پاکستان

کوئٹہ میں معمولی تنازع پر چار بھائیوں کا قتل: ’خاندان کے چار لوگ ہم سے بچھڑ گئے، نقصان ناقابلِ تلافی ہے‘

Share

’میرے پھوپی زاد بھائیوں کا کوئی قصورنہیں تھا۔ وہ توبس اپنے ہی گھر کے سامنے ایک چھوٹا سا تھڑا بنا رہے تھے مگر اس پر سب کو جان سے مارنے کی کوشش کی گئی۔‘

یہ کہنا تھا بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے دلاور خان کا جن کے آٹھ پھوپی زاد بھائیوں میں سے چار فائرنگ کے واقعے میں ہلاک ہو گئے جبکہ باقی چار دیگر رشتہ داروں سمیت زخمی ہو گئے۔

سریاب کے علاقے میں پیش آنے والے اس واقعے میں دو گروہوں کے درمیان معمولی تنازع پر فائرنگ سے مجموعی طور پر پانچ افراد مارے گئے جبکہ ایک خاتون سمیت نو افراد زخمی ہو گئے۔

اس واقعے کی ایف آئی آر سریاب میں کیچی بیگ پولیس سٹیشن میں درج کی گئی ہے۔

ایس ایس پی سریاب پولیس ضیا مندوخیل نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ اس واقعے کے حوالے سے اب تک چار افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے جن میں مرکزی ملزم بھی شامل ہے۔

اس واقعے میں مارے جانے والے چار بھائی کون تھے اوریہ واقعہ کہاں پیش آیا اس کا ذکر بعد میں لیکن سب سے پہلے تذکرہ اس واقعے کا جس نے ایک خاندان کو بڑے المیے سے دوچار کیا۔

فائرنگ سے پہلے کیا ہوا تھا؟

واقعے میں زخمی ہونے والے ایک شخص جلال خان کی مدعیت میں درج ہونے والے ایف آئی آر کے مطابق 14 فروری کوان کا بھائی نصراللہ گاہی خان چوک سے پہلے مغرب کی جانب گلی میں واقع اپنے گھر کے سامنے سیمنٹ کا ایک چھوٹا سا تھڑا تعمیرکررہا تھا کہ وہاں وہ افراد آئے اور انھوں نے تھڑا بنانے سے منع کیا۔

انھوں نے کہا کہ ’اس پرمیرے بھائی اور ان کے درمیان بحث ہوئی لیکن لوگوں نے آکر بیچ بچاؤ کروا دیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ شام چھ بجے میں اورمیرے دوسرے بھائی محمد حنیف، محمد دین، نصراللہ، غلام فاروق، احمد دین، حاجی شاہ نواز اور غلام فاروق گھر پر موجود تھے کہ گھرکے دروازے پر دستک ہوئی۔

‘دستک پرمیرا بھائی نصراللہ جب باہرنکلا تو تین لڑکے جو یہاں ایک کار میں آئے تھے نے نصراللہ کو ڈنڈوں اورلاتوں سے مارنے شروع کر دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’شور سننے کے بعد جب ہم باہرنکلے تو ہمیں دیکھ کروہ بھاگے اورانھوں نے وہاں سے ایک کلاشنکوف اورپسٹل اٹھا کر ہم لوگوں پر فائرنگ شروع کر دی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس دوران ایک ویگو گاڑی آئی جس میں شیر خان اوران کا گن مین صالح محمد بمعہ تین نامعلوم افراد اترے اور ہم لوگوں پر پسٹلوں سے فائرنگ کی جس سے مجھے سینے اور کمر میں گولیاں لگیں جس کے نتیجے میں میں زمین پر گر گیا۔ میرے بھائی محمد حنیف ، محمد دین ،نصراللہ اورگاہی خان کے بیٹے ذوالفقار کو بھی گولیاں لگیں جس سے وہ موقع پردم توڑ گئے۔

فائرنگ کی آوازسن کر میرے چچازاد بھائی وحید احمد اورشیر محمد کے علاوہ میرے بھائی غلام فاروق، احمد دین، حاجی شاہنواز، حمیداللہ عرف بابل، میری والدہ اورمیرا بیٹا مزمل گھروں سے باہرنکل کر آئے ۔

ان کا کہنا ہے کہ گاہی خان اوران کا بیٹا فیصل بھی اپنے گھر سے کلاشنکوف کے ساتھ نکل کر آئےا ور انہوں نے بھی فائرنگ شروع کی جس سے میرے بھائی غلام فاروق، احمد دین، حاجی شاہنواز، حمیداللہ، میری والدہ اورمیرا بیٹا مزمل زخمی ہوگئے جن میں سے غلام فاروق زخموں کی تاب نہ لاکرچل بسے ۔

ایف آئی آر کے مطابق گاہی خان کی فائرنگ کی زد میں آ کر شیر خان اور ان کا گن مین صالح محمد بھی زخمی ہوئے۔

فائل فوٹو

فائرنگ میں مارے جانے والے چاروں بھائی کون تھے ؟

فائرنگ کے واقعے میں زندگی کی بازی ہارنے والے محمد دین، محمد حنیف، نصراللہ اورغلام فاروق کوئٹہ میں سریاب میں گاہی خان چوک کے رہائشی تھے۔

ان کا تعلق بلوچوں کے قبیلے لہڑی سے تھا اوروہ حاجی بھورا خان کے بیٹے تھے۔ چاروں بھائی علاقے میں اپنے دیگر بھائیوں کے ہمراہ پراپرٹی کا کام کرتے تھے جبکہ ان کی گاڑیوں کا شوروم بھی تھا۔

’چاروں بھائی شادی شدہ تھے‘

ہلاک ہونے والے چاروں بھائیوں کے بھوپی زاد بھائی دلاور خان نے بتایا کہ ان میں سے کسی کے پانچ اور کسی کے آٹھ بچے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ایک معمولی تنازعے پر فائرنگ سے نہ صرف خاندان کے چار افراد کی ناگہانی موت ہوئی بلکہ ان کے بچے بھی والدین کے سائے سے محروم ہو گئے۔

فائرنگ میں ہلاک ہونے والے ذوالفقار کا تعلق مخالف گروہ سے تھا۔ ان کا تعلق بھی لہڑی قبیلے سے ہی تھا۔

‘ہمارے خاندان کے لیے یہ بہت بڑا صدمہ ہے’

دلاورخان نے بتایا کہ کسی خاندان کے ایک فرد کی ناگہانی موت لوگوں کے لیے ایک بڑا صدمہ ہوتا ہے لیکن ہمارے خاندان کے چار لوگ ہم سے بچھڑ گئے جو کہ ہمارے خاندان کے لیے ایک بہت بڑا صدمہ اورناقابل تلافی نقصان ہے۔

انھوں نے کہا کہ چار بھائیوں کی جان کسی بڑے مسئلے یا تنازعے پر نہیں لی گئی بلکہ ایک چھوٹے سے تھڑے کے لیے نہ صرف ان چار بھائیوں کو مار دیا گیا بلکہ ان کے چار دیگر بھائیوں کے علاوہ دیگر رشتہ داروں کو بھی جان سے مارنے کی کوشش کی گئی لیکن باقی لوگ زخمی ہوئے۔

انھوں نے کہا کہ ’جن لوگوں نے حملہ کیا ان کا گھر میرے پھوپی زاد بھائیوں کے گھر سے بہت زیادہ قریب بھی نہیں بلکہ اچھے خاصے فاصلے پر ہے مگر انھوں نے بلاجواز میرے رشتے داروں کے اپنے گھر کے سامنے چھوٹا سا تھڑا بنانے پر اعتراض کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایسا بڑا مسئلہ نہیں تھا کہ جس کے لیے پورے خاندان کو گولیوں سے بھون دیا جاتا۔‘

پولیس نے اس واقعے حوالے سے اب تک کیا کاروائی کی ہے ؟

کیچی بیگ پولیس نے ہلاک ہونے والے چاربھائیوں کے قتل اوردیگر کو زخمی کرنے کا مقدمہ درج کرلیا ہے ۔

ایس ایچ او کیچی بیگ نے بتایا کہ مقدمہ قتل اور اقدام قتل کے علاوہ انسداد دہشت گردی کے دفعات کے تحت درج کیا گیا ہے۔

جب اس سلسلے میں ایس یس پی سریاب ضیا مندوخیل سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ واقعے کا مقدمہ پانچ ملزمان کے خلاف درج کیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ملزمان میں سے گاہی خان، صدام اور چنگیز خان اور صالح محمد کھیازئی کو گرفتارکرنے کے علاوہ اس واقعے میں استعمال ہونے والا اسلحہ بھی برآمد کیا گیا ہے۔

ایس پی سریاب نے کہا کہ پانچویں ملزم کی گرفتاری اوردیگر آلہ قتل کی برآمدگی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ افسوس ناک واقعہ ایک معمولی بات پر شروع ہوا جس کی مختلف پہلوؤں سے تفتیشں جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں قانون اور انصاف کے جو بھی تقاضے ہوں گے وہ پورے کیے جائیں گے۔