22 کروڑ کے لئے پیر و مرشد کی بشارت
دیکھئے جو ہونا تھا، ہو چکا۔ بات کچھ ایسی بڑی نہیں تھی، کہنہ روایت موجود تھی، بس انجانے میں پاؤں رپٹ گیا اور پھر قسمت کا لکھا پورا ہوا۔ مسہری اور دری کی ایک ساتھ پامالی کا تماشا ایک دنیا نے دیکھنا تھا، سو دیکھ لیا۔ جو ہونا تھی، وہ بات ہو لی کہارو۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس سے آگے کیا ہونے کو ہے۔ جنوری کے پہلے عشرے کا منڈپ تو رسمی دربار کے لئے سجایا گیا تھا، مطبوعہ، مخطوطہ، مفتوحہ اور مدخولہ کے لئے سطوت شاہی کے جھروکہ درشن کا اہتمام تھا۔ جلوس شاہی کا نقارہ بجنے میں ابھی کچھ دیر باقی ہے۔ فیض نہ ہم یوسف نہ کوئی یعقوب جو ہم کو یاد کرے۔ درویش تو جان دادہ ہوائے سر رہگزار لوگ ہیں، ان غلام گردشوں سے تعلق نہیں رکھتے جہاں کے بارے میں خبر ہے کہ نبض شناسی کی باقاعدہ مشق کی جاتی ہے، ہم گلی کوچوں کی خبر رکھتے ہیں اور اپنے جیسی درماندہ اور پسماندہ مخلوق کی چتون کے راز پڑھتے ہیں۔ آج 22 کروڑ کے اسی قافلہ درد منداں کا ذکر ہوگا، جسم اور جاں کی موت سے پہلے کچھ دل کی باتیں کہ لی جائیں۔ نظیر اکبر آبادی کہتے تھے، پھر التفاتِ دل دوستاں رہے نہ رہے۔ اور اب تو التفات کا رنگ بھی بدل چکا۔ ایم ڈی تاثیر نے لکھا، کرم بھی بہ نظر ستم ہو رہا ہے۔ کچھ نکات آج کی صحبت میں عرض کرنا ہیں۔ لکھنے والے کو دعویٰ زیب نہیں دیتا، رائے دیتا ہے۔ پڑھنے والا لکھنے والے سے زیادہ ذہین ہے۔ علم رکھتا ہے، مشاہدے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ گردش فلک کے کیف و کم کو سمجھتا ہے۔ پڑھنے والے کا فیصلہ ہی مقدم ہے۔ یہ جھگڑا ہی پڑھنے والے کی تکریم سے شروع ہوا اور اس کی تحکیم پڑھنے والے کے احترام ہی پر فیصل ہو گی۔
ہمارے بزرگ غیر ملکی حکمرانوں کے غلام تھے۔ اجنبی حکمران ہمارے لئے نیا تجربہ نہیں تھے، کبھی شمال مغرب سے دھاوا بولتے تھے، پھر مشرقی ساحلوں سے وارد ہوئے۔ فرنگی نے ہمارے لئے نئی دنیا کے دروازے کھول دیے۔ ادارے بنائے، قانون مرتب کئے، ضابطے تشکیل دیے لیکن ہمارے بزرگوں نے غلامی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ مزاحمت کا ایک ہی نکتہ تھا، ہمیں اپنی قسمت کے بنیادی فیصلوں پر اختیار نہیں تھا۔ جنگ اور صلح کے فیصلے لندن میں ہوتے تھے۔ ٹیکس لگانے کا اختیار اہل فرنگ کو تھا۔ وسائل کی تقسیم زمیں زادوں کے اختیار میں نہ تھی۔ گویا ریاست اور عوام میں دوئی تھی۔ حکومت کہیں کی بھی ہو، حکمرانی کا معمولی سے معمولی فیصلہ حتمی تجزیے میں ہر باشندے کی روز مرہ زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس دوئی کو ایکتا میں بدلنے کے لئے ہمارے پرکھوں نے جدوجہد کی، پھانسیوں پر جھولے، کالے پانی کی قید کاٹی، عقوبت خانے آباد کیے، قصہ خوانی کی گلیاں گلزار کیں، جلیانوالہ باغ کو رنگین کیا، گوکھلے ہوں یا جناح، نہرو ہوں یا بھگت سنگھ، عطا اللہ شاہ بخاری ہوں یا لاجپت رائے، سیف الدین کچلو ہوں یا سریندر ناتھ بینر جی، سیاسی اختلافات سے قطع نظر آزادی کے سوال پر متفق تھے۔ آزادی ہم نے جیت لی، آزادی کا وعدہ ایفا نہیں ہو سکا۔ ہم اس ملک میں عوام کی حکمرانی کے سوال پر تقسیم ہو گئے۔ پاکستان کے معمار دو قومی نظریے سے چل کر پاکستان کو ایک قوم تک لائے تھے۔ بانیانِ قوم کی آنکھ بند ہونے کے بعد آزادی کی تکذیب شروع ہوئی۔ کیا عبدالرب نشتر کا انتقال 1958میں ہوا۔ نہیں، نشتر صاحب تو 16اکتوبر 51ء کی شام ہی رحلت فرما گئے تھے۔ کالا باغ اور منعم خان اقتدار میں داخل ہوں تو سہروردی، باچا خان اور عبدالصمد اچکزئی بے دخل ہو جاتے ہیں۔ کوثر نیازی اور معراج محمد خان ایک میز پر نہیں بیٹھا کرتے۔ ملک قاسم اور میاں طفیل پر عذاب توڑنے والوں کا کوئی نشان باقی نہیں۔ 3اپریل 1979کی رات ذوالفقار علی بھٹو پہ کیا عالم تنہائی تھا، 29مئی 88ء کو جونیجو صاحب نے اکیلے ہی شام کی چائے پی۔ قادر پٹیل بتاتے ہیں کہ جیل میں ملاقات سے واپسی پر محترمہ بینظیر تھک کر بیٹھ جاتی تھیں۔ درد مندانِ عشق پر ٹھٹھا لگانے والے سرور پیلس کے طعنے دیتے ہیں، اٹک قلعے کی کوٹھری بیان نہیں کرتے۔ مارچ 2018میں رضا ربانی کو ’’آزاد دانشور‘‘ کہا گیا تو محضر کی تحریر معلوم ہو گئی۔ پرویز رشید نے 50برس اسی صحرا نوردی میں کاٹے ہیں، اب تو دیے کی لو کو حلقہ کیے بیٹھے ہیں۔ رانا ثناء اللہ اور سعد رفیق کی ابتلا تو قابل فہم ہے، سلمان رفیق کا جرمِ بے گناہی بالائے فہم ہے۔
سیاسی قائد کشتی کے مانجھی ہوتے ہیں۔ احترام سے انکار نہیں لیکن حقیقی استحقاق کشتی کے مسافروں کا ہے۔ پاکستان کی کشتی میں 22کروڑ مسافر سوار ہیں۔ ان مسافروں کا تحفظ، احترام، خوشی اور خواب مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں مانجھی کے انتخاب پر اختیار ہو، کشتی کی دیکھ بھال میں ان کی رائے شامل ہو۔ انہیں اپنے محصولات پر تصرف ہو۔ پاکستان میں حکمرانی اور عوام میں خلیج کا دو قومی نظریہ ناقابل عمل ہے۔ ہم اگر اطاعت اور تسلیم کا ہر فرمان مان لیں تب بھی 22کروڑ کی محرومی، افلاس اور بے اختیاری اپنا سر اٹھاتی رہے گی۔ ناانصافی کے خلاف اٹھنے والی آواز خاموش کی جا سکتی ہے، ناانصافی کا احساس ختم نہیں کیا جا سکتا۔ پرویز رشید، رضا ربانی اور عبدالغفور حیدری ایوان بالا میں منعقدہ تقریب بے اختیاری میں شریک نہیں ہوئے اور ایک عالم فاضل خاتون ایوان زیریں میں ہاتھ کے اشاروں سے صورت حال پر روشنی ڈالتی رہیں۔ بات کہنے کا اپنا اپنا ڈھنگ ہے جو رنگ طبع سے مرتب ہوتا ہے۔ پڑھنے والا ذہین ہے اور اس کی ذہانت ہی وہ اثاثہ ہے جس سے فیض صاحب نے حوصلہ کشید کرتے ہوئے لکھا، میری جان آج کا غم نہ کر۔۔۔ فیض گیانی تھے۔ جانتے تھے کہ سچل سرمست نے تھر کے صحرا نشینوں کو صدیوں پہلے آگاہ کر دیا تھا کہ بے رنگی ایس رنگ دے اندر سچل آپ رلائی ہے۔ اور اس بے رنگی کے ملال سے نجات کی نوید ان کے بہت بعد آنے والے پیر و مرشد خواجہ غلام فرید نے روہی کے بے آب و گیاہ ٹیلوں پر بسنے والی تہی دست مخلوق کو دی تھی، جھوکاں تھیسن آباد ول۔