عمران خان کی ضد اور پی ٹی آئی کا مستقبل
بدھ کی سہ پہر سے آڈیو لیکس کا لامتناعی سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔مقصد اس کا عام پاکستانیوں کو باور کرواناہے کہ عمران خان کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد کور کمانڈر لاہور سے مختص ’جناح ہاﺅس‘ پر مشتعل ہجوم کا دھاوا ہرگز ’برجستہ‘ نہیں تھا۔ تحریک انصاف کی مقامی قیادت اسے اکسانے اور بھڑکانے میں بھرپور حد تک ملوث تھی۔ مذکورہ لیکس کے بعد افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے کی جانب سے ایک بیان جاری ہوا۔ اس کے الفاظ اور لہجہ غیر معمولی حد تک تلخ اور انتباہی تھے۔
یہ بیان سنتے ہوئے مجھے ایم کیو ایم کے بانی کا ایک خطاب یاد آگیا جس کی وجہ سے 2016ءمیں ان کی جماعت ٹکڑوں میں بٹنا شروع ہوگئی تھی۔ موصوف کے چند دیرینہ ساتھیوں نے خود کو ان کے خیالات سے جدا دکھانے کے لیے ایم کیو ایم کے ساتھ ’پاکستان‘ کا لاحقہ لگاکر سیاسی وجود برقرار رکھنا چاہا۔ مصطفےٰ کمال نے البتہ پاک سرزمین پارٹی کے نام سے نئی ہٹی چلانے کی کوشش کی۔ منتشر ہوئے دھڑے گزشتہ برس کے دوران ایک بار پھر ایم کیو ایم کی چھتری تلے جمع ہوچکے ہیں۔’ میاں مدن‘ والی بات مگر بحال ہوتی نظر نہیں آرہی۔
ایم کیو ایم کے مقابلے میں تحریک نصاف مگر ایک ملک گیر جماعت ہے۔ اس کے بانی عمران خان ایم کیو ایم کے قائد کی طرح بیرون ملک مقیم نہیں۔ان کی جماعت ’بھتہ خوری او ربوری بند لاشوں‘کی وجہ سے ’بدنام‘ بھی نہیں ہوئی۔ سوشل میڈیا کے ماہرانہ استعمال کی بدولت اس نے 18سے 35سال کی عمر والے نوجوانوں کے جذبات خوب بھڑکائے ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین کی ایک کماحقہ تعداد بھی عمران خان کو ’چور اور لٹیروں‘ سے جدا ایک ’ایمان دار‘ سیاستدان سمجھتی ہے۔ ان کی وجاہت کرشمہ اور درویشی کو سراہتی ہے۔ ایسی جماعت کو ’ایم کیو ایم‘ بنانا بہت دشوار ہوگا۔
ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے اگرچہ میں یہ اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ وہ جسے ’ڈیپ اسٹیٹ‘ یا ’دریں دولت‘ کہا جاتا ہے ریاستی وسائل کو بھرپورانداز میں بروئے کار لاتے ہوئے تحریک انصاف کو اب ہر صورت ’سبق‘ سکھانا چاہے گی۔ اس تناظر میں سوچنا شروع کیا تو 1970ءکی دہائی یاد آگئی۔ خان عبدالولی خان کی قیادت میں موجود نیشنل عوامی پارٹی ان دنوںکافی تگڑی جماعت تھی۔ 1970ءکے انتخابات کے دوران اس نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں حیران کن نتائج دکھائے۔ بنگلہ دیش کے قیام سے گھبرائی ریاست پاکستان مگر اس کی ’قوم پرستی‘ برداشت کرنے کو تیار نہیں تھی۔ دریں اثناءسردار داﺅد اپنے کزن ظاہر شاہ کی بادشاہت کا تختہ الٹ کر افغانستان کا ’صدر‘ بن گیا۔’پختونستان‘کا قیام اس کا دیرینہ خواب تھا۔ ہماری ریاست نے اس شبے کو فروغ دیا کہ ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی اس کی معاونت کو دل وجان سے آما دہ ہوگی۔ جوشبہات پھیلائے گئے انھیں ان دنوں کے صوبہ سرحد میں کئی مقامات پر بم دھماکوں نے مزید تقویت پہنچائی۔ گورنر سرحد حیات محمد شیر پاﺅ بھی ایسے ہی ایک دھماکے کی نذر ہوئے۔ شیر پا ﺅ کی شہادت کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے وفادار ساتھی کے قتل کا الزام نیشنل عوامی پارٹی پر تواتر سے لگانا شروع کردیا۔ پکڑدھکڑ کے طولانی سلسلے شروع ہوئے اور بالآخر سپریم کورٹ کے روبرو اس جماعت کو ’کالعدم‘ ٹھہرانے کے لیے ایک ریفرنس پیش کردیا گیا۔
عمران خان کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد کور کمانڈر لاہور سے مختص عمارت پر جو حملہ ہوا اس سے متعلقہ آڈیو لیکس یہ عندیہ دے رہی ہیں کہ تحریک انصاف کے خلاف ایسے شواہد جمع کیے جارہے ہیں جو مذکورہ جماعت کو ’افواجِ پاکستان کا دانستہ دشمن‘ ثابت کریں۔ ان کی بنیاد پر اس جماعت کے خلاف بھی ایسا ہی ریفرنس تیار ہوسکتا ہے جو نیشنل عوامی پارٹی کو ’کالعدم‘ ٹھہرانے کا سبب ہوا تھا۔
ریاستی حکمت عملی سے قطعی بے خبر ہوتے ہوئے محض اپنے تجربے کی بنیاد پراندازے لگارہا ہوں جو بالآخر غلط بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ بدھ کی صبح اٹھ کر مگر جو کالم لکھا تھا اس کے اختتام پر سابق وزیر اعظم کی گرفتاری کے بعد ہوئی ہنگامہ آرائی مجھے برجستہ نہیں ’پرکار‘ محسوس ہوئی تھی۔ وہ کالم دفتر بھجوادینے کے کئی گھنٹوں بعد آڈیو لیکس کا سلسلہ شروع ہوا جو میرے خدشات کی تصدیق تھا۔ مذکورہ لیکس کے بعد تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی ،اسد عمر اور فواد چودھری بھی گرفتار کرلیے گئے۔ عمران خان سے ’القادر ٹرسٹ‘ کی بابت سوالات اٹھانے کے لیے عدالت نے انھیں آٹھ دنوں کے لیے نیب کی تحویل میں دے دیا ہے۔
ملک بھر سے سینکڑوں نوجوان ہنگامہ آرائی اور کارسرکار میں مداخلت جیسے الزامات کے تحت گرفتار ہوچکے ہیں۔لاہور کے ’جناح ہاﺅس‘ پر ہوئے حملے کے ذمہ داروں کی نشاندہی اور گرفتاریوں کے بعد تاہم ان کے خلاف ’دہشت گردی‘ کے سنگین الزامات کے تحت مقدمات نہ صرف تیار ہوں گے بلکہ ریاست پوری شدت اور قوت سے ان کی پیروی کرے گی۔ ایسے الزامات کے تحت ’عبرت کا نشان‘ بنائے نوجوان ویسے ہی کڑے حالات سے دوچارہوں گے جن کا سامنا جنرل ضیاءکے لگائے مارشل کے دوران پیپلز پارٹی کے کئی جیالوں کو کرنا پڑا تھا۔ ’ہم جو تاریک راہوں میں ….‘ والی فضا۔
انجام جو بھی ہو۔ 9مئی کے دن سے رونما ہونے والے واقعات عندیہ دے رہے ہیں کہ آئندہ انتخابات اب شاید بروقت نہ ہوپائیں گے۔ ان کے انعقاد سے قبل ہماری ریاست کے اصل کرتا دھرتا اس امر کو یقینی بنانا چاہیں گے کہ تحریک انصاف منتشر اور کمزور سے کمزور تر ہوجائے۔ مذکورہ ہدف کے حصول کے لیے ہماری ریاست ہر حربہ استعمال کرنا جائز شمار کرے گی۔
تحریک انصاف کے مستقبل کے بارے میں جو خدشات میرے دل ودماغ میں وسوسوں کی طرح امڈتے چلے جارہے ہیں ان کی شدت سے گھبراکر حیران ہورہا ہوں کہ عمران خان نے ان مذاکرات کو ’ویٹو‘ کیوں کردیا جو حکومت کے ساتھ ہورہے تھے۔ وہ ذرائع جن کی بتائی بات پر ہمیشہ اعتماد کرتا ہوں مجھ سے ’آف دی ریکارڈ‘ رابطوں کے دوران اعتراف کرتے رہے کہ مذکورہ مذاکرات کے دوران حکومت اس بات پر رضا مند ہوگئی تھی کہ آئندہ مالیاتی سال کا بجٹ منظور کروانے کے چند ہی روز بعد جولائی 2023ءکے پہلے دس دنوں کے دوران قومی اسمبلی کی تحلیل کا اعلان کردیا جائے گا۔قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات یوں ’ایک ہی دن‘ رواں برس کے اکتوبر سے قبل منعقد ہوسکتے تھے۔
میری دانست میں شاہ محمود قریشی اور فواد چودھری نے حکومت سے مذاکرات کرتے ہوئے سیاسی اعتبار سے قابل ستائش ’ڈیل‘ حاصل کرلی تھی۔عمران خان نے مگر ان دونوں حضرات کو ویٹو کردیا۔ حکومتی وعدوں کو ’ٹریپ‘ ٹھہرایا۔ وہ یہ تصور کر بیٹھے کہ 14مئی کے دن پنجاب اسمبلی کے لیے انتخابات میں ’رکاوٹ‘ ڈالنے کے الزام میں وزیر اعظم شہباز شریف کو ’توہین عدالت‘ کا مجرم ٹھہراکر انتخابی سیاست کے لیے ’نااہل‘ کردیا جائے گا۔ اس ضمن میں چیف جسٹس صاحب کے ’ہاتھ مضبوط‘ کرنے کے لیے ریلیوں کے طویل سلسلے کا اعلان کردیا۔
ایک مناسب ’آفر‘ کو رعونت سے دھتکارنے کے بعد عمران خان نے حکومت وریاست کو ان کی گرفتاری کے لیے گویا ’مجبور‘ کردیا۔گرفتاری ہوگئی تو اس کے ردعمل میں عاشقان عمران کی دکھائی ’برجستگی‘ نے ان کی سیاست کے لیے نئی مشکلات کھڑی کردیں۔ کاش وہ جولائی میں قومی اسمبلی کی تحلیل کے وعدے پر اعتبار کرلیتے اور ہمارے ہاں جھوٹی سچی ’جمہوریت‘ کا ڈھونگ جاری رہتا۔ ان کی جانب سے اپنائی ضد وطن عزیز کو ایک بار پھر اس مقام پر لوٹا رہی ہے جہاں سے ہم کئی بار گزرچکے ہیں۔ دائروں میں ہوتا سفر اذیت ناک حد تک جاری ہے ۔