کالم

شرم تم کو مگر نہیں آتی!

Share

مرزاغالب نے یہ شعر “کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب۔شرم تم کو مگر نہیں آتی”کہا تو خود کے لئے تھا لیکن اکثرآج بھی لوگ جب کسی بے حیا انسان سے عاجز ہوجاتے ہیں تو غالب کے اسی شعر کویاد کر کے اور کہہ کر کچھ پل کے لئے دل کو تسلی کر لیتے ہیں۔

سورۃ اَل عمران کی آیت کا “وَتُعِزُّ مَن تَشَآ ءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَآء”ُ، کو آپ نے اکثر لوگوں کو دہراتے ہوئے سنا ہوگا۔اس پوری آیت 26میں اللہ کہتا ہے کہ” آپ کہہ دیجئے، اے اللہ!اے تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے”۔

ہمارا عقیدہ بھی ہے کہ عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن کچھ لوگ اپنی دولت، مغروریت اور طاقت کے نشے میں اتنے چور رہتے ہیں کہ انہیں اپنی عزت کی پرواہ ہی نہیں ہوتااور وہ فرعون بن کر اپنی مرضی کے مطابق کمزور اور مظلوموں پر ظلم کرنا محض اپنی ضد،انا اور وقار سمجھتے ہیں۔لیکن اسی انسان سے جب اس کا عہدہ اور طاقت چھن جاتی ہے تو اسے ذلیل و خار ہونا پڑتا ہے۔ جس سے اس کی کافی رسوائی ہوتی ہے۔ تاہم وہیں کچھ لوگ ذلیل و خار ہو کر بھی رسوائی کو محض ایک الزام سمجھتے ہیں اور بے حیائی سے دوبارہ سامنے آکر اپنی صفائی توڑ موڑ کرپیش کرنے لگتے ہیں۔

بچن سے ایسی باتوں کو پڑھ کر اور سن کر جوان ہوگیا کہ طاقت کے نشے میں اور عہدے کی آن و شان سے فلاں شخص نے ایسے ایسے فرمان جاری کئے یا ایسی حرکتیں کی کہ لوگ مارے خوف اپنی زندگی گزارتے تھے۔ان میں فرعون ایک ایسا نام ہے جس کی مثالیں آج بھی لوگ دیتے ہیں۔ لیکن جب سے دنیا قائم ہوئی ہے میں سمجھتا ہوں کہ ہر صدی میں ظلم و جبر کرنے والے حکمراں پیدا ہوتے رہے ہیں۔پھر لوگوں نے ان حکمراں کے نظریے کو اپنایا اوراس کی حمایت بھی کی۔ اور اس طرح آج تک دنیا بھر میں بہت سارے حکمراں اپنے عہدے اور طاقت کی بنا پر دنیا کی امن کو نیست و نابود کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی ہے۔

حال کی بات کرے تو امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے لے کر ہندوستان کے نریندر مودی کا نام نمایاں طور پر لیا جاسکتا ہے۔ جنہوں نے اپنے عہدے اور طاقت کا فائدہ اٹھا کر دنیا بھر میں ایک خلفشار مچا رکھا ہے۔ تاہم ڈونلڈ ٹرمپ تو الیکشن ہار چکے ہیں لیکن اپنی کرتوتوں سے اب بھی وہ سرخیوں میں بنے ہوئے ہیں۔ وہیں ان کے دوست نریندر مودی دوسری بار وزیراعظم بن کر جھوٹ، مکاری اور نفرت انگیز نظریے کے تحت ہندوستان کے معصوم لوگوں کا ذہن اپنی اوٹ پٹانگ باتوں سے زہر آلود بنا رہے ہیں۔ان لوگوں کا مقصدصرف یہ ہے کسی طرح حکومت پر قابض رہے اور جس کے لئے جیسے بھی ہتھکنڈے ہوں وہ استعمال کرتے رہیں۔

مارچ کے مہینے سے گاہے بگاہے ڈونلڈ ٹرمپ کے متعلق یہ خبریں آرہی تھی کہ انہیں 4/اپریل کو عدالت میں پیش کر کے گرفتار کر لیا جائے گا۔ہم بھی اس خبر سے کافی پر جوش تھے بلکہ یوں کہہ لیں کہ پوری دنیا کہ لوگوں کی نظر ڈونلڈ ٹرمپ کی گرفتاری پر ٹکی ہوئی تھی۔اور ہو بھی کیوں نا، آپ کو یادہی ہوگا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دورِ حکومت میں کیسے کیسے ایکزیکیٹیو فائلیں سائن کی تھی۔ اور یہی نہیں ان کی زہر آلودتقاریرسے ہمارا جینا حرام ہوچکا تھا اور ہر پل ایک خوف سا لگا رہتا تھا کہ اب ٹرمپ کیا کرے گا۔لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے عدالت حاضری سے لے کر گھر واپسی نے سارا موڈ خراب کردیا۔ وہ تو حضرت بولیٹ پروف گاڑی میں بیٹھ کر اپنے عالیشان نیو یارک کے ٹرمپ ٹاؤر سے نکلے اور آدھے گھنٹے کی سواری کے بعد مین ہاٹین کے کورٹ پہنچ گئے۔لیکن اتنا ضرور ہوا کہ مغرور ڈونلڈ ٹرمپ کو جج کے سامنے پیش ہونا پڑا جو کہ پہلی بار کسی امریکی صدر کے ساتھ ہوا۔ بس ایک بات کی کمی رہ گئی وہ تھی، ہاتھ میں ہتھکڑی۔ ٹرمپ عدالت گئے جہاں انہیں گرفتار کر لیا گیا اور 16صفحات پر مشتمل فردِ جرم میں دھوکہ دہی کے 34سنگین الزام عائد کئے گئے۔

30/مارچ کو سابق صدر امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ کو نیویارک کے مین ہیٹن کی ایک گرینڈ جیوری نے فحش فلموں کی اداکارہ اسٹورمی ڈینیئلز کو خفیہ طور پر دی جانے والی رقم سے ادائیگی کے اسکینڈل میں ان کے مبیہ کردار کے لیے فرد جرم عائد کی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ پہلے امریکی صدر ہیں جن پر فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ ٹرمپ کو فرسٹ ڈگری میں کاروباری ریکارڈ میں جعل سازی کے 34سنگین الزامات کا سامنا ہے۔ نیو یارک میں کاروباری ریکارڈ کو جعل سازی کرنا ایک غلط فعل ہے اور یہ ٹرمپ کے لئے ایک جرم بن سکتا ہے۔

تاہم امریکی بھی بڑے ہوشیار اور ناک والے ہوتے ہیں۔ ورنہ کیوں سیکریٹ سروس نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ہتھکڑی پہنانے سے منع کیا۔ ظاہر سی بات ہے کہ امریکہ دنیا کے سامنے اپنے سابق صدر کو ہتھکڑی پہنا کر ناک کٹوانا نہیں چاہتا ہے۔ ورنہ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر ہتھکڑی پہنائی جاتی تو امریکہ کی سوپر پاؤو کی حیثیت سے رہی سہی عزت خاک میں مل جاتی۔ پھر بھی سوشل میڈیا پر لوگ کہاں باز آنے والے تھے۔کئی ایڈیٹ تصاویر نظروں سے گزری جس میں ڈونلڈ ٹرمپ کو کبھی ہتھکڑی تو کبھی امریکی پولیس کے ذریعہ گھسیٹے ہوئے کورٹ لے جاتے ہوئے دکھایا گیا۔

پروسیکیوٹرس نے الزام لگایا کہ ٹرمپ نے 2016کے انتخابات کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی جس میں ان خواتین کو خطیر رقم کی ادئیگی کی گئی تھی جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے ٹرمپ کے ساتھ غیر ازدواجی تعلقات ہیں۔ تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے تمام غلط کاموں اور معاملات سے انکار کیا ہے۔ ٹرمپ کی ٹیم کے پاس کوئی بھی اپیل داخل کرنے کے لیے 8/اگست تک کا وقت ہے اور پروسیکیوٹرس 19/ستمبر تک جواب دے گا۔ کیس کی نگرانی کرنے والے جج نے کہا کہ وہ 4/دسمبر کو ہونے والی اگلی ذاتی سماعت میں فیصلہ سنائیں گے۔
خیر ڈونلڈ ٹرمپ کورٹ سے نکل کر آن و شان سے اپنے نجی جہاز پر بیٹھ کر اپنے گھر فلوریڈا پہنچ گئے۔ جہاں انہوں نے توقع کے مطابق اپنے حریف پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ” سارے الزامات بے بنیاد اور جھوٹ ہے۔ان کے خلاف ایک سازش ہے تاکہ وہ امریکہ کے اگلے الیکشن میں حصہ نہ لے سکیں “۔ اس کے علاوہ ٹرمپ نے یہ بھی کہہ ڈالا کہ امریکہ اب خطرے میں ہے۔

76 / سالہ ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کا ایک امیر ترین اور رنگین مزاج کا آدمی ہے اور پیشے سے تاجر ہے۔ ان کے والد فریڈ ٹرمپ امریکہ کے ایک نامی گرامی اور امیر ترین ریئل اسٹیٹ کے مالک رہ چکے ہیں۔ خاندانی دولت مند ہونے کے باوجود شروعاتی دور میں ڈونالڈٹرمپ اپنے والد کی کمپنی میں کم تنخواہ کی نوکری پر فائز تھے۔13/ سال کی عمر میں اسکول میں لاپرواہی اور ناجائز حرکتوں کی وجہ سے انہیں ملیٹری اکیڈمی میں داخل کر دیا گیا تھا۔ بعد میں ڈونالڈ ٹرمپ نے (University of Pennsylvania)یونیورسٹی آف پینسلوینیا کے وارٹن اسکول سے اپنی تعلیم مکمل کی اور اپنے والد کے کاروبار میں حصہّ لینے لگے۔ڈونالڈ ٹرمپ کے ایک بھائی جن کا 43/ سال کی عمر میں شراب کی لت سے انتقال ہوگیا تھا۔جس کی وجہ سے ڈونالڈ ٹرمپ نہ تو شراب پیتے ہیں اور نہ ہی انہیں سگریٹ نوشی کی عادت ہے۔1971میں وہ اپنے والد کے کمپنی کے انچارج بن گئے تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ان کے والد کی زندگی ان کے لئے مشعلِ راہ ہے۔جن کا انتقال 1999میں ہوا تھا۔ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے ریئل اسٹیٹ کے کا روبار کی شروعات ایک میلین ڈالر سے شروع کیا تھا جو انہوں نے اپنے والد سے قرض لیا تھااور انہوں نے اپنے ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں خوب ترقی کی۔نیو یارک کا 68 منزلہ ٹرمپ ٹاور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتاہے۔اس کے علاوہ ٹرمپ پلیس، ٹرمپ ورلڈ ٹاور، ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل اور نہ جانے مزید کتنی عمارتیں پوری دنیا میں ٹرمپ کی ملکیت ہیں۔

ڈونالڈ ٹرمپ نے تین شادیاں کی ہیں۔ ان کی پہلی بیوی جن کا نام ایوانا زیلنیکواہے جو کہ ایک اتھیلیٹ اور ماڈل تھیں۔ ان کا تعلق چیک ری پبلک ملک سے تھااور1990میں ایوانا کو طلاق ہو گئی۔اس کے بعد ڈونالڈ ٹرمپ نے معروف اداکارہ مارلا میپلس سے 1993میں دوسری شادی کی تھی جسے انہوں نے 1999میں طلاق دے دی۔2005میں دونالڈ ٹرمپ نے میلانیا کناوس سے تیسری شادی کی جو کہ ایک معروف ماڈل تھیں۔ڈونالڈ ٹرمپ نے کئی کتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔ معروف (Forbes)فوربس میگیزین کے تحت ڈونالڈ ٹرمپ $3.7bnارب ڈالر کے مالک ہیں۔اگرچہ ڈونالڈ ٹرمپ نے اصرار کیا ہے کہ ان کے پاس $10bnارب ڈالر کے مالک ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ مودی کے دوست ٹرمپ کو دسمبر میں جج جیل بھیجتے ہیں یا باعزت بری کرتے ہیں۔تاہم پروسیکیوٹرس کا دعویٰ ہے کہ ٹرمپ نے جعل سازی کی ہے اور اسے جیل جانا چاہیے۔لیکن ڈر ا س بات کا ہے کہ ٹرمپ دنیا کا ایک امیر ترین اور خطرناک ذہن والا انسان ہے جو دولت سے کچھ بھی خرید سکتا ہے اور اپنی بقا کے لئے ہر حد پار کر سکتا ہے۔ اب ٹرمپ جیل جائے یا نہ جائے لیکن کورٹ میں حاضر ہوکر ان کی جو رسوائی ہوئی ہے اسے تاریخ کبھی نہیں بھلا پائے گی۔اسی لئے تو کہتے ہیں