ایک واقعہ۔چند دن پہلے میں کسی دوست کی طرف جا رہا تھا ، رات کاوقت تھا ، جس سڑک پر میری گاڑی تھی وہ یک طرفہ تھی (بولے تو ون وے تھی)، اچانک سامنےسے ایک موٹر سائیکل آ گئی جس کی بتی بھی نہیں تھی ، بدقت تمام میں نے بریک لگائی ورنہ ٹکر لازمی تھی ۔ شیشہ نیچے کرکے دیکھا تو ایک بارہ تیرہ سال کا بچہ موٹر سائیکل چلا رہا تھا جس کے پیچھے دو لڑکے مزید بیٹھے تھے ، میں نے اسے کہا کہ یہ ون وے ہے ، تمہاری لائٹ بھی نہیں ہے، اگر کوئی نقصان ہوجاتا تو؟ اُن تینوں نے میری طرف یوں دیکھا جیسے میں کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہوں اور کسی انجانی زبان میں گفتگو کر رہاہوں۔سپاٹ چہرے کے ساتھ اُس نے موٹر سائیکل کو کِک لگائی اور یہ جا وہ جا۔
ایک خبر۔ مورخہ 7 مئی 2023 کو تائیوان کے زر مبادلہ کے ذخائر 560 بلین ڈالر ریکارڈ کئے گئے جو تائیوان کی تاریخ کی بلند ترین سطح پرہیں۔یاد رہے کہ تائیوان کوبطور ایک آزاد اور خود مختار ملک کےدنیا میں صرف تیرہ ممالک تسلیم کرتے ہیں ،چین کا دعویٰ ہے کہ تائیوان اُس کا حصہ ہے۔تائیوان کی کُل آبادی ہم سے دس گنا کم جبکہ رقبہ تیئس گنا کم ہے ۔یہ ننھا منا سا ملک سیمی کنڈکٹر چِپ بناتا ہے جو دنیا بھرکے موبائل فونز، گاڑیوں، کمپیوٹر اور دیگر مشینوں میں استعمال ہوتی ہے ،دنیامیں اِس چِپ کی مارکیٹ کا ساٹھ فیصد تائیوان کے پاس ہے ۔
ایک پرانی خبر۔(لاہور، فروری 1999)۔بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی ،جو سرکاری دورے پر پاکستان تشریف لائے ہوئےہیں، آج مینار پاکستان گئے جہاں انہوں نے اپنے تاثرات کااظہار کرتے ہوئے پاکستان کے وجود کو تسلیم کیا اور اِس بات پر زور دیاکہ دونوں ممالک کے عوام کی خوشحالی کے لئے ضروری ہے کہ تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کئے جائیں ۔ بعد ازاں ایک مشترکہ اعلامیے میں پاکستان اور بھارت نے شملہ معاہدے کی روشنی میں تمام مسائل بشمول جموں و کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے کوششیں تیز کرنے پر اتفاق کیا۔
ایک اور واقعہ۔جس سڑک سے میں روزانہ گزرتا ہوں وہاں چند سال پہلے تک کچھ بھی نہیں تھا ۔کوویڈ کے دنوں میں کسی خدا ترس بندے نے وہاں غریبوں میں دو وقت کی روٹی تقسیم کرنا شروع کی ، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جب یہ لنگر شروع ہوا تھا اُس وقت قطار مختصر ہوا کرتی تھی ، آج جب میں اُس سڑک سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ قطار میں کھڑے لوگوں کی تعداد پانچ گنا ہوچکی ہے۔
بظاہراِن واقعات اور خبروں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ایک چیز بہرحال مشترک ہے ، ہماری ناکامی۔ تائیوان کے عوام نے محض اپنی قابلیت اور ہنر مندی سے اتنی دولت کما لی ہےکہ پاکستان جیسے دو درجن ممالک مل کر بھی نہیں کما سکتے ۔یقیناًہم بھی یہ کام کر سکتے تھے مگر اِس کے لئےضروری تھا کہ ہم اپنے وسائل کا دانشمندانہ استعمال کرتے، ہمسایوں سے تعلقات بہتر بناتےاور قوم کو جنگی جنون میں مبتلا رکھنے کی بجائے انہیں ہنرمند بناتے ۔ہمیں یہ موقع 1999 میں ملا جب واجپائی بس میں بیٹھ کر لاہور آئے ، مسئلہ کشمیر حل کرنے کا وعدہ کیااور دونوں ملکوں کے درمیان امن و آشتی سے رہنے کی بات کی مگر ہمیں عزت راس نہ آئی، ہم نے کارگل کیااور پھر 12 اکتوبر کیا۔ باقی تاریخ ہے۔ہماری سڑکوں پہ جو بچے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے موٹر سائیکلیں چلاتے پھرتے ہیں اُن کے ذہنوں میں یہ بات بھی راسخ ہوجاتی ہے کہ ملک میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں اِس لئے کم عمری میں ہی اِن کے نزدیک قانون کی وقعت ختم ہوجاتی ہے ، انہیں لگتا ہے کہ اگر یہ اِس سے بھی بڑی کوئی قانون کی خلاف ورزی کریں گے تو چھوٹ جائیں گے اور ایسا ہی ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں پورا معاشرہ لا قانونیت کا شکا رنظر آتا ہےاور جس کی وجہ سے آج ہمارا نظام شکست و ریخت کا شکار ہے ۔آج سے بیس پچیس سال پہلے لوگ محض دو روٹیوں کی خاطریوں قطار میں کھڑے نہیں ہوتےتھے،چند ہی برس میں ہم نے اِس ملک کی حالت ایسی کردی ہے کہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے ،اِس دکھ میں مزید اضافہ تب ہوتا ہے جب تائیوان جیسے کسی ملک کے بارے میں خبر پڑھنے کو ملتی ہے کہ اُس کے زر مبادلہ کے ذخائر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے اور ہمارا ملک، جو 27ویں رمضان کو وجود میں آیا تھااور جسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں مٹا سکتی (تھی)،در در کی ٹھوکریں کھاتا پھر رہاہے۔
ہماری اِن جملہ ناکامیوں کی کچھ وجوہات بھی ہیں۔مثلاً ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے عوام اور حکمران ،دونوں کو مقبول اور جذباتی فیصلے بہت پسند ہیں ، عوام کا قصور اِس میں کم ہے اور لیڈران کا زیادہ، قوم کے لیڈر کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ عوام کے سامنے دلیری سے حقائق رکھے اور جراتمندانہ فیصلے کرے نہ کہ مقبولیت کے ہاتھوں یرغمال بن کرفیصلے کرتا رہے۔ ہماری ناکامی کی ایک اور وجہ چادر دیکھ کر پاؤں نہ پھیلاناہے ، جب سے پاکستان ڈالر کی قلت کا شکار ہوا ہے تب سے ہماری درآمدات میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے ،ہمارا تیل کا خرچہ بھی گھٹ گیا ہے اور دوسری مزید کئی چیزوں کی بچت کی وجہ سے تجارتی خسارہ بھی کم ہوا ہے،اِس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر ہم اخراجات کم کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں مگریہ کام ہم عام حالات میں نہیں کرتے اور بے دریغ ڈالر لٹاتےہیں ،کیوں؟اسی طرح من حیث القوم ہم سائنسی طرز فکر سے گریز کرتے ہیں، اپنی انفرادی زندگی میں بھی اور اجتماعی زندگی میں بھی ہم دلیل اورعقل سے کم ہی کام لیتے ہیں، جو بات ہماری سمجھ میں نہ آئے یاہمارے بس سے باہر ہو، اُس کے بارے میں یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں کہ اِس میں بھی اللہ کی طرف سے کوئی بہتری ہوگی ۔اپنی ذات کی حد تک تو شاید اِس حکمت عملی کو اپنانے میں کوئی حرج نہ ہو لیکن جب سے ریاستی معاملات میں یہ سوچ کارفرما ہوئی ہے تب سےیوں لگتا ہے کہ اِس ملک کا خدا ہی حافظ ہے۔لیکن ’ڈسٹ بی اِن مائی ماؤتھ‘ یعنی میرے منہ میں خاک، اب بھی سب کچھ نہیں بِگڑا، دنیا میں بہت سے ملک اِس قسم کے حالات کا شکار رہے ہیں ، نوّے کی دہائی میں بھارت بھی تقریباً کنگال ہوگیا تھا مگر وہ اِس دلدل سے نکل آیا، جس طرح بھارت نے یہ کام کیا تھا، ویسے ہم بھی کرسکتے ہیں ۔کیسے کر سکتے ہیں ، یہ بات پھر کبھی