی ذاتی رائے یہ ہے کہ عمران خان پاکستان کے سب سے مقبول سیاسی رہنما ہیں، وہ مقبولیت کے اس عروج پر ہیں جو قائد اعظم کے بعد پاکستان کی سیاست میں کبھی نہیں دیکھی گئی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’فوج پاکستان کا سب سے بڑا منظم ادارہ ہے، میں کہوں گا وقت آگیا ہے کہ عمران خان اور جنرل عاصم منیر ایک کمرے میں ون آن ون بیٹھیں، کوئی بھی نہ ہو اور دروزاہ بند کردیں اور جو دونوں فریقین کو ایک دوسرے سے گلے شکوے ہیں وہ کرلیں، جو تحفظات عمران خان کے ذہن میں ہیں وہ جنرل عاصم منیر کھلے دل سے سنے اور اگر آرمی چیف کے ذہن میں کوئی تحفظات ہیں تو وہ عمران خان کے سامنے کرلیں‘۔
اسد عمر کا مزید کہنا تھا کہ ’اس وقت ایک کھچاؤ کی صورت نظر آرہی ہے, یہ کوئی مثبت صورتحال نہیں ہے‘۔
میزبان نے سوال کیا کہ اس کا مطلب یہ ہے کوئی ہے جو بدگمانیاں پیدا کررہا ہے۔
جس پر اسد عمر نے تائید کرتے ہوئے کہا کہ ’جی بالکل ایسا ہی ہے، ہوسکتا ہے کہ جو خبریں جنرل عاصم منیر کے پاس پہنچائی جارہی ہوں وہ سچی نہ ہوں اور ہوسکتا ہے کچھ باتیں جو عمران خان تک پہنچائی جارہی ہیں وہ حقیقت پر مبنی نہ ہوں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’جو کچھ بھی ہے آمنے سامنے بیٹھ کر حل کرلیں‘، ساتھ ہی واضح کیا کہ یہ ان کی جماعت کا نہیں بلکہ ان کا ذاتی مؤقف ہے اور کہا کہ میرےخیال میں کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہوگا۔
سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ’اگر صورتحال ایسی ہے کہ ہر ٹی وی پروگرام میں یہی سوالات پوچھے جائیں تو بہتر ہے کہ بات چیت سے معاملہ سلجھا لیا جائے‘۔
خیال رہے کہ ہفتے کے روز اعلیٰ عدلیہ اور حکومت کے درمیان کشیدگی کے درمیان چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال سے اظہار یکجہتی کے لیے پی ٹی آئی کی نکالی گئی احتجاجی ریلیوں سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور ایک حاضر سروس اعلیٰ فوجی افسر پر سخت تنقید کی تھی۔
عمران خان نے ایک حاضر سروس اعلیٰ فوجی افسر کا نام لے کر الزام لگایا تھا کہ مجھے کچھ ہوا تو اس شخص کا نام یاد رکھنا جس نے مجھے پہلے بھی دو بار مارنے کی کوشش کی۔
جس کے ردِ عمل میں گزشتہ روز ایک بیان جاری کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے بغیر کسی ثبوت کے ایک حاضر سروس سینئر فوجی افسر پر انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور بے بنیاد الزامات عائد کیے جو من گھڑت، بدنیتی پر مبنی، افسوسناک، قابل مذمت اور ناقابل قبول ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ گزشتہ ایک سال سے یہ ایک مستقل طرز عمل بن گیا ہے جس میں فوجی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اشتعال انگیز اور سنسنی خیز پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ ہم متعلقہ سیاسی رہنما سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ قانونی راستہ اختیار کریں اور جھوٹے الزامات لگانا بند کریں۔
فوج کے علاوہ وزیراعظم شہباز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی حاضر سروس جنرل کے خلاف بیان دینے پر عمران خان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔