نظریاتی اعتبار سے مجھے مولانا فضل الرحمن کا پیروکار اور حلیف تصور کیا ہی نہیں جاسکتا۔ملکی سیاست کے بارے میں برسوں تک پھیلی رپورٹنگ کی وجہ سے اگرچہ میں انہیں ایک زیرک سیاستدان تصور کرتا ہوں۔ان کی جماعت بھی حیران کن حد تک منظم ہے۔اس کا حالیہ ثبوت وہ قافلے ہیں جو مولانا کی انتہائی عجلت میں دی کال کے فوری بعد سندھ،بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے بے شمار علاقوں سے اسلام آباد کی جانب روانہ ہونا شروع ہوگئے۔ یہ کالم شروع کرنے تک ان کے حامیوں کی جو تعداد اس شہر پہنچ چکی تھی وہ یقینا متاثر کن ہے۔ ان کی وافر تعداد ”ریڈ زون“ میں بھی داخل ہوچکی ہے۔پولیس اور انتظامیہ مولانا اور ان کے رفقاءسے داد فریاد کررہی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے مرکزی دروازے کے بالمقابل دھرنا دینے کے ارادے کو ترک کردیں۔احتجاج کے اظہار کے لئے کوئی اور مقام چن لیں۔مولانا مگر ٹس سے مس ہونے کو آمادہ نظر نہیں آرہے۔
مولانا کا تعلق جس مسلک سے ہے وہ ”بے لچک“تصور ہوتا ہے۔اس کے اکابر اور پیروکار برطانوی استواری نظام کے خلاف طویل اور جان گسل مراحل سے بھی گزرتے رہے ہیں۔ اس ”شناخت“ کے باوجود مولانا کو میں نے نجی ملاقاتوں میں ہمیشہ ہنستے مسکراتے ”دنیاداری“ نبھاتے دیکھا۔ کاٹ دار فقروں کے ساتھ وہ محفل کو پررونق بنادیتے ہیں۔سیاسی معاملات زیر بحث آئیں تو اپنا نقطہ نظر دلائل کے ساتھ درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کے اہداف کا ذکر ہو تو ”آف دی ریکارڈ“ اپنی محدودات تسلیم کرتے ہوئے مان لیتے ہیں کہ بالآخر مذاکرات کی میز پر ہی بیٹھنا ہوگا۔ ممکنہ مذاکرات کی بدولت جن اہداف کا حصول ناممکن ہوا نہیں خوش دلی سے تسلیم کرلیتے ہیں۔قصہ مختصر وہ اپنے ”جثے“ سے زیادہ حصے کے طلب گار نہیں ہوتے۔
منطقی طورپر اپنائی قابل رشک لچک کے حامل مولانا کا پیر کے دن سپریم کورٹ کے مرکزی دروازے کے عین سامنے دھرنا دینا مجھے اس لئے بھی حیران کررہا ہے کیونکہ وہ ان دنوں ”اپوزیشن“ نہیں بلکہ موجودہ حکومت کا حصہ ہیں۔ ان کے فرزند اور ممکنہ سیاسی وارث وفاقی کابینہ کے اہم ترین وزراءمیں شامل ہیں۔جس حکومت کی جے یو آئی ان دنوں ایک تگڑی شراکت دار ہے اس نے مگر اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ کررکھی ہے۔عمران خان کی گرفتاری کے بعد شاہراہ دستور پر مشتمل ”ریڈ زون“ عام شہریوں کی رسائی کے لئے مزید ناممکن بنادیا گیا ہے۔”ریڈ زون“ کی اہمیت اجاگر کرنے اور دفعہ 144کا نفاذ یقینی بنانے کے لئے سول انتظامیہ کی مدد کے لئے آرمی کے دستے بھی طلب کرلئے گئے ہیں۔
میں ہرگز سمجھ نہیں پارہا کہ مولانا موجودہ حکومت کی لگائی پابندیوں کو اپنی فطرت کے برعکس ضدی ہوئے کیوں للکاررہے ہیں۔فرض کیا وہ حکومت کی لگائی پابندیاں توڑتے ہوئے سپریم کورٹ کے مرکزی دروازے کے عین سامنے دھرنا دینے میں کامیاب ہوگئے تو ”جواب آں غزل“ کی صورت عمران خان بھی اپنے حامیوں کو ”چیف جسٹس سے اظہار یکجہتی“ کے نام پر اسلام آباد پہنچنے کا حکم دے سکتے ہیں۔ان کی خاطر خواہ تعداد بھی اگر اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخلے کی کوشش کرے گی تو موجودہ حکومت کے پاس انہیں روکنے کا ”اخلاقی جواز“ باقی نہیں رہے گا۔اس کے علاوہ جے یو آئی کی کال پر جمع ہوئے جتھوں کی پی ٹی آئی کے بلائے جتھوں کے ساتھ ہاتھا پائی کے مراحل بھی شروع ہوسکتے ہیں جو وطن عزیز میں ”خانہ جنگی“ کے خطرات کو ٹھوس مواد فراہم کریں گے۔ مذکورہ خطرات جولائی 1977میں جنرل ضیاءالحق کی جانب سے لگائے طویل اور کڑے مارشل لاءکا سبب ہوئے تھے۔
مولانا فضل الرحمن جنرل ضیاءکے لگائے مارشل لاءکے دوران نسبتاََ نوجوان سیاستدان تھے۔جوانی کے یہ برس مگر انہوں نے جیلوں اور نظربندیوں کی نذر کردئے۔یہ سوچنے کی مجھ میں ہمت نہیں کہ طویل عرصہ جمہوری جدوجہد کے لئے وقف کردینے کے بعد مولانا اپنی عمر کے اس دور میں ممکنہ طورپر ایک اور مارشل لاءکا راستہ ہموار کرتے نظر آئیں گے۔
یہ سب لکھنے کے بعد مجھے یہ اعتراف بھی کرنا پڑے گا کہ مولانا جیسے نسبتاََ ٹھنڈے اورلچکدار سیاستدان کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال صاحب نے اپنے حالیہ رویہ سے چراغ پا بنایا ہے۔آئین اور قانون کے تحفظ پر ایمان رکھنے والے کسی شخص کے لئے ممکن ہی نہیں کہ وہ عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے رینجرزکے ہاتھوںگر فتاری کو “جائز“ ثابت کرے۔ مذکورہ ”اندازِگرفتاری“ کا مگر اسلام آباد ہائی کورٹ ہی نے نوٹس بھی لے رکھا تھا۔ آئی جی اسلام آباد اورسیکرٹری وزیر داخلہ سے وضاحتیں طلب کرلی گئی تھیں۔
جو عمل یا پراسس اسلام آباد ہائی کورٹ سے شروع ہوا اسے نظرانداز کرتے ہوئے چیف جسٹس صاحب نے اچانک ایک بنچ تشکیل دے کر فوری سماعت کا فیصلہ کرلیا۔ اس ضمن میں جو بینچ تشکیل پایا اس تاثر کی نفی کرتا بھی محسوس ہوا کہ پاکستان کو اعلیٰ ترین عدالت باہمی طورپر تقسیم ہوچکی ہے۔اس میں چند بنیادی معاملات کے حوالے سے یکجہتی مبینہ طورپر برقرار نہیں رہی۔
بہرحال سپریم کورٹ میں سماعت کا آغاز ہونے کے چند لمحوں بعد چیف جسٹس صاحب نے عمران خان کو فی الفور عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔احتساب عدالت سابق وزیراعظم کو ”القادر ٹرسٹ“ کے معاملات کی پوچھ تاچھ کے لئے آٹھ روزہ ریمانڈ پر نیب کے حوالے کرچکی تھی۔ اس ریمانڈ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تحریک انصاف کے قائد کو پیش کرنے کا حکم ہوا۔ اس کے نتیجے میں اسلام آباد کے سپریم کورٹ جانے والے راستے ”صاحباں“ کی خواہش کے مطابق ”سنجے“ ہوگئے۔نیب کے ریمانڈ میں بھیجا ”ملزم“ کسی غیر ملکی سربراہ کی طرح مرسٹڈیز میں پچھلی نشست پر بیٹھے حفاظتی قافلے سمیت سپریم کورٹ پہنچا۔عدالت کی عمارت میں داخل ہونے کے لئے ان کے لئے وہ دروازہ کھولا گیا جوعزت مآب ججوں کے داخلے کیلئے مختص ہے۔اس کے بعد جو ہوا تاریخ ہے اسے دہرانے سے کیا حاصل۔
عمران خان کے ساتھ ہوئے سلوک نے موجودہ حکومت میں شامل کئی سرکردہ افراد کو ”داغ دل“ یاد دلادئے ہیں۔احتساب بیورو نے ان میں سے کئی افراد کو بے دردی سے ذلت ورسوائی سے دو چار کیا تھا۔نیب کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد ضمانت کے حصول کے لئے انہیں کم از کم چھ ماہ تک انتظارکرنا پڑتا۔ اس تناظر میں چند مقدمات جب سپریم کورٹ کے روبرو آئے تو اعلیٰ ترین عدالت کے کئی معتبر ججوں نے بھی نیب کے رویے کی تلخ ترین الفاظ میں مذمت کی۔نیب کی زد میں آئے لوگوں کی حراست کے دوران سپریم کورٹ نے ازخود مداخلت سے البتہ رحم وانصاف فراہم کرنے سے گریز کیا۔ عمران خان مذکورہ تناظر میں تاریخی استثناءثابت ہوئے ہیں۔
عمران خان کے ساتھ ہوئے مربیانہ سلوک سے مولانا چراغ پا ہوئے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ سپریم کور ٹ ازخود رحم وانصاف فراہم کرنے کو اسی وقت آمادہ ہوتا ہے اگر نیب کے ہاتھوں گرفتارشدہ شخص کے حامی مشتعل ہوکر جتھوں کی صورت سرکاری ہی نہیں بلکہ ریاستی عمارتوں کو بھی نذر آتش کرنا شروع ہوجائیں۔ اس سوچ کو ذہن میں رکھتے ہوئے وہ اپنی ”جتھہ سازی“ کی قوت تاش کے بے چین کھلاڑی کی طرح ”شو“ کررہے ہیں۔ کاش وہ عالم غضب میں اپنی پیش قدمی کا انجام بھی ذہن میں رکھتے۔