منتخب تحریریں

علاج تو ٹھیک تھا، مریض غلط تھا!

Share

لاعلاج مریضوں میں کچھ مریض ایسے بھی ہیں جن کا ’’کیس‘‘ ذرا وکھری ٹائپ ہے اور اُن کی تعداد بھی کافی ہے۔ اس طبقے کی مالی حیثیت تو سائیکل خریدنے کی ہوتی ہے اور یہ موٹر سائیکل خرید بیٹھتے ہیں۔ اسی طرح جو موٹر سائیکل خرید سکتا ہے وہ کار خریدنے نکل کھڑا ہوتا ہے اس کے بعد بڑی کار اور پھر اس سے بڑی کار، اور پھر ایک دن دوسروں کا منہ لال دیکھ کر اپنا منہ تھپڑوں سے لال کرنے والا یہ شخص کہہ رہا ہوتا ہے ’’مہنگائی بہت ہو گئی ہے، گزارا نہیں ہوتا‘‘! ایک طبقہ تو واقعی بہت غریب ہے اور جس کی زندگی حقیقتاً کم آمدنی اور زیادہ مہنگائی نے عذاب بنائی ہوئی ہے وہ بھی اردگرد کے حالات دیکھ کر مجبور ہو گیا ہے کہ اپنے بچوں کو اِن چیزوں سے محروم نہ رکھے جو آج کے دور میں آسائش نہیں، ضرورت کی ذیل میں آتی ہیں چنانچہ ایسے بہت سے لوگ جو استطاعت نہیں رکھتے، فریج بھی خریدتے ہیں۔ بچپن میں ہمارے گھروں میں مٹی کے گھڑے ہوتے تھے جن میں پانی ٹھنڈا رہتا تھا، جلدی خراب ہونے والی خورونوش کی اشیا کو محفوظ رکھنے کیلئے ایک ’’چِھکا‘‘ ہوتا تھا جو رسی کے ساتھ اونچی جگہ سے لٹکا دیا جاتا تھا تاکہ اِسے ہوا لگتی رہے۔ اِس نوع کی باقی چیزوں کیلئے جالی والی الماری ہوتی تھی گھروں میں تیل والے چولہے بھی نہیں ہوتے تھے بلکہ لکڑی کے برادے سے انگیٹھی جلائی جاتی تھی اور اس پر کھانا پکایا جاتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہے۔ اب غریب سے غریب شخص بھی دوسری ’’عیاشیوں‘‘ کے علاوہ گھر میں ٹیلی وژن سیٹ لگانے پر بھی مجبور ہو گیا ہے۔ واپڈا والے اس سے بجلی کے بل میں ’’35روپے‘‘ الگ وصول کرتے ہیں جو اِس نے ٹی وی کے چیئرمین کے طور پر واپڈا کے بجائے پی ٹی وی کے اکائونٹ میں جمع کرنے کا آرڈر کروا کر پی ٹی وی کی آمدنی میں ستر کروڑ روپے ماہوار میں اضافہ کر دیا تھا۔ اِسی طرح استطاعت نہ رکھنے کے باوجود اِس طبقے کے افراد نے گھروں میں کیبل بھی لگوائی ہے جس کیلئے اُنہیں ہر ماہ ڈیڑھ دو سو روپے الگ سے ادا کرنا ہوتے ہیں۔ ایک چیز اور بھی ہے جسے موبائل فون کہا جاتا ہے، ڈھائی ہزار روپے میں یہ بھی خریدا جاتا ہے اور پھر کم از کم پانچ سو روپے ماہوار کے حساب سے اس کا خرچہ بھی ہوتا ہے۔ ٹی وی پر دکھائی جانے والی شادی بیاہ کی رسومات نے اس طبقے کو بھی مجبور کر دیا ہے کہ وہ ان رسومات کی پیروی کرے۔ ایک بار ڈاک کے ذریعے ہم اہلخانہ کو شادی کا ایک دعوت نامہ موصول ہوا جو ’’بیگم و جناب رضی الدین‘‘ کی طرف سے تھا دوسرے دن ہمارے گھر میں کام کرنے والی ماسی مختاراں آئی تو اس نے مجھے اور میری بیگم کو اصرار کے ساتھ اپنے بیٹے کی شادی میں شرکت کی دعوت دی تو پتا چلا کہ ڈاک میں ملنے والا دعوت نامہ اسی شادی کا تھا جس میں ماسی مختاراں ’’بیگم‘‘ اور اس کا شوہر جُورا جناب رضی الدین کے روپ میں موجود تھے۔ ہم اہلخانہ نے اس شادی میں شرکت کی جس میں باوردی ویٹر مہمانوں کو سرو کر رہے تھے۔ ہمیں پتا چلا کہ لڑکی والوں کی طرف مہندی لے جاتے وقت بھی وہ سب کروفر موجود تھا جو ٹی وی کے ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے، میں نے بعد میں ماسی مختاراں کو اس فضول خرچی پر ڈانٹا تو اس نے روہانسے انداز میں کہا ’’کیا کریں صاحب جی ہم مریں یا جئیں، بچوں کی خوشیاں تو پوری کرنا ہی پڑتی ہیں‘‘۔ تاہم ’اصلی تے وڈا‘ لاعلاج مریض عاشقوں کا طبقہ ہے، اِس طبقہ کے افراد کسی معمولی سے چہرے پر عاشق ہوتے ہیں اور اس کے قصیدے پڑھ پڑھ کر اسے یقین دلا دیتے ہیں کہ اسے اگلے عالمی مقابلہ حُسن میں ضرور شرکت کرنی چاہئے جس کے نتیجے میں وہ بیوقوف محبوبہ اپنے اندھے عاشق کی باتوں پر یقین کرکے خود اِسی عاشق کو حقیر سمجھنے لگتی ہے اور خود کو اتنا برتر کہ اِس کیلئے اپنے آپ پر عاشق ہونے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہوتا۔ اس نوع کے نابینا عاشقوں کی آنکھیں اس وقت کھلتی ہیں جب وہ دیکھتا ہے کہ کتنے سارے ’’مومن‘‘ اس کے محبوب کے دہانے پر بیٹھے اسے ڈسے جا رہے ہیں، پھر اس کی غیرت جاگتی ہے ۔ ایسے عاشقوں کو میرا مشورہ ہے کہ وہ اس دنیا کی ’’حور‘‘ کے چنگل سے نکلیں اور اس عاشقی کے بجائے مولانا طارق جمیل کا ’’بیان ‘‘ سنا کریں جس کے مطابق نیک اعمال والوں کیلئے جنت میں بیشمار حوریں اُس کی منتظر ہوتی ہیں۔ اور ہاں! آخر میں ان بعض شاعروں کا ذکر جو لاعلاج مریضوں کی ذیل میں آتے ہیں، ان میں سے ہر کوئی خود کو ملک الشعرا سمجھتا ہے اور جو ان کے بارے میں یہ رائے نہ رکھے ان کا جی اسے کچا چبا جانے کو چاہتا ہے مگر یہ تذکرہ یہیں چھوڑتے ہیں مجھے قیوم نظر اور انجم رومانی کا ایک دلچسپ واقعہ یاد آ گیا۔

ایک دفعہ قیوم صاحب نے انجم صاحب کو بتایا کہ اُن کی بینائی روز بروز کم ہو رہی ہے۔ انجم صاحب نے اُن دنوں تازہ تازہ علاج بِالماء (پانی کے ذریعے علاج) کے بارے میں پڑھا تھا، کہنے لگے مسئلہ ہی کوئی نہیں تم کسی ڈاکٹر کے پاس جاکر وقت ضائع کرنے کے بجائے میرے گھر آجائو، پانچ منٹ میں تمہیں ٹھیک کر دوں گا۔ قیوم صاحب انجم صاحب کے گھر گئے تو انجم صاحب نے ایک ہزار پاور کا بلب جلا کر قیوم صاحب سے کہا ’’ایک فٹ کے فاصلے سے تین منٹ تک آنکھیں جھپکائے بغیر مسلسل اس کی طرف دیکھتے رہو‘‘ قیوم صاحب نے تعمیل کی، اس کے بعد انجم صاحب نے انہیں آنکھوں پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارنے کیلئے کہا، قیوم صاحب نے ایسے ہی کیا جس کے نتیجے میں ان کے ’’ڈیلے‘‘ اپنی جگہ سے ہل گئے۔ ٹی ہائوس میں جب یہ خبر پہنچی اور دوستوں کی طرف سے انجم صاحب کی جواب طلبی ہوئی تو انہوں نے کہا ’’میرا علاج ٹھیک تھا، مریض غلط تھا!‘‘