آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پر قانون سازی: اپوزیشن کیا سوچ رہی ہے؟
تحریک انصاف کی حکومت نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے سلسلے میں اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کے لیے ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جو جلد اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو اعتماد میں لے کر آرمی ایکٹ میں ترمیم کا مسودہ تیار کرے گی۔
اس حکومتی کمیٹی کی تشکیل کا اعلان وزیر دفاع پرویز خٹک نے گذشتہ روز اپنے حلقے نوشہرہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انھوں نے کہا کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی میں وہ خود، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور اصلاحات اسد عمر بھی شامل ہیں۔
پرویز خٹک نے دعویٰ کیا ہے کہ ’آئینی اصلاحات سمیت تمام فیصلے اپوزیشن کے ساتھ افہام وتفہیم کے ساتھ حل ہوجائیں گے اس ضمن میں ہم اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مسلسل رابطوں میں ہیں۔‘
تاہم ابھی تک کسی اپوزیشن جماعت نے کسی قسم کے حکومتی رابطے کی کوئی تصدیق نہیں کی ہے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے گذشتہ ہفتے حکومت کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق قانون سازی کے لیے چھ ماہ کا وقت دیا۔ عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں لکھا ہے کہ اگرچہ آرمی چیف کی توسیع سے متعلق کوئی قانون نہیں ہے لیکن عدالت اس معاملے میں تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے۔
حکومت نے مذاکرات کا آغاز اتحادی جماعتوں سے کیا ہے
اتوار کو سری لنکا کے دورے سے قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایم کیو ایم کے وفد سے ملاقات کی اور انھیں آرمی ایکٹ میں ترمیم سے متعلق اعتماد میں لیا۔
اس قانون سازی کے لیے حکومت کو اپوزیشن کی جماعتوں کے تعاون کی بھی ضرورت ہوگی۔ اس وقت حکومت کو ایوان بالا یعنی سینیٹ میں اکثریت حاصل نہیں ہے۔
حکومت نے اس ہفتے 4 دسمبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس بھی طلب کر رکھا ہے۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی جماعت کے قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر نوید قمر اور سینیٹ میں شیری رحمان ہیں اور اس معاملے پر پارلیمنٹ میں پارٹی پالیسی کو یہی دو رہنما لے کر آگے بڑھیں گے۔
دونوں ہی رہنماؤں نے اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے تاہم سینیٹر کھوکھر کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی آرمی چیف کی توسیع سے متعلق لائحہ عمل پارٹی کی کور کمیٹی کے اجلاس میں طے کرے گی۔
پاکستان مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنما احسن اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ ’گورنمنٹ کی گاڑی جب بھی گارے میں پھنستی ہے تو انھیں اپوزیشن یاد آجاتی ہے اور جوں ہی یہ دلدل سے نکلتے ہیں تو اپوزیشن چور، ڈاکو، لٹیرا نظر آتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں ’ساری اپوزیشن جماعتیں مشاورت کریں گی اور متفقہ فیصلہ ہوگا۔ یہ معاملہ رہبر کمیٹی اور آل پارٹیز کانفرنس میں لایا جائے گا۔‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ شخصی قانون سازی کا نہیں بلکہ آرمی چیف کے عہدے سے متعلق قواعد و ضوابط کا معاملہ ہے۔‘
پرویز خٹک کو پوری امید ہے کہ وہ ’تمام اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں ترمیم سمیت تمام آئینی اصلاحات متفقہ طور حل کریں گے۔‘
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کی پارلیمانی کمیٹی اور اداروں کے درمیان ڈائیلاگ سے متعلق تجویز پر بات کرتے ہوئے احسن اقبال کا کہنا تھا کہ حکمران ’پہلے اپنی ذہنیت اور طرز عمل پر غور کریں۔
ان کے مطابق ’پندرہ ماہ سے ہم یہی دیکھتے آئے ہیں کہ یہ جب بھی مشکل میں ہوتے ہیں تو بڑے نیک پروین ہوجاتے ہیں اور جوں ہی باہر نکلتے ہیں تو فسطائیت کا ماسک چڑھا دیتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا وہ اپوزیشن کو جمہوریت کا دوسرا پہیہ تسلیم کرتی ہے، کیا وہ اپوزیشن کی حب الوطنی اور دیانتداری کو تسلیم کرتی ہے یا نہیں۔‘
پرویز خٹک نے کہا کہ اپوزیشن کی جماعتیں ذمہ دارانہ سیاست کررہی ہیں، سب کو اس کا ادراک ہے۔ ’سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اپوزیشن کے ساتھ خوش اسلوبی سے معاملات طے ہوجائیں گے۔‘
پرویز خٹک کے مطابق چیف الیکشن کمشنر اور ممبران الیکشن کمیشن کی تعیناتی کا معاملہ بھی اپوزیشن کے ساتھ مشاورت کے ساتھ حل کریں گے۔