روس اوریوکرین کے درمیان عسکری تنازعے کوایک سال مکمل ہوگیاہے۔جنگ کہنے میں تامل اس لئے ہے کہ روسی حکومت اسے اب تک آپریشن قراردے رہی ہے۔نام اس کشاکش کوکوئی بھی دے دیں،بہرحال ہے تویہ جنگ ہی،جس کی شدت میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔میڈیااورمنڈی پرکنٹرول کے سبب مغرب کا یہ وطیرہ رہاہے کہ وہ یورپ کے چھوٹے سے چھوٹے مسئلے کوپوری دنیاکامسئلہ قراردے دیتاہے،جبکہ افریقہ،ایشیااورلاطینی امریکہ میں وقوع پذیرہونے والے بڑے سے بڑے سانحات وحادثات توجہ کے طالب ہی رہ جاتے ہیں۔یوکرین چونکہ یورپ میں واقع ہے اس لئے یہ پوری انسانیت کامسئلہ قرارپایاہے۔محاذجنگ سے آنے والی خبروں کاانحصارہمارامغربی میڈیاپرہی ہے۔اس کی وجہ قابل فہم بھی ہے کہ پاکستانیوں کی روسی زبان تک رسائی نہ ہونے کے برابرہے۔مزیدبرآں سوشل میڈیااورانٹرنیٹ پربھی چونکہ مغرب کاکنٹرول ہے،اس لئے روس کاموقف نشرکرنے پرپابندی ہے۔مجھے چونکہ روسی زبان پردسترس حاصل ہے اورروس کے بہت سارے احباب بھی مسلسل رابطے میں رہتے ہیں،اس لئے جنگ کے متعلق ان کاموقف بھی جاننے کاموقع ملتارہتاہے۔اس تنازعے کے متعلق سمجھنے کی جوسب سے بنیادی بات ہے،وہ یہ کہ گزشتہ برس کے روسی حملے سے جنگ کی ابتداء نہیں ہوئی بلکہ 2014میں یہ تنازعہ شروع ہوا۔
یوکرین کے منتخب صدرکواحتجاجی ہنگاموں کے بعدفوج نے زبردستی اقتدارسے سبکدوش کردیا۔روس نوازکہلانے والے منتخب صدروکٹریانوکوچ اپنے صدارتی محل میں بیٹھے تھے جب فوج نے وہاں گولی چلائی۔جان بچاکروہ ماسکوجاپہنچے اوروہیں سے ان کے اقتدارکے خاتمے کی خبرآئی۔فوج کی سرپرستی میں معاملات آگے بڑھے مگرروسی حکومت کے لئے یہ کڑوی گولی نگلنامشکل تھا۔اس یورپ نوازی کاجواب صدرپوتین نے 2014میں ہی یوکرین کے جزیرہ نماکریمیاپرقبضے کی صورت میں دیا۔اس کے ساتھ ہی روسی اکثریتی آبادی والے مشرقی حصے نے بھی بغاوت کردی اورروس میں شامل ہونے کی خواہش کااظہارکردیا۔یادرہے کہ تاریخی طورپرکریمیااوریوکرین کے مشرقی حصے ”دنباس“اور”لوہانسک“روس کاحصے رہے ہیں۔سوویت یونین کے دور میں صدرولادی میرلینن اوراسٹالن نے انہیں یوکرین کاحصہ بنایاتھا۔اس کا مقصد سوویت یونین کی مضبوطی تھا۔حالانکہ وہاں رہنے والوں کی اکثریت ہمیشہ ہی روسی نژادرہی ہے۔تاریخی حقیقت تویہ بھی ہے کہ یوکرین 1992سے پہلے تاریخ میں کبھی بھی کوئی ملک نہیں رہا۔یوکرین کادارلحکومت کیؤصدیوں تک روس کادارلحکومت رہاہے۔اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے کیؤروس کہاجاتاتھااوریہی ریاست کانام تھا۔ماسکوتو1147میں تعمیرہواتھااورسینٹ پیٹرزبرگ توابھی کل کی بات ہے،جب پیٹراول کوخیال آیاکہ یورپی طرزکاایک شہرتعمیرکیاجائے۔روس اوریوکرین کوتاریخی اورتہذیبی اعتبارسے ایک دوسرے سے الگ کرنابڑامشکل ہے۔برصغیرپاک وہند میں تومذہب وہ بنیادفراہم کررہاتھاجس پرالگ ریاست تعمیرکی جاسکے مگرروس اوریوکرین میں تودونوں طرف آرتھوڈوکس عیسائی ہیں۔پولینڈکی سرحدکے قریب رہنے والے یوکرینی یورپ میں شامل ہونے کے متمنی ہیں اورروس کی سرحدکے ساتھ آبادلوگ خودکوروس کے ساتھ بہترمحسوس کرتے ہیں۔
جنگ کاایک سال مکمل ہونے پرصدرپوتین کادوگھنٹے پرمحیط خطاب میں نے بڑے انہماک سے سنا۔اس میری توجہ کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ روسی صدرمیڈیاسے بہت ہی کم بات کرتے ہیں۔بعض اوقات توپورامہینہ گزرجاتاہے اورصدرپوتین کے منہ سے نکلی کوئی بات میڈیامیں نشرنہیں ہوتی ہے۔تقریرتوبلاشبہ وہ مہینوں کے وقفوں سے ہی عمومی طورپرکرتے ہیں۔ان کے بقول جنگ کی ابتداء یوکرین نے2014میں اس وقت کی تھی،جب روس نوازمنتخب صدریانوکوچ کوفوج نے مداخلت کرکے اقتدارسے زبردستی نکالاتھا۔خوشگوارحیرت اس بات پرہوئی کہ اپنے تاریخی خطاب میں صدر ولادی میرپوتین نے پاکستان کابطورخاص ذکرکیااورمستقبل میں دوطرفہ تجارت کے امکانات پرگفتگوخطاب کاحصہ بنی۔
روسی جنگجوقوم ہیں۔جنگ سے بالکل بھی نہیں گھبراتے۔دنیاکاسب سے بڑارقبہ اور سب سے زیادہ قدرتی وسائل رکھنے کے سبب اس سرزمین کی حفاظت ہی ان کے نزدیک سب سے معتبراوراہم کام ہے۔ہرمردکے لئے دوسالہ فوج کی نوکری ضروری ہے، اگروہ بیمارہیں یاپھرکسی پروفیشنل ڈگری میں تعلیمی اعتبارسے مشغول ہے۔ تب استثنیٰ مل جاتاہے۔اس جنگ کاایک اہم پہلویہ ہے کہ روس اوریوکرین دونوں ہی کرائے کی فوج بھی استعمال کررہے ہیں۔روسی پرائیویٹ میلشیاکو”ویگنر“جبکہ یوکرینی”موزارٹ“کہلاتی ہے۔یادرہے کہ ویگنراورموزارٹ دونوں ہی جرمن موسیقارتھے،دونوں ہی کمال کے فنکارتھے،میں ذاتی طورپردونوں کامعترف ہوں۔یوکرین کومیڈیامظلوم اوراچھابچہ کے طورپرپیش کررہاہے۔اس متعلق صرف دوباتیں ریکارڈپرلاناچاہتاہوں۔پہلی یہ کہ ہٹلرسے متاثر،نسل پرست اورسفیدرنگ کے لوگوں کواشرف اوربرترجاننے والے نوجوانوں کی عسکری تنظیم یوکرین میں ”آزوف بٹالین“کہلاتی تھی۔سفیدفام برتری کے قائل یہ لوگ ہم جیسے”رنگین“لوگوں کوگھٹیااورکمترخیال کرتے ہیں،مارپیٹ بھی کرتے ہیں۔یوکرین کی فوج نے اس نسلی منافرت پھیلانے والی تنظیم کوباقاعدہ فوج میں شامل کرلیا اوریہ کوئی جنگ کے ہنگام نہیں ہوا،بلکہ جنگ سے دوبرس پہلے ہی AZOFبٹالین فوج کاحصہ بن گئی۔دوسری چیز جس نے میرایوکرینی حکومت سے دل کھٹاکرکردیاوہ جنگ کی ابتداء کے دنوں میں انخلا کے وقت منظرعام پرآنے والی پاکستانی،انڈین،افریقی نژادلوگوں کی ویڈیوزتھی۔سرکاری ملازمین ٹرین اوربس میں سوارہونے کے لئے بننے والی قطارمیں سے چن چن کرگندمی اورسیاہ فام لوگوں کوباہرنکال رہے تھے کہ آپ سوارنہیں ہوسکتے۔مائیکروفون سے سرکاری اہلکاراعلان فرمارہے تھے کہ صرف سفیدفام لوگ ہی گاڑی میں سوارہونے کے اہل ہیں۔روس میں ایسی حرکت کاتصوربھی محال ہے۔
ممکن ہے کچھ قارئین کویہ تحریرروس کے موقف کی تائیدمحسوس ہو۔میں اس بات سے انکاربھی نہیں کرتامگراس کی وجہ ذاتی پسند نہیں بلکہ قومی ہے۔پہلی بات اس بابت یہ ہے کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعددنیامیں طاقت کاتوازن مکمل طورپرامریکہ اوریورپی بلاک کے حق میں چلاگیا۔یہ یک قطبی دنیاپاکستان جیسے ترقی پذیرممالک کے لئے بری خبر ثابت ہوئی۔چین کی حیرت انگیزترقی اورروس کی انگڑائی سے یہ تزویراتی توازن دوبارہ پیداہوتادکھائی دے رہاہے،کثیرقطبی دنیاکے قیام کاامکان ہم جیسے ممالک کے لئے اچھاشگون ہے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ روسی عوام نسلی تعصب نہیں رکھتے ہیں۔بطورپاکستانی وہ ہمیں اپنے برابرکاانسان تسلیم کرتے ہیں اوراسی طرح برابری کابرتاؤکرتے ہیں۔یورپ کے باقی ممالک میں بسنے والی اقوام کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جاسکتی۔شایدیہ سوویت یونین کی75سالہ تربیت کااثرہے کہ روس کے لوگ نہ توکسی سے دبتے ہیں اورنہ ہی کبھی کسی کودبانے کی کوشش کرتے ہیں۔امیرغریب،افسرماتحت،سفیدرنگین،مردوزن ایک خاص طرح کی برابری کاتاثردیتے ہیں۔مغربی میڈیاہمیشہ آزادی اظہارکادرس دیتاہے۔نشریاتی بندشوں کے خلاف ہمیشہ مغربی میڈیاکوسراپااحتجاج دیکھاہے مگرکبھی کسی برطانوی یاامریکی جریدے میں آج تک میں نے روس کے بارے میں مثبت اوراچھاکوئی ایک لفظ بھی نہیں پڑھاہے۔نیویارک ٹائمزاس وقت میرے سامنے پڑاہے اورروس سے متعلق خبروں کے باتصویرصفحے کی شہ سرخی ملاحظہ فرمائیے”تمام روسی یہ چاہتے ہیں کہ یوکرینی عوام سردی سے مرجائیں“تبصرہ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
مختلف جرائم میں ملوث پابندسلاسل افرادپرمشتمل یونٹ محاذ جنگ پربھیجناروسی روایت رہی ہے۔”شتراف باٹ“جسے اردومیں جرمانہ بٹالین کہہ سکتے ہیں،ہراول دستے کے طورپرلڑتی آئی ہے۔اس بٹالین کے آگے دشمن اوراس کاعلاقہ ہوتاہے جبکہ پیچھے روسی فوج پیش قدمی کررہی ہوتی ہے۔یعنی آگے اورپیچھے سے گھرے ہوئے ہوتے ہیں۔جنگ میں فتح کی صورت میں اس بٹالین میں شامل مجرمان کی سزائیں معاف کردی جاتی ہیں۔یوکرین اورمغرب”شتراف باٹ“پرشدیدتنقیدکررہاہے مگرجنگ میں بھلاکونساقانون اوراخلاقیات کاپاس ولحاظ۔میراخیال ہے کہ یہ جنگ ابھی لمباعرصہ چلے گی۔جنگ کے خاتمے کاامکان اس لئے کم ہے کہ NATOاسلحہ اورپیسہ بے دریغ یوکرین بھیج رہاہے،روس بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔اس تناظرمیں مجھے یہ ایک نئی سردجنگ کاآغازلگ رہاہے۔