Site icon DUNYA PAKISTAN

عمران خان کو احاطہ عدالت سے گرفتار کرلیا گیا

Share

سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں نیب کے حکم پر رینجرز نے گرفتار کرلیا۔

عمران خان کے وکیل فیصل چوہدری نے تصدیق کی ہے کہ سابق وزیراعظم کو رینجرز نے احاطہ عدالت سے حراست میں لے لیا۔

عمران خان 7 مقدمات میں ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے تھے جہاں سے رینجرز نے ان کو حراست میں لے لیا۔

اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری بیان میں تصدیق کی گئی ہے کہ عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیاگیا ہے۔

آئی جی اسلام آباد کے مطابق حالات معمول کے مطابق ہیں، دفعہ 144 نافذ العمل ہے خلاف ورزی کی صورت میں کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

عمران خان کے وارنٹ گرفتاری کی دستیاب کاپی کے مطابق نیب نے عمران خان کو نیب آرڈیننس 1999 کے سکیشن 9 اے کے تحت گرفتار کیا، نیب نے 34 اے، 18 ای، 24 اے کے تحت کارروائی عمل میں لاتے ہوئے عمران خان کو گرفتار کیا۔

نیب اعلامیے کے مطابق عمران خان پر کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز میں ملوث ہونےکا الزام ہے، گرفتاری کے بعد ان کو متعلقہ عدالت میں پیش کیا جائےگا۔

عمران خان پر تشدد کا دعویٰ

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے کہا ہے کہ عمران خان کو گرفتاری کے وقت بری طرح دھکیلا گیا ہے جو پہلے ہی زخمی ہیں۔

علاوہ ازیں وکیل بیرسٹر گوہر نے بھی دعویٰ کیا کہ رینجرز نے عمران خان کے سر اور ٹانگ پر تشدد کیا۔

ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان کو گرفتار کرنے والے سب رینجرز اہلکار تھے، عمران خان کے زخمی ٹانگ پر تشدد کیا گیا۔

عمران خان کا وارنٹ گرفتاری یکم مئی کو جاری کیا گیا تھا، رہنما پی ٹی آئی

پی ٹی آئی رہنما اظہر صدیق نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان کا وارنٹ گرفترای یکم مئی کو جاری کیا گیا تھا۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ نیب عدالت سے اجازت کے بغیر عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی ہے، چیئرمین نیب کا وارنٹ گرفتاری جاری کرنا اختیارات سے تجاوز ہے۔

انہوں نے لکھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ احاطے سے گرفتاری توہین عدالت ہے، چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) نذیر احمد نے یکم مئی (چھٹی کے روز) عمران خان کا وارنٹ گرفتاری جاری کیا۔

پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے دعویٰ کیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ پر رینجرز نے قبضہ کر لیا ہے، وکلا کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، عمران خان کی گاڑی کے گرد گھیرا ڈال لیا گیا ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری کردہ بیان میں پی ٹی آئی نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر چیئرمین عمران خان کے وکیل کو بری طرح سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

حماد اظہر نے کارکنوں اور عوام سے مطالبہ کیا کہ گھر سے باہر نکلیں کیونکہ اگر آج ہم باہر نہ نکلے تو یہ ملک ہمیشہ کے لیے ان چوروں اور ڈاکوؤں کے حوالے کردیا جائے گا اور دوبارہ یہاں کوئی سر اٹھا کر نہیں جی سکے گا۔

عمران خان پر کوئی تشدد نہیں کیا گیا، رانا ثنا اللہ

دوسری جانب وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے پی ٹی آئی رہنماؤں کے دعووں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان پر کوئی تشدد نہیں کیا گیا۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ نوٹسز کے باوجود عمران پیش نہیں ہوئے، قومی خزانے کو نقصان پہنچانے پر نیب کی جانب سے گرفتاری کی گئی ہے۔

انہوں نے مزید لکھا کہ ان پر کسی قسم کا کوئی تشدد نہیں کیا گیا۔

آئی جی اسلام آباد طلب

دریں اثنا چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے 15 منٹ میں آئی جی اسلام آباد پولیس کو طلب کرلیا۔

چیف جسٹس نے حکم دیا کہ سیکٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد، ایڈیشنل اٹارنی جنرل 15 منٹ میں پیش ہوں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ آپ نے کیا کیا ہے؟ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال ہے، میں تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہوں، اگر 15 منٹ میں پیش نہ ہوئے تو وزیراعظم کو طلب کرلوں گا، پیش ہو کر بتائیں کہ کیوں کیا، کس مقدمے میں کیا؟

مفروضوں پر کسی کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا، ماہر قانون

ماہر قانون بیرسٹر اسد رحیم خان نے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کی وضاحت موجود ہے کہ اس طرح مفروضوں پر کسی کو گرفتار نہیں کر سکتے اس سے پہلے باقاعدہ تفتیش ہونی ہے۔

ڈان نیوز ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر اسد رحیم خان نے کہا کہ یہ بہت تشویش ناک صورتحال ہے کیونکہ عدالت عظمیٰ کی بھی وضاحت موجود ہے کہ اس طرح مفروضوں پر کسی کو گرفتار نہیں کر سکتے اس سے پہلے باقاعدہ تفتیش ہونی ہے۔

بیرسٹر اسد رحیم خان نے کہا کہ جج صغریٰ بی بی کا ایک فیصلہ بھی ہے کہ جب تک آپ بات کی تہہ تک نہیں پہنچتے تو اس طرح گرفتاریاں نہیں کر سکتے اور یہاں (گرفتاری) میں واضح ہوگیا ہے کہ نا تو آپ تفتیش کی اس سطح پر پہنچے ہیں، نا کوئی کیس ہے جس میں کوئی خاص وزن واضح ہوا ہے تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جس طرح کچھ وقت سے ہمارے بنیادی حقوق محدود سے محدود ہوتے جا رہے ہیں آج کا دن بھی اس کی کڑی ہے۔

بیرسٹر اسد رحیم نے کہا کہ بات یہ نہیں کہ وزیراعظم یا کسی اعلیٰ حکام کو طلب کرلیا جائے گا لیکن بات یہ ہے کہ اگر آپ آئین و قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں تو آپ کس طرف بڑھ رہے ہیں جہاں بے بنیاد الزامات پر لوگ اٹھائے جا رہے ہیں ان کے گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر حزب اختلاف کو گرفتار کیا جاتا ہے تو آپ کے سیاسی نظام پر بھی سوالیہ نشان اٹھتے ہیں جب تک کہ کیس میں اس طرح کی تفتیش نا کی گئی ہو۔

بیرسٹر نے مزید کہا کہ بنیادی حقوق اور ہمارے سیاسی نظام کے حوالے سے بلکل ایسا نہیں لگ رہا کہ قانون یا عدالت عظمیٰ کے احکامات کو ترجیح دی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر قومی احتساب بیورو کی طرف سے گرفتاری کا وارنٹ دکھایا گیا ہے تو نئے قانون کے تحت اس پر تفتیش جاری رہے گی اور ٹرائل کی طرف بڑھا جائے گا جس کے بعد عمران خان کی قانونی ٹیم یہ کہتے ہوئے ان کی ضمانت کی کوشش کرے گی کہ عمران خان تفتیش میں مکمل تعاون کریں گے، فرار نہیں ہوں گے۔

7 مقدمات میں ضمانت منظور

قبل ازیں عمران خان اسلام آباد میں درج 7 مختلف مقدمات میں ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے جوڈیشل کمپلیکس پہنچے تھے جہاں انہوں نے وکالت ناموں پر دستخط کیے۔

عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ پہلے جب ہم آئے تو 5 درخواستیں لے کر آئے تھے، دروازے بند تھے اور 40 منٹ تک شدید شیلنگ کی گئی، ہم لاہور ہائی کورٹ میں گئے اور حفاظتی ضمانت حاصل کی۔

جج راجا جواد عباد حسن نے نے کہا کہ سلمان صاحب، ہم آپ کی تفصیل بعد میں سنیں گے، آپ کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہیں۔

عدالت نے ہدایت کی کہ عمران خان کی تمام 7 درخواستوں پر دستخط اور انگوٹھے لگوا لیں۔

بعدازاں عدالت نے عمران خان کی 7 مقدمات میں 50،50 ہزار کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کر لی۔

عدالت نے 23 مئی تک ضمانت منظور کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر پولیس سے ریکارڈ طلب کر لیا۔

عزت صرف ایک ادارے کی نہیں ہر شہری کی ہونی چاہیے، عمران خان

خیال رہے کہ آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے لیے روانہ ہونے سے قبل ایک ویڈیو پیغام سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک مرتبہ پھر اپنی توپوں کا رخ پاک فوج کی جانب کرتے ہوئے کہا تھا کہ عزت صرف ایک ادارے کی نہیں ہر شہری کی ہونی چاہیے اور جو ادارہ اپنی کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے وہ مضبوط ہوتا ہے۔

میں انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کے لیے روانگی سے قبل میں 2 باتیں کرنا چاہتا ہوں، آئی ایس پی آر نے بیان دیا ہے کہ ادارے کی توہین کردی، فوج کی توہین کردی۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ ’ایک انٹیلی جنس افسر کا نام لے دیا، جس نے 2 مرتبہ مجھے قتل کرنے کی کوشش کی، آئی ایس پی آر صاحب! ذرا میری غور سے بات سنیں، عزت صرف ایک ادارے کی نہیں ہے، عزت قوم میں ہر شہری کی ہونی چاہیے‘۔

عمران خان نے مزید کہا کہ ’میں اس وقت قوم کی سب سے بڑی پارٹی کا سربراہ ہوں، 50 سال سے قوم مجھے جانتی ہے، مجھے کوئی جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ہے‘۔

ایک مرتبہ پھر اپنے الزامات دہراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اس آدمی نے 2 مرتبہ مجھے قتل کرنے کی کوشش کی اور جب بھی تحقیقات ہوں گی میں یہ ثابت کروں گا یہ وہ آدمی تھا، اور اس کے ساتھ پورا ٹولہ ہے اور اس کے ساتھ کون ہیں وہ بھی آج کے سوشل میڈیا کے زمانے میں سب کو پتا ہے‘۔

القادر ٹرسٹ کیس

واضح رہے کہ گزشتہ سال وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے عمران خان اور ان کی اہلیہ پر بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض سے ساز باز کر کے بحریہ ٹاؤن کے بدلے القادر ٹرست کی زمین لینے کا الزام عائد کیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ اسی بحریہ ٹاؤن نے جس کا 50 ارب روپیہ ایڈجسٹ کیا گیا، اس نے 458 کنال کی جگہ کا معاہدہ کیا جس کی مالیت کاغذات میں 93 کروڑ روپے جبکہ اصل قیمت پانچ سے 10 گنا زیادہ ہے اور یہ زمین بحریہ ٹاؤن نے القادر ٹرسٹ کے نام پر منتقل کی، اس زمین کو بحریہ ٹاؤن نے عطیہ کیا اور اس میں ایک طرف دستخط بحریہ ٹاؤن کے عطیہ کنندہ کے ہیں اور دوسری جانب سابق خاتون اول بشریٰ خان کے ہیں، یہ قیمتی اراضی القادر ٹرسٹ کے نام پر منتقل کی گئی جس کے دو ہی ٹرسٹی ہیں جس میں پہلی بشریٰ خان ہیں اور دوسرے سابق وزیر اعظم ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میڈیا اور دیگر ذرائع سے یہ بات سامنے آئی کہ بحریہ ٹاؤن کی 50 ارب روپے کی رقم انہوں نے برطانیہ منتقل کی اور اسے مروجہ قانون کے تحت منتقل نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے وہ رقم وہاں ٹریس ہو گئی اور برطانوی حکام اور نیشنل کرائم ایجنسی نے اس رقم کو اپنے قبضے میں لے لیا۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ برطانوی حکام نے پاکستانی حکام سے رابطہ کر کے انہیں آگاہ کیا کہ یہ رقم غیر قانونی ذرائع سے ہمارے پاس پہنچی ہے اور ہم نے اسے قبضے میں لے لیا، اس کی ملکیت حکومت پاکستان اور پاکستان کے عوام کی ہے تو یہاں سے ایسٹ ریکوری یونٹ کے شہزاد اکبر نے ریاست کی طرف سے اس معاملے کو دیکھا لیکن انہوں نے اس رقم کو پاکستان کے عوام کے لیے استعمال کرنے کے بجائے اپنا حصہ مبینہ طور پر 5 ارب روپے طے کر کے دو نمبری کا طریقہ کار بنایا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ 200 کنال مزید ہے، اس میں 100 کنال اراضی بنی گالا میں ہے اور یہ مسماۃ فرح شہزادی کے نام پر منتقل کی گئی ہے، اس کے علاوہ مارچ 2021 میں مزید 100 کنال اراضی بھی فرح شہزادی کے نام پر منتقل کی گئی، اگست میں مزید 40 کنال اراضی منتقل کی گئی۔


نوٹ: یہ ابتدائی خبر ہے جس میں تفصیلات شامل کی جا رہی ہیں۔ بعض اوقات میڈیا کو ملنے والی ابتدائی معلومات درست نہیں ہوتی ہیں۔ لہٰذا ہماری کوشش ہے کہ ہم متعلقہ اداروں، حکام اور اپنے رپورٹرز سے بات کرکے باوثوق معلومات آپ تک پہنچائیں۔

Exit mobile version