دنیابھرسے

امریکا کا بھارت پر مذہبی بنیادوں پر تشدد کی مذمت کرنے کے لیے زور

Share

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورے سے ایک ماہ قبل ایک سینیئر امریکی عہدیدار نے کہا کہ امریکاچاہتا ہے کہ بھارت سلسلہ وار مذہبی بنیادوں پر تشدد کی مذمت کرے۔

 رپورٹ کے مطابق محکمہ خارجہ نے مذہبی آزادی سے متعلق ایک سالانہ رپورٹ جاری کی جس میں نریندر مودی کے ہندو قوم پرستوں کی قیادت میں مسلمانوں اور عیسائیوں سمیت مذہبی اقلیتوں کے خلاف حملوں کی فہرست فراہم کی گئی۔

ایک سینئر امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی روایتی شرط پر رپورٹ کے بارے میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے بھارت کی ’وسیع صلاحیت‘ کے بارے میں بات کی اور کہا کہ انہیں مذہبی تشدد کے سلسلہ وار واقعات پر افسوس ہے۔

عہدیدار نے کہا کہ ’ان خدشات کے حوالے سے ہم حکومت کی تشدد کی مذمت کرنے اور ان افراد کو جوابدہ ٹھہرانے کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں جو مذہبی اقلیتوں کے خلاف غیر انسانی بیان بازی میں ملوث ہیں‘۔

عہدیدار نے بھارتی حکام کے ساتھ ’براہ راست‘ بات کرنے کا عہد کیا اور کہا کہ ’ہم اپنے سول سوسائٹی کے ساتھیوں اور بہادر صحافیوں کے ساتھ بہت قریب سے کام کرتے رہیں گے جو ان میں سے کچھ زیادتیوں کو دستاویزی طور پر درج کرنے کے لیے ہر روز کام کر رہے ہیں‘۔

امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ براہ راست تحقیق کے ساتھ ساتھ میڈیا اور حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے گروپوں کی رپورٹس پر مبنی ہے جس میں مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کرنے اور ریاست گجرات میں ہندوؤں کو زخمی کرنے کے الزام میں پولیس کے ذریعے مسلمانوں کو سرِعام کوڑے مارنے کے واقعات پر خدشات کی نشاندہی کرتی ہے۔

نئی دہلی طویل عرصے سے مذہبی آزادی پر امریکی تنقید پر ردعمل ظاہر کرتا آیا ہے، خاص طور پر بین الاقوامی مذہبی آزادی پر خود مختار امریکی کمیشن کی جانب سے، جس نے رواں ماہ کے شروع میں ایک بار پھر محکمہ خارجہ کو اس کے ریکارڈ میں بھارت کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کی سفارش کی تھی۔

رواں سال کے آخر میں سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن مذہبی آزادی پر ’خاص تشویش والے ممالک‘ کی فہرست بنائیں گے لیکن یہ عملی طور پر یقینی ہے کہ وہ بھارت کو چھوڑ دیں گے، جس کے ساتھ امریکا جزوی طور پر چین کے خلاف ایک رکاوٹ کے طور پر کئی دہائیوں سے گرمجوش تعلقات استوار کر رہا ہے۔

انٹونی بلنکن نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بھارت کا تذکرہ نہیں کیا البتہ انہوں نے چین، ایران، میانمار اور نکاراگوا کے حکام کے اقدامات سے خطرات پر تشویش کا اظہار کیا۔

برطانوی فسادات

اتوار کے روز برطانوی پبلشر ڈیلی میل نے انکشاف کیا کہ مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے قریبی عناصر پر شبہ ہے کہ انہوں نے برطانوی ہندوؤں کو گزشتہ موسم گرما میں لیسٹر میں ہونے والے دھماکہ خیز فسادات میں مسلم نوجوانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اکسایا تھا۔

رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے سیکیورٹی ذرائع نے کہا کہ بی جے پی سے منسلک کارکنوں کے ہندو مظاہرین کو سڑکوں پر آنے کی ترغیب دینے کے لیے بند واٹس ایپ گروپس کا استعمال کرنے کے شواہد ملے ہیں۔

تاہم ذرائع نے خبردار کیا کہ یہ بھارتی ہندو قوم پرستوں کی نجی سوشل میڈیا پوسٹس کا استعمال کرتے ہوئے برطانیہ میں مداخلت کرنے کی ’سب سے بدترین‘ مثال ہے۔

گزشتہ برس اگست کے آخر میں پاک بھارت کرکٹ میچ کے بعد ہندو اور مسلم نوجوانوں کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ہوئی تھیں، جس نے بین الاقوامی میڈیا کی توجہ حاصل کی تھی۔

سیکیورٹی ذرائع نے کہا کہ مبینہ مداخلت نریندر مودی کی دنیا بھر میں ہندوؤں کے رہنما کے طور پر ظاہر کیے جانے کی خواہش کا حصہ ہے۔