دو مجرموں کو ختم کرنے کے لیے تین مجرم پیدا کئے گئے
مختلف ریسرچ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جرم کی واحد سب سے اہم وجہ خود سے نفرت ہے۔ جس کی پرورش ابتدائی برسوں میں والدین سے ہوتی ہے جنہوں نے خود سے اتنی نفرت کی کہ وہ اپنے بچوں سے محبت کی بجائے دشمنی کا اظہار کرتے ہیں۔جن کی خود کی پرورش اگر ٹھیک نہ ہو تو وہ کچھ نہیں جانتے کہ دوسرے کو پالنے کا کیا مطلب ہے۔زندگی جذباتی اور جسمانی بقا کے لیے ایک مایوس کن جدوجہد بن جاتی ہے جو دوسروں کے احساسات اور حقوق کے لیے حساسیت کے ذریعے طے کیے جانے والے رویے کو روکتی ہے۔ خاندان میں پروان چڑھے والی خودکی نفرت کو اکثرمعاشرہ میں تقویت ملتی ہے۔ جہاں حالات زندگی، نسلی تعصب، اسکول کی ناکامی، بے روزگاری، فوجداری نظام، انصاف کا نہ ملنا، انتظامیہ سے سخت سلوک وغیرہ دراصل خود کی نفرت کو مزید ہوا دیتا ہے۔مجرموں کو ڈرانے،خوفزدہ کرنے اور سزا دینے کے لیے نظامِ انصاف کی عدم دستیاب کی کوششیں رویے کی تبدیلی میں صرف پچھلے غیر انسانی تجربات کو تقویت دیتی ہے، جس نے مجرمانہ رحجانات کو فروغ دیا ہے۔
اتوار 16/اپریل کی صبح سحری کھانے کے لئے اٹھا تو اس وقت لندن میں صبح کے چار بج رہے تھے۔ ہلکی پھلکی سحری کھاکر سوشل میڈیا پر این ڈی ٹیوی کے ویب سائٹ پر جب نظر پڑی تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔خبر ہی کچھ ایسی تھی کہ سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ یہ کسی فلم کے سین کودکھا یا جارہا یا حقیقت ہے۔اغوا اور قتل اور حملہ کے الزامات کا سامنا کرنے والے ایک سابق بھارتی رکن پارلیمنٹ کو ٹی وی پر براہ راست نشر ہونے والی ڈرامائی شوٹنگ میں اس کے بھائی کے ساتھ قتل کردیا گیا ہے۔دماغ میں فوراً گاندھی فلم کا سین گھومنے لگا جس میں گاندھی جی کو دھوکے سے ہندو قوم پرست ناتھو رام گوڈسے نے گولی ماری اور گاندھی جی کے منہ سے نکلی ” ہے رام “یاد آنے لگے۔
دوسرے روز دنیا بھر کی اخباروں اور ٹیلی ویژن پر عتیق احمداور ان کے بھائی کوجس طرح گولی ماری گئی اس کی خبر اور ویڈیو دکھایا جانے لگا۔برطانیہ، امریکہ سمیت دنیا بھر کی اخباروں نے اس واقعہ پر حیرانی جتائی ہے تو وہیں انسانی حقوق کے گروپوں نے تشویش ظاہر کی ہے۔حیرانی اس بات سے ہورہی ہے کہ گولی مارنے والے کو “جے شری رام “کا نعرہ کیوں لگانا پڑا۔ کہیں یہ تمام بات ہندو قوم پرست لوگوں کی سازش تو نہیں ہے؟ ورنہ ایک گینگ کے لوگ دوسرے گینگ پر حملہ کریں تو “جے شری رام کا نعرہ “کا کیا لینا دینا؟ویسے آج کل ہندوستان میں مسلمانوں پرکسی بات پربھی حملہ ہو،” جے شری رام” کا نعرہ لگانا لازمی ہوگیا ہے۔
سابق ایم پی عتیق احمد جو جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے اور ان کے بھائی اشرف احمد شمالی ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے پریاگ راج کے ایک اسپتال کے باہر پولیس کی حراست میں تین افراد نے ان پر بیس سے زائد گولیاں چلائیں۔دونوں بھائیوں کی موقع پر ہی موت ہوگئی۔ پولیس افسر نے بتایا کہ تینوں حملہ آور صحافیوں کا روپ دھار کر موٹر سائیکلوں پر آئے اور ان کے ساتھ کیمرہ کا سامان، ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک کا لوگو والا مائکروفون اور جعلی صحافیوں کی شناخت تھی۔تینوں بائٹ ریکارڈ کرنے کے بہانے عتیق اور اس کے بھائی کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اور قریب سے ان پر فائرنگ کر دی۔ یہ سب کچھ سیکنڈوں میں ہوا۔ اس حملے کو جائے وقوعہ پر موجود کئی براڈ کاسٹروں نے ٹیلی ویژن پر براہ راست دکھایا۔
تینوں مجرموں نے گولی چلانے کے بعد فوری طور پر پولیس کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور اپنی پستول حوالے کر دیے۔ ان لوگوں نے جے شری رام کا نعرہ لگایا۔ یہ نعرہ عام طور پر آج کل ہندو قوم پرست مسلمانوں کے خلاف حملہ کرتے ہوئے لگاتے ہیں۔حملہ آوروں کا نام لیولیش تیواری، موہت پرانے اور ارون کمار موریہ تھا۔مبینہ طور پر ان افراد نے پولیس کو بتایا کہ” وہ احمد برادران کی حراست میں آنے کے بعد سے دو دن سے ان کا پیچھا کر رہے تھے اور وہ اس واردات کو انجام دینا چاہتے تھے”۔ان لوگوں نے مزید یہ بھی بتایا کہ” ہم عتیق احمد اور اس کے بھائی اشرف کو قتل کرنا چاہتے تھے تاکہ عتیق اشرف گینگ کا مکمل صفایا کیا جاسکے اور اپنا نام روشن کیا جاسکے”۔
احمد برادران وکیل امیش پال کے قتل کے سلسلے میں پولیس کی حراست میں تھے۔ جو ایک اور قتل کے معاملے میں کلیدی گواہ تھے جس میں وہ ملوث تھے۔ گزشتہ ماہ احمد نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ ان کی جان کو پولیس سے خطرہ ہے۔ ان کے وکیل وجے مشرا نے کہا کہ یہ واقع چونکا دینے والا ہے کیونکہ” یہ ان کے مؤکلوں کی حفاظت کو یقینی بنانے میں پولیس کی واضح ناکامی ہے”۔
اتر پردیش ہندوستان کا کثیر آبادی والا صوبہ ہے۔ یہ ریاست جرائم کے حوالے سے شہرت رکھتی ہے اور وزیر اعلیٰ سمیت تقریباً نصف وزراء کے خلاف فوجداری مقدمات زیر التو ہیں۔ عتیق احمد کے قتل سے کچھ دن قبل ہی ان کے 19سالہ بیٹے کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔اتر پردیش میں پولیس کے پاس مجرموں کے ماورائے عدالت انکاؤنٹر کو گولی مارنے کا ایک بدنام ریکارڈ ہے جن کے بارے میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ حراست سے فرار ہونے کی کوشش کرتے ہیں یا جنہوں نے پہلے افسران پر گولی چلائی تھی۔ پچھلے پانچ برسوں میں اتر پردیش میں تقریباً 9000پولیس فائرنگ کے واقعات ہوئے ہیں جن میں 150سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔
’ہندوراشٹر‘ بنانے کا خواب بی جے پی کے سیاستداں برسوں سے دیکھ رہے ہیں تاہم انہیں اس سلسلے میں کافی دشواریوں کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔کیونکہ ہندوستان مختلف مذاہب، ثقافت، زبان اور ماحول کا ملک ہے۔رام کے اس دیش کو رحیم،بدھ، جین، گرونانک، اور کئی ایسے سادھو،سنت، پیر اور پیغمبروں نے اپنایا ہے جس کی مثال دنیا کے کسی اور حصّے میں نہیں پائی جاتی ہے۔ لیکن پچھلے کچھ برسوں سے آر ایس ایس، وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے لیڈروں نے اپنے ناپاک ارادے اور سماج دشمن کی حوصلہ افزائی کر کے ایک خاص فرقے کو نشانہ بنا رہے ہیں۔اور لوگوں کے دماغ کو اتنا زہر آلود کر دیا ہے کہ وہ ایک خاص فرقے کوجب نشانہ بناتے ہوئے حملہ کرتے ہیں تو ” جے شری رام “کہنا فخر سمجھتے ہیں۔
میرے محسن اور معروف ادیب و شاعر جناب محمد خورشید اکرم سوز کا ایک پوسٹ فیس بُک پر اسی واقعہ کے حوالے سے میری نظروں سے گزرا،جسے میں آپ لوگوں کے ساتھ شئیر کروں گا۔ جس میں انہوں نے بڑی اہم بات لکھی کہ” غور کریں!، دو مجرموں کو ختم کرنے کے لیے تین مجرم پیدا کئے گئے۔ یقیناً یہ تینوں کسی وزیر، کسی بڑے افسر یا کسی تاجر کے بیٹے نہیں ہوں گے۔ یقیناً آنے والے دنوں میں یہ نظام ان تینوں مجرموں کو ختم کرنے کے لیے کچھ اور نئے مجرم پیدا کرے گا!!!”
عتیق احمد کی حفاظت یوپی پولیس کے ذمّے تھی اور پولیس انہیں ہتھکڑی پہنا کر ہسپتال لے جارہی تھی لیکن تین لوگ فرضی صحافی بن کر انہیں گولی مار دیتے ہیں۔لیکن بات ہضم نہیں ہورہی کیونکہ جس عتیق اور اس کے بھائی کو پولیس ہمیشہ بھاری پولیس قافلے کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی توکیونکر اس دن چند پولیس والوں کے ساتھ انہیں ہسپتال بھیجا جارہا تھا؟اس کے علاوہ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایک مجرم تو ایک سیاسی جماعت کے وزیر کی میٹنگ میں بھی موجود تھا۔
مانے یا نہ مانے مجھے تو دال میں کالا نظر آرہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ پورا واقعہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت انجام دیا گیا ہے۔ہندوستان کے صوبہ یوپی میں جس طرح سے عتیق اور اس کے بھائی کو پولیس کی حراست میں مارا گیا اور جس کا ویڈیو پوری دنیا میں وائرل ہواجس پر کافی حیرانی جتائی جارہی ہے۔ اس کے بعد جس طرح مجرموں کو مارنے کے لئے مزید مجرموں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے جو کہ ایک شرمنا ک بات ہے۔مجرموں کو سزا دینے کا کام عدالت کا ہے نا کہ پولیس کی حراست میں بذریعہ آسانی دیگر مجرموں کی مدد سے اس کام کو انجام دیا جائے تویہ ایک تشویش ناک بات ہے۔
کئی سوالات ذہن میں ابھر رہے ہیں جس کا جواب شاید ہمیں کبھی نہ مل سکے۔اب دیکھنایہ ہے کہ انکوائری سے کوئی ٹھوس بات سامنے آئے گی یا ہر بار کی طرح معاملہ ٹائے ٹائے فش ہوجائے گا۔ لوگوں کا یقین پولیس سے تو پہلے ہی اٹھ چکا تھا اوراس واقعہ کے بعد جس طرح فرضی صحافی بن کر مجرموں نے اس کام کو انجام دیا اس سے اب لوگ صحافیوں سے بھی خوف کھائے گیں۔جو کہ ایک شرمناک بات ہے۔