پاکستان میں بننے والی گاڑیوں کی قیمت اور معیار سے ناخوش بعض شہری جاپان سے منگوائی جانے والی استعمال شدہ گاڑیوں میں دلچسپی لیتے ہیں اور اب ریگولیٹری ڈیوٹی کی معیاد ختم ہونے کے بعد ایسے افراد کو امید ہے کہ پرانی امپورٹڈ گاڑیوں کی قیمتیں میں کمی ہو سکتی ہے۔
وفاقی حکومت نے گذشتہ سال جون میں زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے پیش نظر درآمدات کو محدود کرنے کے لیے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی (آر ڈی) بڑھا کر 100 فیصد کر دی تھی۔ اس ایس آر او کی معیاد 31 مارچ 2023 تک تھی جس پر تاحال نظرثانی نہیں کی گئی ہے۔
ملک میں گاڑیوں کے ڈیلرز کی ایسوسی ایشن نے کہا تھا کہ ریگولیٹری ڈیوٹی ختم ہونے سے 1800 سی سی کی کاروں کی قیمت میں کمی واقع ہو گی۔ تاہم اس شعبے کے بعض ماہرین کے مطابق گذشتہ ایک سال میں ڈالر کی قدر میں سو روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے لہذا ریگولیٹری ڈیوٹی کم ہونے کے باوجود درآمد کی گئی استعمال شدہ گاڑیوں کی قیمتوں میں زیادہ کمی کا امکان کم ہے۔
کیا گاڑیوں پر دوبارہ ریگولیٹری ڈیوٹی لگ سکتی ہے؟
ملک میں نئی گاڑیوں کی خرید و فروخت کے حوالے سے پاما کے اعداد و شمار پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں گذشتہ سال مارچ کے مقابلے رواں سال مارچ میں چھوٹی گاڑیوں کی فروخت نصف سے بھی کم رہ گئی ہے جس کی وجہ قیمتوں میں بھاری اضافہ بتایا جاتا ہے۔
ایسے میں بعض صارفین پرانی اور استعمال شدہ گاڑیوں کی جانب راغب ہوتے ہیں تاہم اس سلسلے میں بھی حکومت کی جانب سے امپورٹ بِل میں کمی کے لیے پہلے درآمدات پر پابندی اور پھر ڈیوٹی میں اضافے نے صنعت کو متاثر کیا۔
کار ڈیلرز کے مطابق ریگولیٹری ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد بھی مارکیٹ میں ایسی قیاس آرائیاں ہیں کہ حکومت دوبارہ اس فیصلے کی توسیع کر سکتی ہے۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد نے مقامی میڈیا کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ریگولیٹری ڈیوٹی 31 مارچ کو ختم ہوئی جسے کسی بھی وقت دوبارہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فوری طور پر ریگولیٹری ڈیوٹی لگانے کا نوٹیفکیشن کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ کاریں اور موبائل فونز اتنی تعداد میں درآمد نہیں ہو رہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ ’موبائل فونز اور کاروں پر ریگولیٹری ڈیوٹی لگانے کا فیصلہ وزارت تجارت کرتی ہے، جیسے ہی وزارت تجارت کہے گی ہم نوٹیفکیشن جاری کر دیں گے۔‘
’اگر امپورٹر کو کار مہنگی پڑی تو وہ سستی کیسے بیچے گا؟‘
کاروں پر ریگولیٹری ڈیوٹی کے خاتمے کے باوجود صنعت کے ماہرین حکومت کی اقتصادی پالیسی اور قیمتوں میں کمی کے حوالے سے زیادہ پُرامید نہیں۔
آل پاکستان موٹر ڈیلر ایسوسی ایشن کے سربراہ ایچ ایم شہزاد کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے آر ڈی ہٹائے جانے سے قیمت پر فرق تو پڑے گا تاہم حالیہ عرصے میں روپے کے مقابلے ڈالر کی قدر میں اضافے سے ریٹ میں بہت زیادہ کمی نہیں آئے گی۔
شہزاد نے بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ سال 660 سی سی کی پرانی درآمد شدہ کار کی قیمت لگ بھگ 22 سے 23 لاکھ روپے کے درمیان تھی جو سو فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی لگنے کے بعد 33 سے 34 لاکھ روپے کی ہو گئی تھی۔ تاہم وہ بتاتے ہیں کہ اب دوبارہ ڈیوٹی ہٹنے کے بعد بھی اس کی قیمت 30 سے 31 لاکھ روپے سے نیچے نہیں آئے گی۔
ان کے مطابق گفٹ سکیم کے تحت سمندر پار پاکستانی جب کوئی گاڑی بھیجتے ہیں تو اسے یہاں پاکستان پہنچنے میں کم از کم دو ماہ لگتے ہیں، لہذا حکومت کی ’مثبت پالیسی‘ کے اثرات میں کچھ وقت لگے گا۔
’ایک ماہ تو انھی قیاس آرائیوں میں نکل گیا کہ آر ڈی دوبارہ لگائی جا سکتی ہے۔۔۔ اصل مسئلہ اس وقت یہ ہے کہ ڈالر قابو میں نہیں۔ مثلاً جاپان میں پانچ لاکھ ین کی گاڑی کا مطلب آٹھ لاکھ پاکستانی روپے تھا جو آج قریب بارہ لاکھ روپے بنیں گے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں پرانی گاڑیوں کی درآمد پر ڈیوٹی ڈالرز میں ادا کی جاتی ہے، مثلاً پانچ ہزار ڈالرز اگر پہلے دس لاکھ روپے بن رہے تھے جو اب پندرہ لاکھ روپے بن رہے ہیں۔
شہزاد نے رائے دی ہے کہ ’اگر یہ تسلسل رہے اور ڈالر کی قدر نیچے آئے تو بڑا فرق آئے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایسی صورت میں 660 سی سی کار پر تین، چار لاکھ کا فرق آئے۔‘
اُدھر گاڑیوں کے شعبے کے ماہر سنیل سرفراز منج کا کہنا ہے کہ یہ درست نہیں کہ گاڑیاں پہلے سے سستی ہو جائیں گی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ گاڑیاں آر ڈی ہٹنے کے باوجود مہنگی رہیں گی اور اس کی وجہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہے۔
ان کے مطابق آر ڈی بڑھنے پر امپورٹرز نے بندرگاہ سے گاڑیاں کلیئر نہیں کروائیں اور وہ ڈیوٹی میں کمی کا انتظار کرتے رہے۔
سوشل میڈیا پر اپنی کیکلولیشن شیئر کرتے ہوئے سنیل نے بتایا کہ ’آر ڈی گذشتہ سال مئی میں لگی تھی اور اس سے قبل 660 سی سی کار پر قریب ساڑھے چھ لاکھ ڈیوٹی تھی جو کہ بڑھ کر پچیس لاکھ سے زیادہ ہو گئی تھی۔‘
’اب آر ڈی ہٹنے کے بعد 660 سی سی کار پر ڈیوٹی ساڑھے دس لاکھ کے قریب بنے گی جو کہ اب بھی گذشتہ سال کے ریٹس کے مقابلے میں زیادہ ہے اور اس کا گاڑی کی کل قیمت پر اضافی اثر پڑے گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ گذشتہ سال کے مقابلے اب درآمد شدہ 660 سی سی کار کی قیمت میں تین سے چار لاکھ روپے اور 1000 سی سی کار کی قیمت میں پانچ لاکھ روپے تک کا اضافہ ہوا ہے۔
ان کا سوال ہے کہ ’اگر امپورٹر کو کار مہنگی پڑی تو وہ سستی کیسے بیچے گا؟‘
’آر ڈی کو ہٹے ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا ہے، اگر قیمتوں میں فرق آنا ہوتا تو اب تک آ جاتا۔ لوگوں کی خام خیالی ہے کہ گاڑیوں کی قیمتیں کم ہوئی ہیں یا ہوں گی۔‘
دریں اثنا شہزاد نے امپورٹ بِل میں کمی کی خواہشمند حکومت کو یہ تجویز دی ہے کہ آٹو سیکٹر سے ڈالرز میں آمدن کمائی جا سکتی ہے ’اگر تین سال سے زیادہ پرانی گاڑیوں کو بھی درآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔‘
پاکستان میں استعمال شدہ گاڑیاں کیسے درآمد کی جاتی ہیں؟
ایف بی آر کے مطابق پاکستان میں کوئی بھی شخص تمام تقاضے پورے کر کے، یعنی ڈیوٹی اور ٹیکس ادا کر کے، نئی گاڑی درآمد کر سکتا ہے تاہم استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کے لیے سمندر پار پاکستانیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
اکثر استعمال شدہ گاڑیاں گفٹ سکیم کے تحت درآمد کی جاتی ہیں۔ امپورٹ پالیسی آرڈر 2022 کے تحت فی الحال تین سال سے زیادہ پرانی گاڑی کی درآمد کی اجازت نہیں ہے۔
گفٹ سکیم میں سمندر پاکستانی اپنے خاندان (والدین، بہن بھائی، بچوں، شوہر یا بیوی) کو تحفے میں کار بھیج سکتے ہیں۔ اس حوالے سے بیرون ملک کرنسی میں ہی ڈیوٹی اور ٹیکس ادا کیے جاتے ہیں۔